ہم اداس کیوں ہیں؟


ملکی سیاست سے سڑاند اٹھنے لگی ہے۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت کا سورج کیوں طلوع نہیں ہو رہا۔ افسوس یہ ہے کہ ملکی سیاست سے بیزار نوجوان نے جب سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی تو نشان پا کے طور پر عامر لیاقت حسین، فواد چوہدری اور کیپٹن صفدر جیسے مردان باصفا میسر آ گئے۔ سیاسی جماعتوں کی سوجھ بوجھ پر نگاہ ڈال لیجیے کہ رضا ربانی کے مقابلے میں صادق سنجرانی نامی کسی شخص پر نگاہ انتخاب ٹھہری۔ دکھ کی گھڑیاں بے شمار ہیں پر یہ کیا کم ہے کہ ستر سال کی طویل سیاسی جدوجہد کے بعدآج کا جمہوریت پسند نواز شریف کی حمایت پر مجبور ہے۔ میڈیا کا موضوع ایک گالیاں ایجاد کرنے والے صاحب بن گئے۔ زوال کی داستان بہت طویل ہے۔ معلوم ہوا کہ منصب انصاف عوامی نمائندہ ہے جسے پینے کے پانی اور ہسپتال کی صفائی میں دلچسپی ہے۔ خوش آئند اقدام ہے مگر دکھ کی گھڑی وہ ہوتی ہے جب منصب انصاف کو سچائی کے لئے قسمیں کھانی پڑیں یا ایک ملزم کی عدالت میں پیشی کے لئے التجائیں کرنی پڑیں۔ اس بیچ سماج میں موجود دانشوروں نے ’دایاں، بایاں، مارکسی، اسلامی، سیکولر ، جمہوری، لبرل‘ نامی کچھ بلبلے تخلیق کر لئے ہیں اور انہی کی حفاظت کو سماجی تبدیلی کا نام دے کر ’بہت اعلی، بہت خوب‘ کی گردان سے خود ستائی کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ یہاں تک تو چلیں خیر ہے مگر کچھ نابغے اس خود ستائی سے ثواب دارین کی توقع بھی منسوب کئے بیٹھے ہیں۔ جلیل مانک پوری نے جانے کتنے حادثوں کے بعد لکھا تھا ’ اشکوں نے گر کے خاک پہ مٹی خراب کی‘۔

سوال بہت ہیں اور پیچیدہ ہیں۔ تاریخ کا دریا کہیں شوریدہ ہوتا ہے تو کہیں آہستہ خرامی سے بہتا ہے۔ دنیا تاریخ سے سبق لیتی ہے۔ ہم تاریخ پر فخر کرتے ہیں۔ کیوں کرتے ہیں یہ کسی کو معلوم نہیں۔ ایک بے معنی جگالی ہے، سو کرتے جائیں۔ تاریخ کے ایک اور دھارے پر مگر ایک اجمالی نگاہ ڈال لیجیے۔ تیرھویں صدی سے پندرھویں صدی تک یورپ نشاة ثانیہ کے دور سے گزر رہا ہے۔ سولویں صدی کے آغاز تک یورپ سے جاگیرداری کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ تین صدیوں کی داستان کالم میں کیسے سموئی جا سکتی ہے۔ ہاں مگر یہ بتایا جا سکتا ہے کہ اس دور نے Martin Luther، John Calvin، Robert Hooke، Galileo Galilei اور Ambrose Paré جیسے لوگوں کو جنم دیا۔ یہ ضرور بتایا جا سکتا ہے کہ میکاولی نے The Prince لکھی، مائیکل اینجلو نے Sistine Chapel کی چھت پر صدیوں کی داستان رقم کی، ڈیونچی نے مونا لیزا تخلیق کی، شکسپیئر نے ہیملٹ لکھا، سر تھامس مور نے Utopia لکھی اور مارٹن لوتھر نے Ninety-Five Theses لکھی۔ یہ چند کتابوں، پینٹنگز، پرنٹنگ پریس یا سرجری پر تھوڑا کام نہیں تھا۔ اس نے پوری تاریخ کا دھارا بدلا۔ یورپ میں ایک نئی تہذیب کا آغاز ہوا۔

