تحریک آزادی کا مجاہد بھگت سنگھ شہید


قوموں کی ترقی میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے نوجوان کسی بھی معاشرے کے مستقبل کے آئنیے ہوتے ہیں کسی قوم کی کامیابی یا ناکامی کا زیادہ دارومدار نوجوان پہ ہوتا ہے۔ جنگ و جدل سے کسی قوم کو نہ ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ان کی تاریخ اور تہزیب مٹانا ممکن ہے۔ جہاں قوموں کی ترقی میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے وہاں قوموں کی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار بھی اکثر نوجوان ہی ہوتے ہیں۔

ہندوستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے جبر سے ازادی دلانے میں بھی ہندوستان کے نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ ان چند انقلابی نوجوانوں میں بھگت سنگھ کا نام سرفہرست ہے۔
بھگت سنگھ اور ان کے انقلابی ساتھیوں کا کردار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
ہندوستان کے انقلابی نوجوان کامریڈ بھگت سنگھ، سکھدیو اور راج گرو انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا تھا۔

جس وقت انقلابی نوجوانوں نے انگریز سامراج کو للکارتے ہوئے ہندوستان میں مزدور انقلاب کی بات کرتے تھے اس وقت گاندھی بھی اصلاح پسند خیالات کے ساتھ سامراج سے اس بنیاد پہ گٹھ جوڑ کرنے کےلیے تیار تھا کہ ہندوستان کی تقسیم قبول نہیں لیکن وہ انقلابی نوجوانوں کی جدوجہد کو تسلیم کرنے کےلیے تیار نہیں تھا۔

جب گاندھی نے عدل تشدد کی بات کی تو انقلابی نوجوانوں کا موقف تھا کہ عدم تشدد کی بات نوآبادیاتی نظام کو طویل کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا خیال تھا کہ حقیقی آزادی حاصل کرنے کیے ظالم کی زبان میں جواب دینا پڑے گا۔ گاندھی نے مصلحت کا شکار ہو کر انگریز کو ان کی زبان میں جواب دینے کی ہمت نہیں کر سکا۔

لالہ لاچپت رائے ہندوستان کی ٹریڈ یونین کا ایک اہم اور سرگرم راہنما تھا ان کو کو ایک خلاف مظاہرہ میں زخمی کیاگیا۔ زخمیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے لالہ لاچپت شہید ہو گئے کامریڈ بھگت سنگھ اور دیگر نوجوانوں نے لالہ لاچپت کی موت کا بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا اور گورے کو موت کے گھاٹ اتر دیے۔

گورے کو قتل کرنے کے بعد نوجوان انقلابیوں نے ہندوستان کی آزادی اور شوسلسٹ ہندوستان کے قیام کی نہ صرف پرچار کیے بلکہ اس راستے میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کےلیے ہندوستان کے انقلابی نوجوانوں پہ مشتمل سوشلسٹ ریپبلکن ارمی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ گورے پولیس افسیر کو قتل کرنے کے بعد انہوں نے پمپلٹ نکالے اور واضح کیے کہ ان کا نشانہ بڑا افسر تھا مگر غلطی سے گورے پولیس کو قتل کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ لالہ لاچپت کی موت کے بدلہ گورے کو قتل کیا گیا ہے۔

انگریز سامراج کے گماشتے ان نوجوانوں کو کسی نہ کسی طریقے سے راستے سے ہٹانے کےلیے ہندوستان کے اصلاح پسند راہنماؤں کو بھی استعمال کیا۔
بھگت سنگھ اور ساتھیوں نے اسمبلی کے اجلاس میں کاغذ کے بم پھینک کے یہ پیغام دیا کہ آج کاغذ کا بم تھا اگر سامراج نے ہندوستان میں تسلط برقرار رکھا تو اصلی بم پھینکنے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

دونوں واقعات کے بعد بھگت اور ان کے انقلابی ساتھی انگریز کو انتہائی مطلوب افراد میں شامل ہوگئے۔ کافی عرصہ روپوش رہنے کے بعد انہوں نے گرفتاری دی۔
گرفتاری کے بعد ہندوستان میں نوجوانوں نے گاندھی پہ دباؤ ڈالا کہ وہ بھگت اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کےلیے انگریز سے بات چیت کریں۔ بھگت نے اس خطرے کو بانپتے ہوئے اپنے والد کو خط لکھتا ہے کہ میرے لیے معافی نامہ مانگ کے اپ انصاف نہیں کر رہے ہیں۔ گاندھی اصلاح پسند سوچ سے اگے نہیں جا سکا۔ اس نے نہ بھگت اور ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر سکا اور نہ ہی اس نے کھل کے ان کی مخا لفت کی۔

بھگت سنگھ اور دیگر ساتھی گاندھی کی عدم تشدد کے نظریہ کو آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ظالم سے اس کی زبان میں ہی بات کی جاسکتی ہے۔
بھگت سنگھ اور ان کی ساتھیوں کو اخر کار پھانسی دیا گیا مگر ان کی وطن کےلیے محبت اور سوشلسٹ انقلاب کےلیے قربانیاں یاد رکھی جائیں گی۔
مزدور انقلاب زندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).