کہے حسین فقیر نمانا


اے۔ حمید کے تذکرے سے معلوم ہوا کہ مادرعلمی گورنمنٹ کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد کے بھائی بھاٹی گیٹ کی گلیوں میں دیوانہ وار پھرا کرتے تھے اور شاہ حسین کے کلام کو نعرہ مستانہ کی مانند اندرون لاہور کی گلیوں میں سنایا کرتے تھے۔ اگر زہے نصیب سایئکل پر جاتے ہوئے ڈاکٹر نذیر احمد اپنے بھائی کو کہیں پا لیتے تو اتر کر گلے لگاتے اور دلجوئی کا برادرانہ فریضہ ادا کرکے دوبارہ اپنا راستہ ماپتے۔۔۔

حسن داستاں ہے کہ بھاٹی گیٹ اپنے راہی کو ٹکسالی پہ چھوڑ آتا ہے، اور اندرون لاہور کی بلند سطح یعنی پانی والے تالاب سے آگے وہ مسجد آجاتی ہے جہاں سے شاہ حسین نے قرآن کی تعلیم حاصل کی۔۔ اور تعلیم بھی کیا حاصل کی، شاہ حسین کے لیے قرآن کے کیا معنی تھے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ جب امامت کرواتے تو ایک آیت پڑھتے اوراچانک نعرہ لگاتے اور ہنستے ہنستے جماعت سے پرے چلے جاتے، پھر دوبارہ جب یہ آیت پڑھتے کہ ”دنیا کھیل اور فریب ہے‘ ‘ تو پھر نماز ٹوٹ جاتی اور کبھی رونے لگتے، کبھی ہنسنے لگ جاتے۔

                کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے

کیا نتیجہ نکلنا تھا ؟ لوگوں نے ملامت کرنی شروع کردی اور ملامتی صوفیوں کے طبقے میں ایک اور اضافہ ہوگیا۔ لاہور پہ سلطنت قائم تھی مغل بہادر کی، کسی بھی فرماںرواں کی اپنے عہد میںموجود مذہبی طبقے کے ساتھ خوشگوار مراسم اس کے عہد کے دورانیہ کے لیے باعث برکت بن جاتے ہیں، سو بادشاہ جہانگیر کی نیت پہ شک کیے بغیر یہ مان لیتے ہیں کہ جہانگیر نے اپنے ایک درباری ملازم کی ذمہ داری لگائی کہ شاہ حسین کے شب و روز پہ نظر رکھے یوں وہ ملازم روزانہ کی بنیاد پہ سرگرمیاں لکھ لیتا اور روزنامچہ کی صورت میں محفوظ کر لیتا۔

شاہ حسین کی سیاست میں مداخلت کیا ہوگی جو اپنی ہی ذات کی الجھنوں سے لڑ رہا تھا، دوئی کے زنگار کو دھو رہا تھا اور اس نتیجے پہ پہنچا تھا کہ

                اندر توں ہی، باہر توں ہی روم روم وچ توں

                توں ہی تانا، توں ہی بانا، سب کچھ میرا توں

                کہے حسین فقیر نمانا، میں ناہیں سب توں

تاریخ محفوظ ہے خلجی کی سلطنت کو نظام الدین اولیا نے کچھ نہیں کہا، اور جہانگیر کے تخت کو شاہ حسین نے کچھ نہیں بگاڑا۔ حکومتوں میں حصہ تو ان لوگوں کا ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے ” اسلام بچاﺅ “ اور اپنے لیے ” اسلام بناﺅ“ کی تحریکیں چلاتے ہیں۔ بندئہ خدا کی سلطنت ہمیشہ اس کا نفس ہوتا ہے، وہ ساری دی گئی زندگی کی امانت میں اس پہ غالب ہونے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اس سلطنت کے سامنے بادشاہوں کے تخت حقیر دکھائی دیتے ہیں اورملا ںکے سارے وعظ و نصیحت صرف مسجد کی چار دیواری تک محدود رہ جاتے ہیں، اورجو صدا مسجد کی دیواروں سے نکل کر بھاٹی کی گلیوں تک جا پہنچی تھی وہ شاہ حسین کی پکار تھی۔

                کہے حسین فقیر سائیں دا خلقت گئی ادھوری۔

شاہ حسین کی کافیوں میں پنجاب کی تہذیب سانس لیتی ہے، وہ نمی محسوس ہوتی ہے جو اس وقت راوی کی لہروں میں موجود تھی۔ روایتی اور گھریلو اشیا ءکو اس احسن انداز کے ساتھ استعاراتی طور پہ برتا کہ چرخے سے انسانی جسد خاکی مراد لےا اور راہ سلوک کے طالب کے لیے دھاگے کا لفظ مستعار لینا اور راہ عشق کو سوئی کے سوراخ سے گزرنے کے مترادف قرار دینا شاہ حسین کے تخلیقی اپج کا پتہ دیتا ہے