نشاة ثانیہ کے ساتھ ہی Reformation کی تحریک اٹھی جس نے انسانوں کو چرچ کے پندرہ صدیوں کے جبر اور بے جا تسلط سے آزاد کرایا۔ اس کے بعد سائنسی انقلاب کا دور آتا ہے۔ فزکس، کیمسٹری، میتھس، فلکیات اور دیگر کئی شعبوںمیں عظیم انقلاب کے علاوہ میڈیکل سائنس، ٹیلی سکوپ، صنعتی مشینیں اور بجلی کے ایجاد نے انسانی زندگی بدل دی۔ اس صدی نے سر آئزک نیوٹن کو جنم دیا۔ یہاں ڈیکارٹ پیدا ہوا جن سے جدید فلسفے کا آغاز ہوا۔

 اٹھارویں صدی انسانی تاریخ میں تبدیلی کی سب سے کارگر صدی ثابت ہوئی۔ اسے Age of Reason کہا جاتا ہے۔ اس دور نے دیدرو، ہیوم، کانٹ، والٹئیر، سمتھ اور روسو کو جنم دیا۔ روسو نے The Social Contract لکھی، والٹئیر نے Philosophical Dictionary لکھی، سمتھ نے The Wealth of Nations لکھی، مونٹسکیو نے The Spirit of the Lawsلکھی۔ ان کتابوں نے دنیا بدلی،دنیا کی تہذیب بدلی، علم کا دھارا بدلا۔ آرٹ، موسیقی، ادب، سائنس، فلسفہ، سیاست اور معیشت کی ترقی نے دنیا کے اقدار بدل ڈالے۔

انیسویں صدی میں سائنس، فلسفہ اور ادب کی کرشمہ سازی سے صرف نظر کر لیجیے تو یہ ایک حوالہ کافی ہے کہ انیسویں صدی نے کارل مارکس کو جنم دیا۔ ان ہزار سالوں میں مغرب فلسفے کے میدان میں مکتبیت (scholasticism) سے لے کر مابعد جدیدت (postmodernism) تک پہنچا۔ اس بیچ تاریخ کے پنے پر بے شمار سنگ میل پڑے ملتے ہیں۔ جدید فلسفہ سے لے کر تجربیت، کلاسیکل لبرلزم، جرمن مثالیت پسندی، وجودیت، لسانی فلسفہ، منطقی ایجابیت، مارکسزم ، سیکولرازم اور مابعد جدیدیت تک جدوجہد کی طویل داستانیں موجود ہیں۔ جدیدت سے مابعد جدیدت کے سفر تک مغرب نے دو عظیم جنگیں لڑی ہیں۔ انسان غلامی سے نکل کر موت کو شکست دینے کے دھانے پر کھڑا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیئے اور دیکھیے کہ ہم ان ہزاروں سالوں میں کہاں کھڑے رہے؟ ادھر تو مشکل یہ ہے کہ یہ بھی معلوم نہیں ہم کون ہیں۔ ہم جب ’ہم‘ کا صیغہ استعمال کرتے ہیں تو اس میں عربوں سے لے کر ترکوں تک اور مغلوں سے لے کر افغانوں تک سب کو اسی ہم میں شامل کرتے ہیں۔ جب اس ہم کا دائرہ پورا ہو جاتا ہے تو اس دائرے کے قطر پر ایک دوسرے کی لاشوں اور اپنوں کو مفتوح کرنے کے علاوہ کچھ دھرا نہیں ملتا۔

