خوش ترین قوم اور گرما گرم کھانا


جب سب لوگ خود کھانا گرم کرنا شروع ہو چکے ہیں اور کھانا گرم کرنا ایک مائیکرو ویو کی مار رہ گیا ہے تو پاکستانی قوم نے ایک اور معرکہ مارا، برصغیر کی خوش ترین قوم ہونے کا اعزاز۔ بچوں کی شرح اموات میں ہم سب سے آگے، عورتوں کی جنسی ہراسگی میں ہم سب سے آگے، پولیو میں ہم افغانستان کے برابر، ناخواندگی میں بھی ماشا اللہ ہم آگے، اب اس قدر باشعور، باوقار اور حساس قوم خوش نہ ہو تو اور کیا۔ شک کی کیا گنجائش، بے خبر لوگ ہمیشہ چین کی نیند سوتے ہیں۔

یہ تو سقراط، پلاٹو، وین گو، جون ایلیا، منٹو، قرت العین حیدر، مارکس اور سٹیفن ہاکنگ جیسے فلاسفر، پینٹر، ادیب اور سائنسدان نہیں کہ معاشرے کے غم میں گھلیں۔ ہم تو ابھی تک گھر گھر کھیل رہے ہیں اور لڑائی اس بات پر ہے کہ کھانا کون گرم کرے گا۔ میر ا جسم میری مرضی پر بحث ہے، بھائی اتنی ضروری باتیں ہیں یہ روز کا مسئلہ ہے، نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ کیسے میری مرضی، وہ جو بری جہیز کے سوٹ ہیں وہ کون پہنے گا! کیسے میری مرضی اگر کوئی گھورے تو اس کی مرضی، ریپ کرے تو اس کی مرضی، ایسڈ پھینکے تو اس کی مرضی، چلتے چلتے اگر ہاتھ مارے تو کیا ہوگیا، آپ کو دیکھ کر اگر کھانسی آجائے تو بدگمان عورت الٹا سیدھا سوچتی ہو۔

ذرا زیادہ پاس کوئی کھڑے ہو کر بات کرلے تو شک، اس کی مرضی آپ کو کس نے کہا ہے کہ آپ گھر سے باہر جائیں۔ کیسے میری مرضی حد ہو گئی، دیا ہے اسلام نے آپ کو مرضی کا حق، نکاح میں نہ کرنے کا، طلاق لیننے کا، دوسری شادی کا، جائیداد کا، کاروبار کا، تعلیم کا اور گواہی کا، مگر ہمارے معاشرے کی بھی کوئی روایات ہیں، بھلا نکاح میں نہ کرنا، جائیداد مانگنا، طلاق لینا کوئی اچھا لگتا ہے۔ کھانا گرم کرو اور ٹی وی دیکھیں۔ دماغ پر زور ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ سیرت النبیؐ کا ایک باب یاد آگیا کہ خاتم نبی کس طرح ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنا پسند فرماتے تھے۔ مگر خیر ہم امتی تو بہت گناہ گار ہیں، ایسی ہستی کا نام لینے کے بھی قابل نہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ، ہمارا دماغ کسی بھی اوریجنل مسئلے پر نہیں، مورننگ شوز، آم کھانے والی، لان کے جوڑے جیتنے والی قوم کی خوشیاں سلامت رہیں۔ بھلا بچوں کو اگر ساتھ والے گھر بھیج دیا کھیلنے، شادی پر یا تقریب پر کسی رشتے دار کے گھر اکیلے چھوڑ دیا تو کیا ہوا، ذرا سی کسی عورت کی طلاق یا بیوگی پر تبصرہ کرلیا تو کیا ہوا! پیسے کم پر ایک چھوٹا بچہ ملازم رکھ لیا تو کیا ہوا، بیوی کا مذاق اڑا لیا تو کیا ہوا۔ کسی نے کیسے سوچا کے وہ زندگی میں نیا سٹارٹ لے سکتا ہے، آپ کی اگر واقفیت نہیں کسی ادارے میں تو ذرا موصوف یا موصوفہ کو ای میل یا ملنے کی ہمت کریں، دماغ درست ہو جائے گا، ایسی کمال کی بدتمیزی ہوگی۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ وہی موصوف یا موصوفہ کسی کانفرنس میں مسکراتے ہوئے بتائیں گے کہ سسٹم بدلنا بہت ضروری ہے ورنہ ہم سب تباہ ہو جائیں گے۔ لیکن سسٹم بدلنے کے لیے نیا ذہن اور آئیڈیاز چاہئیں مگر نہ آپ کے پاس تجربہ نہ سفارش، ٹیلنٹ کا اچار ڈالیں کیا!

سکول کو ہوم ورک سے فرصت نہیں کہ وہ بچوں کے تحفظ پر کمیونٹی سروس کرے، اداروں کو فرصت نہیں کہ وہ میرٹ پر کام کریں، والدین کو حوصلہ نہیں کہ بچے کی بات پر یقین کریں، عورت میں ہمت نہیں کہ ایک دوسرے کا ساتھ دے، این جی او کو کانفرنس سے فرصت نہیں، میرے اور آپ کے جیسے فارغ لوگ پتہ نہیں کیوں نہیں سمجھتے ہیں۔ ٹی وی دیکھیں، ڈرامے دیکھیں، مارننگ شوز دیکھیں، پکوڑے بنانے کی نئی ترکیب سیکھیں، شادی پر کتنے مختلف طریقوں سے پیسہ اجاڑا جاتا ہے سیکھیں۔ کافی عرصہ پہلے میں نے ڈیلی ٹائمز کے لیے مکمل تحقیق اور فیلڈ انٹرویوز کے بعد ِ: بچوں کے سکول کے بھاری بستے اور اس کے اثرات پر آرٹیکل لکھا، اس آرٹیکل کو بہت سراہا گیا اور کافی جگہ اس کا ریفرنس دیا گیا۔ پچھلے دنوں ایک مورننگ شو کی میزبان نے اس آرٹیکل کے تمام اعداد و شمار، ڈاکٹرز کی رائے اور دیگر تحقیق من و عن استعمال کی، صرف اخبار کا اور میرا ریفرنس بھول گئیں اور بھی ایسے کئی لوگ ہیں اردگرد لیکن اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر سوچنا نہیں چاہیے، بھلا ورک ایتھکس کوئی پریکٹکل بات نہیں۔

سب سے ضروری سوال یہ ہے کہ کل کیا پکے گا، کھانا کون گرم کرے گا، آپ زیادہ سے زیادہ اپنی برتری کیسے ثابت کرسکتے ہیں، دوسروں کی ٹانگ کیسے کھینچی جائے، کون کیسے کپڑے پہنے، کس کو کس طرح رہنا چاہیے، عمران خان کی شادی، نیٹ ورکنگ اور دوسروں کی زندگی سب اتنے اہم مسئلے ہیں۔ دنیا کی بے حس، سوری سوری خوش ترین اقوام میں سے ایک ہونا اتنی بڑی بات ہے، میرے آرٹیکل پر دھیان مت دیں، خواہ مخواہ میں نے رنگ میں بھنگ ڈالا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).