                عاشق ہوویں تاں عشق کماویں

                راہ عشق سوئی دا نکا، دھاگہ ہوویں نال جاویں

                باہر پاک، اندر آلودہ، کیا توں شیخ کہاویں

                کہے حسین جے فارغ تھیویں تاں خاص مراتبہ پاویں

ایک جانب مادھو کی قبر، ایک جانب شاہ حسین کی اپنی قبر یوں مکمل ہوا پورا نام ’مادھول ال شاہ حسین ‘

مادھو نے بیشتر زندگی ہندو رہ کر گزاری مگر خالق حقیقی سے جب ملا تو کلمہ گو ہو کر ملا۔ مادھو لال نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ شاہ حسین کو اپنی زندگی میں مادھو کی قربت کی وجہ سے ملامت کا سامنا کرنا پڑا مگر ’ تیہنوں کافر کافر آکھدے تو آہوآہو اآکھ ‘ کے مصداق شاہ حسین قائم رہے اور مادھو جنگ لڑنے فوج کے ساتھ گیا ہوا تھا، واپسی پہ شاہ حسین کو نہ پایا تو خود بھی زیادہ عرصہ نہ گزری اور چند ماہ بعد پھر انضمام ہوا۔ توحید کے بے شمار رنگ ہیں۔ مگر سب رنگ ایک ہی رنگ کے پھوٹنے سے وجود میں آتے ہیں، ان سب کا منبع ایک ہی ہو تا ہے۔ نظام الدین اولیا کے پاس ہردیو راجکمار یونہی مسلمانوں کے چال چلن دیکھنے آجاتا تھا، اپنی فارسی میں لکھی آپ بیتی میں کہتا ہے کہ باوجود ہندودھرم کا پیرو ہونے کے، لنگر میں شریک کیا جاتا اور نظام الدین اولیا کی محفل میں بیٹھتے وقت عقیدہ نہیں پوچھا جاتا تھا لہذا خواجہ کی باتیں چھاپ تلک سب چھین لیتی ہیں اورتوحید کا ایسا سوز جگاتی ہیں کہ پتا نہیں چلتا کب ہردیو سے احمد ایاز بن جاتا ہے۔ (یاد رہے کہ یہ احمد ایاز محمود غزنوی والا غلام نہیں ہے)۔

بہار، بسنت، روشنی، چراغاں اور مادھولال شاہ حسین کا عرس آپس میں خاصا ربط رکھے ہوئے ہے۔ عرس کو عرس کیوں کہا جاتا ہے؟ حالانکہ یہ تو یوم وفات ہے اس کا چراغاں اور خوشی سے کیا تعلق؟ جواب عرض ہے کہ اہل دل کی موت کا مطلب مرنا نہیں بلکہ دریا کا سمندر میں اتر جانا ہوتا ہے، جز کا کل کے ساتھ متصل ہوجانا ہوتا ہے۔ شادمانی کے عالم میں عروسہ یا دلہن ایک جا سے دوسرے جا منتقل ہو جاتی ہے، سلسلہ چشت کے ایک صوفی نے کہا تھا کہ میرے جنازے کے ساتھ قوالی کا اہتمام کرنا، یقینا یہ ایک خوشی کا موقع ہوگا۔ یعنی جو دوئی کی آخری نشانی تھی میری ذات میں، وہ بھی اب توحید کے بحر بے کراں میں تحلیل ہونے لگی ہے۔

                                حکایت غم ہجراں نے طول کھینچا ہے

                                ہم آج مر کے یہ قصہ تمام کرتے ہیں

شاہ حسین کے عرس کی بھی تقریبات جاری ہیں، پہلے یہ لاہور کا ایک اہم واقعہ ہوتا تھا، خوشی کی نوید ہوتا تھا، میلے کا آغاز ہوتا تھا۔ ۔ دہشت کی لپیٹ نے ہمارے موضوع ہی بدل دیے، سوچنے کا زاویہ ہی پلٹ دیا، اس خطے میں دہشت گردےی ہمیشہ موجود رہی مختلف ناموں کے ساتھ، جو امن کی بات کرتے انہیں القابات دے کر رد کر دیا جاتا کبھی کافر، کبھی مرتد، کبھی ملحد اور کبھی ملامتی۔ سوچنے پہ پہرا بٹھا دینا اور سوال پہ دربان، یہ بھی دہشت گردی کی ایک قسم ہیں۔ اس خطے کے لوگوں کو سوچنے دیا جائے، انسان کعبے سے بھی زیادہ مقدم ہے، خدا کی نشانی ہے۔ اور خدا کی نشانی کافر کیسے ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).