بدقسمتی سے ہمارے سماج کی تاریخ نہ صرف بہت حد تک بانجھ ہے بلکہ بہت پیچیدہ بھی ہے۔ ہم طویل عرصے تک نو آبادیاتی تسلط میں رہے۔ نو آبادیاتی تسلط کے دوران ہمارے بنیادی سماجی ڈھانچہ میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے یہ سماج اپنی فطری ڈگر سے ہٹ گیا۔ درحقیقت ہم لوگ (ہم جو کوئی بھی ہوں) یعنی آزاد کالونیز کے شہری اس وقت اصولی طور پوسٹ کالونیل دور میں زندہ ہیں۔ یہ وہ دور ہے جب کالونیل اثرات کے منفی اور استبدادی پہلو کو صاف کر کے سماج کو دوبارہ ایک نئے آغاز کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آگے بڑھنے کا ایک ایسا سفر شروع ہوتا ہے جو اس قوم یا سماج کی جڑوں سے آرہا ہوتا ہے۔ ہم کالونیل اثرات سے آگے آنے کی بجائے یا تو پیچھے جارہے ہیں یا ادھر ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں ابھی ریاست اور نظم اجتماعی کی متفقہ صورت پر کوئی کلی سمجھوتہ نہیں ہوسکا۔ جاگیرداری کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ جمہوریت نہیں آسکی۔ ان طبقات سے طاقت واپس نہیں لی گئی جو نو آبادیاتی دور کی پیداوار ہیں۔ ہم تو ابھی تک جاگیرداری کے دور سے نہیں نکلے، ماڈرن ازم، پوسٹ ماڈرن ازم، جدید فلسفہ، سیکولز ازم، لبرلزم اور جمہوری اقدار ابھی اس سماج سے کوسوں دور ہیں۔

اقبال نے جانے کیا دیکھ کر کہا تھا کہ ’ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ‘۔ ہم تو تاریخ تشکیل دینے کی بجائے تاریخ سے ادھار چاہتے ہیں۔ تاریخ، اجتماعی انسانی افعال کا بامعنی تسلسل ہے اور انسانی افعال زمینی و سماجی حدود کے اندر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ انہی افعال کی بامعنی تعبیر سے نظریات پیدا ہوتے ہیں۔ کوئی بھی نظریہ چاہے وہ سیاسی و مذہبی ہو یا سائنسی و فلسفیانہ ، اپنے حالات سے پیدا ہوتا ہے۔ نظریات اگر حالات سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو محض منہ کا ذائقہ بدلنے کی باتیں رہ جاتی ہیں۔ یا پھر مارکیٹ کی حرکیات کے پیش نظر خود کو کسی فیشن ایبل یا المعروف اصلاحی دائرے سے منسلک کرنے کا رواج ہے جس پر ثواب دارین بھی حاصل ہو سکتا ہے۔

گیبریل گارشیا نے’ تنہائی کے سو سال‘ کی کہانی لکھی تھی جس میں درد و الم ہزار داستانیں موجود تھیں۔ ہم تنہائی کے ہزار سال گزار چکے ہیں۔ ہمارے رنج کی داستان تمام ہونے میں نہیں آتی۔ انسانی اجتماعی دانش میں ہمارا حصہ کتنا ہے یہ نہ ہم سوچتے ہیں نہ سوچنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ واقعہ ہے مگر ہماری دانش کی تصویر ہے۔ کبھی کسی سیاسی جلسے، کسی ٹاک شو، کسی جمعہ کی تقریر کو غور سے سن لیجیے۔ ہر دس منٹ بعد آپ کو لیڈر، تجزیہ کار اور مبلغ غصے میں کف اڑاتا نظر آئے گا۔ غصے میں اس کے جملوں پر غور کیجیے۔ آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ وہ غصہ کس پر کر رہا ہے؟ آپ کو یہ بھی علم نہیں ہو گا کہ وہ غصے میں کیوں ہے۔ ہم بس عظیم قوم ہیں۔ ہم نعروں سے بہلتے ہیں۔ ہم اپنے درسی کتب کے پنوں پر بچوں کو درس دیتے ہیں کہ، ’ کاٹ کر رکھ دئیے کفار کے لشکر کس نے‘؟ اور ہم نے تیئس مارچ کے بینروں پر لکھوایا ہوا ہے، ’ امن کا نشان۔ ہمارا پاکستان‘۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah