آشوبِ آگہی اور 23مارچ – (قائد اعظم نے 23 مارچ 1948کے دن قوم کے نام کوئی پیغام کیوں نہ جاری کیا؟)


کوشش ہوتی ہے کہ مشکل الفاظ کا استعمال کم ہو مگر تئیس مارچ کے حوالے سے یہی عنوان مناسب تھا۔ لفظ آشوب، پریشانی، فتنہ اور فساد کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ آگہی کا تعلق، کسی بات کا علم ہونے سے ہے۔ گزشتہ سال ایک اور اخبار میں تئیس مارچ کے حوالے سے کالم لکھا۔ قارئین کے علم میں لایا کہ تئیس مارچ، پاکستان میں قرارداد لاہور یا قراردادِ پاکستان کے حوالے سے نہیں منایا جاتا تھا۔ پاکستان کا پہلا آئین، حسنِ اتفاق سے تئیس مارچ 1956ء کو نافذ ہوا۔ تاجِ برطانیہ سے رسمی تعلق ختم ہونے پر اِس دن کو (Republic Day) یومِ جمہوریہ کے نام سے منایا گیا۔ غریبوں میں کھانا تقسیم ہوا۔ فلائنگ کلب کے طیاروں نے ’’یومِ جمہوریہ مبارک‘‘ کی عبارت کے ساتھ اہم شہروں پر پمفلٹ گرائے۔ پوری دُنیا سے مبارک باد آئی۔ مختلف ممالک کے وفود تقریبات میں شریک ہوئے۔ افواج کا مارچ پاسٹ اور فضائیہ کے طیاروں کی سلامی تقریبات کا حصہ بنی۔اکتوبر 1958ء میں مارشل لا لگا۔ اُن دنوں 14اگست یومِ پاکستان کے طور پر منایا جاتا تھا۔ مارشل لا حکومت نے 14اگست کو یوم آزادی کا نام دیا اور تئیس مارچ، یومِ جمہوریہ سے یومِ پاکستان میں تبدیل کر دیا۔ دلچسپ بات ہے کہ فوجی حکومت نے یومِ پاکستان کو 1940ء کی قراردادِ لاہور کے حوالے سے نہیں منایا۔ حکومت کی طرف سے جو پیغامات جاری

ہوئے اُن میں کوئی حوالہ موجود نہ تھا۔ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں پرانے اخبارات کا خزانہ آج تک محفوظ ہے۔23مارچ 1959ء کے اخبارات دیکھے۔ حکومت نے چاہے ذکر نہ کیا ہو مگر چند اخبارات میں اہلِ علم کے مضامین میں یہ حوالہ نظر آیا۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ اور حامد جلال کے مضامین سپلیمنٹ میں شائع ہوئے۔ اُن میں یاد دلایا گیا کہ یہ دن قراردادِ لاہور کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ اِس کے علاوہ پاکستان ٹائمز کے اداریہ میں قراردادِ لاہور کا ذکر ہوا۔ یہ اہلِ صحافت کا کمال تھا کہ تئیس مارچ کا ’’یومِ جمہوریہ‘‘ سے تعلق ٹوٹتے ہی اِس دن کو قراردادِ لاہور سے نتھی کر دیا۔

ایک صاحبِ علم نے توجہ دلائی کہ قائد اعظم ہر سال تئیس مارچ کو قوم کے نام پیغام دیا کرتے تھے۔ اِس بات کی گواہی اُس زمانے کے اخبارات بھی دیتے ہیں اور (Stanley Wolpert)سٹینلے ولپرٹ کی کتاب (A Shameful Flight) میں بھی اِس کا ذکر موجود ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کی قیادت نے پاکستان کے وجود میں آتے ہی، قراردادِ لاہور اور قراردادِ پاکستان کو فراموش کر دیا۔ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں 1948ء سے لے کر 1956ء تک کے اخبارات جو تئیس مارچ کو چھپے، اُن کا بغور مطالعہ کیا۔ تئیس مارچ 1948ء کو قائد ِاعظم زندہ تھے۔ اُنہوں نے کراچی میں ایک صحت مند دن گزارا مگر اِس دن کے حوالے سے قوم کے لئے کوئی پیغام جاری نہ ہوا۔ نہ اسکولوں یا دفاتر میں چھٹی ہوئی، نہ کسی تقریب کا اہتمام ہوا اور نہ مسلم لیگ کی کسی تنظیم نے کوئی قرارداد منظور کی۔ شاید اُس کی وجہ یہ تھی کہ قائدِ اعظم اور اُن کے ساتھیوں کی نظریں ماضی کے بجائے پاکستان کے مستقبل پر مرکوز تھیں۔ قائد ِاعظم کی وفات کے بعد بھی بانیانِ پاکستان نے اِس دن کو کوئی اہمیت نہ دی۔

