دنیا کے آخری سفید گینڈے کو الوداع!


پچھلے ہفتے دنیا کا آخری سفید نر گینڈا دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ایک نوع صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔ یہ بات شاید سمجھدار لوگوں کے لیے ایک معمولی خبر ہو جسے پڑھ کے وہ سٹاک مارکیٹ میں حصص کے بھاؤ پڑھنے میں مشغول ہو گئے ہوں یا ڈی ایچ اے کی نئی آبادیوں میں پلاٹوں کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پہ غور کرتے کرتے کافی کی چسکیاں لگایا کیے ہوں۔

لیکن مجھے ایک بار پھر اسی کیفیت سے دوچار کر گئی جو سالوں پہلے، راجہ کی موت پہ طاری ہوئی تھی۔

راجہ ایک بچھیرا تھا، جو ہماری گھوڑی رانی کے ہاں پیدا ہوا۔ میں نے اتنا خوبصورت گھوڑا زندگی بھر نہیں دیکھا۔ بادامی رنگ کے اس بچھیرے کی چاروں ٹانگیں گھٹنوں تک کالی تھیں اور اس کی ایال اور دم اس قدر سیاہ اور چمکیلی تھیں کہ آ نکھ نہ ٹھہرتی تھی۔ آ نکھیں بھی سیاہ تھیں اور ان پہ اتنی لمبی لمبی پلکیں اور ان پلکوں کو جھپک جھپک کے وہ ہمیں بے حد حیرت سے دیکھا کرتا تھا۔ چنچل اتنا کہ پٹھے پہ ہاتھ نہ رکھنے دیتا تھا۔ ذرا قریب جاؤ تو بدک کے یہ جا وہ جا۔

رانی اس کی شوخیاں دیکھتی تھی اور کبھی کبھار سرزنش کو ہلکی سی تادیبی پھرر کر دیا کرتی تھی۔ لیکن صاف لگتا تھا اسے اپنے سپوت کی یہ شرارتیں بہت عزیز ہیں۔ راجہ دن بھر دوڑ دوڑ کے تھک جاتا تو خود ہی اصطبل میں جا کے ماں کے پہلو میں چپ چاپ کھڑا ہو جاتا۔ ایک دن راجہ حسبِ معمول چہلیں کرتا، کھیتوں کی مینڈھیں پھلانگتا نکلا تو شام تک واپس نہ آ یا۔

رانی کئی بار بےچین ہو کے پھاٹک تک آئی، ہنہنائی، مگر جواب میں راجہ کی اتراتی ہوئی ہنہناہٹ نہ سنائی دی۔ شام کو ہم بچے ٹارچ لے کر اسے اِدھر اُدھر ڈھونڈتے پھرے لیکن راجہ کا کوئی پتہ نہ ملا۔ رانی غمزدہ سی پھاٹک سے لگی کھڑی رہی۔

اگلے روز دوپہر کو کسی نے خبر دی کہ راجہ ساتھ والے زمیندار کے کھیتوں میں جانوروں کے لیے بنائے گئے گڑھا نما پھندے میں گرا ہوا ہے۔ ہم رسے اور ڈنڈے لے کر وہاں پہنچے۔ راجہ کو باہر نکال لیا گیا۔ وہ زندہ تھا لیکن گرتے ہوئے اس کی گردن کی نرم ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور رات بھر اس گڑھے میں پڑے رہنے سے اس کی گردن ہمیشہ کے لیے کمر کی طرف مڑ گئی۔

راجہ سخت خوف اور تکلیف میں تھا۔ جو جو علاج ممکن تھا کیا گیا لیکن گردن نہ سیدھی ہونا تھا نہ ہوئی۔ جانے یہ اصول کس ناشدنی نے بنایا ہے اور یہ اصول تھا بھی یا صرف ہمیں تسلی دینے کے لیے کہا گیا کہ گھوڑے جب بہت بیمار ہو جائیں تو وہ ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ تب انھیں رحم کھاتے ہوئے گولی مار دی جاتی ہے۔

راجہ کو بھی بہانے سے پچھلی چراگاہ میں لے جا کے گولی مار دی گئی۔ چمار اس کے خوبصور ت جسم کو ریڑھے پہ ڈال کے جانے کہاں لے گئے۔ کئی روز تک رانی نے ٹھیک سے دانہ نہ کھایا۔ ہم انسان بےحس ہو تے ہیں، جلد ہی بھول بھال گئے۔ لیکن میرے ذہن کے کسی حصے میں ایک سوال ہمیشہ پکتا رہا۔

وہ گڑھا وہاں کیوں کھودا گیا تھا؟ ہمارے علاقے میں کون سے ایسے موذی جانور تھے جن کے لیے وہ پھندا لگایا گیا تھا؟ راجہ کے سوا کوئی جانور آزاد نہیں پھرتا تھا۔ راجہ فقط چند ماہ کا بچھیرا تھا، اس لیے اس کے اجاڑا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، نیز ان دنوں کھیتوں میں ابھی کچھ بھی نہیں بویا گیا تھا۔ جواب سامنے تھا، لیکن نہ دل نے کل مانا اور نہ آج۔ راجہ کی خوشی؟ اس کا آزاد پھرنا؟ اس کی خوبصورتی؟ کس بات نے حسد کو اتنا بڑھایا کہ اس کی جان لے لی گئی۔

اب سوچتی ہوں کہ راجہ کی موت صرف ایک علامت تھی۔ دنیا سے مختلف انواع کارخصت ہونا کوئی انہونی نہیں ہے۔ ارتقا کے اس عمل میں فطرت کسی نوع کو منتخب کر لیتی ہے اور کسی کو رد کر دیتی ہے۔ لیکن یہ کیسا ارتقا ہے کہ انسان کے سوا ہر جانور کو معدومی کاخطرہ لاحق ہے؟ سوائے انسان کے کسی کی نسل یوں بےہنگم طور پہ نہیں بڑھ رہی کہ خوراک اور پانی کی کمی کاخطرہ ہو؟ اگر یہ ارتقا ہے تو کچھ عرصے تک دنیا میں انسانوں کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا۔

سوڈان، مجھے دکھ ہے کہ میں اس خود غرض نوع سے تعلق رکھتی ہوں، جسے تم جانوروں کی خوبصورتی اور آزادی سے حسد ہے۔ تمہاری موت پہ میں فقط یہ چند سطریں لکھ سکتی تھی۔ الوداع پیارے! اور چونکہ تم جانور ہو، اس لیے تم روزِ حشر ہمارے دامن گیر بھی نہیں ہو سکتے، ہم تب بھی صاف بچ کے نکل جائیں گے۔ اشرف المخلوقات جو ٹھہرے!

گذشتہ ہفتے سوڈان کو ابدی نیند سلا دیا گيا اور اس طرح دنیا کا آخری شمالی سفید نر گیندا نہیں رہا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).