میرے قریبی دوست پروفیسر محمد طیب لاہور میں امراضِ چشم کے مشہور ڈاکٹر ہیں۔ اُن کے والد بشیر احمد مرحوم نے نوائے وقت کے پہلے سال، مارچ 1940ء سے مارچ 1941ء تک تمام شمارے محفوظ کئے۔ یہ خزانہ ڈاکٹر طیب نے مجھے فراہم کیا۔ نوائے وقت اُن دنوں پندرہ روزہ اخبار تھا۔ اُس زمانے کے حالات جاننے کے لئے اُنہیں بغور دیکھا۔ حیرت کی بات تھی کہ کسی شمارے میں بھی قراردادِ لاہور کے حوالے سے ایک سطر بھی موجود نہیں۔

جب ہمارے شعور نے آنکھ کھولی تو اُس وقت ہم بھول چکے تھے کہ تئیس مارچ کبھی یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا تھا۔ حقیقت کا ادراک ہونے پر، بارہا خیال آیا کہ اِس دن کو پاکستان میں پہلی دفعہ یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا گیا تھا۔ ایک محکوم نو آبادی کا طوق گلے سے اُتار کر پاکستانی قوم نے اپنے نظامِ حکومت کیلئے (Republic) یا جمہوریہ کا انتخاب کیا۔ اِس قسم کے سنگِ میل قوموں کی تاریخ میں بہت اہم ہوتے ہیں۔ کیا یومِ جمہوریہ کے حوالے کو فراموش کرنا ضروری تھا؟ بہت سے قارئین کو شاید اِسی تحریر سے علم ہوا ہو کہ پاکستان بنانے والی قیادت نے تئیس مارچ کو، قراردادِ لاہور کے حوالے سے منانے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ یہ دِن، پہلی دفعہ تاجِ برطانیہ کی حکمرانی سے رشتہ توڑنے اور پاکستان کو جمہوریہ بنانے کے حوالے سے منایا گیا۔ رفتہ رفتہ اِس کا ربط قراردادِ لاہور اور پھر قراردادِ پاکستان سے قائم ہوا۔ ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں بہت سے دانشوروں نے تئیس مارچ کا تعلق دو قومی نظریئے کے ساتھ جوڑ کر پاکستان کا قبلہ دُرست کرنے میں حکومت کی بھرپور مدد کی۔

خیال آتا ہے کہ 1959ء کے بعد بہت سے جمہوریت پسند سیاست دان مسندِ اقتدار پر بیٹھے۔ یا تو اُنہیں خیال نہیں آیا یا ہمت نہ ہوئی کہ اِس تبدیلی کو ختم کر کے اِس دن کے تقدس کو یومِ جمہوریہ کی اصل صورت میں بحال کر دیں۔ اِس بارے میں سوچتے ہوئے آگہی کا آشوب ذہن کو گھیر لیتا ہے۔ 2009ء میں بطور سیکرٹری کابینہ، حکومت کے ایک اہم وزیر کو یہ تجویز تحریری شکل میں دی۔ میرا خیال تھا کہ اُن کا ’’جمہوری ذہن‘‘ پھڑک اُٹھے گا، مگر اُنہوں نے وزیر اعظم کے لئے ڈرافٹ سمری پڑھنے کے بعد صرف اتنا کہا ’’یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ اِس وقت جمہوریت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔‘‘

1742ء میں ایک انگریز(Thomas Gray) تھامس گرے نے اپنی درسگاہEton College کے لئے ایک غنائیہ نظم لکھی۔ اُس کا ایک مصرع(Igorance is bliss)لا علمی ایک نعمت ہے، انگریزی زبان کا محاورہ بن گیا۔ اگر لاعلمی ایک نعمت ہے تو آشوبِ آگہی ایک عذاب۔ اُردو زبان کے بے مثل شاعر امجد اسلام امجد کی ایک نظم ’’آشوبِ آگہی‘‘ نظر سے گزری۔ اُس نظم کی چند لائنیں آنکھ میں کھب گئیں۔ امجد لکھتے ہیں۔
کوئی بتلائے مجھے
میرے اِن جاگتے خوابوں کا مقدر کیا ہے
سب کی قسمت ہے فنا، جانتا ہوں
پھر بھی یہ خواب میرے ساتھ لگے رہتے ہیں
صورتِ زخم ہرے رہتے ہیں
آگہی جُہل سے بدتر ٹھہری
اہلِ دل کیلئے آگہی کا عذاب کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اِسی لئے امجد اسلام امجد آگہی کو جُہل سے بدتر قرار دیتے ہیں۔ سوچتا ہوں اگر چالیس سال تک سرکاری ملازمت کی صحرا نوردی نہ کی ہوتی تو لاعلمی کے تکیے پر ذہن کو پُرسکون نیند آتی۔ اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ آگہی کا آشوب میرا مقدر ٹھہرا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood