فرقہ واریت کا سبب نہ بنو انسان کا احترام سیکھو


فرسٹ ائیر کی بات ہے، فزکس کا لیکچر ختم ہوتے ہی میں کلاس سے باہر نکلنے کے لئے کھڑا ہوا، اک مانوس آواز نے میرا پیچھا کیا “یا علی” بے ساختہ میرے منہ سے نکلا “حق اے”۔ پھر تو جیسے اس کی عادت ہی بن گئی۔ رضوان روزانہ مجھے دیکھ کر یہی نعرہ لگاتا اور میں مسکرا کر کہہ دیتا “حق اے”۔ میری مسکراہٹ اس کے لئے تکلیف دہ بنتی گئی۔

سال کے آخر میں اس سے رہا نا گیا۔ آخر پوچھ ہی بیٹھا کہ آپ تو دیوبندی ہو۔ ہاں تو پھر؟ میں نے سوال کیا کہنے لگا “پھر بھی آپ علی کا نام سن کر مسکرا دیتے ہیں جبکہ دیوبندی تو اہلبیت کو مانتے نہیں”۔ یہ سوال میرے لئے نیا نہیں تھا۔ میں پوچھا آپ نے کسی دیوبندی سے پوچھا ہے کہ وہ اہلبیت کو مانتا ہے یا نہیں؟ وہ خاموش ہوگیا۔ اسے بتایا سمجھایا کہ کوئی مانے یا نا مانے مقدس ہستیوں کا احترام مجھ پر فرض ہے اور میں اپنے عمل کا جواب دہ ہوں۔ دوسری بات فریق ثانی کا مؤقف سنے بغیر اس پر فتوی دینا اخلاقی بددیانتی ہے۔ کسی دیوبندی سے کم از کم پوچھ ہی لیتے کہ ان کے ہاں اہلبیت کی کیا شان ہے۔ فرقہ واریت یہیں سے شروع ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں ضیاء ناصر صاحب نے جعلی سکرین شاٹ کی وجہ سے عدنان کو “تقیہ باز” اور نجانے کیا کچھ کہا۔ عدنان سے پوچھنے اور تحقیق کرنے کی بجائے کفر کا فتوی تھما دیا۔ فتوی لگانے کے بعد جو قابلِ مذمت عمل تھا وہ من چاہے الفاظ میں سر عام معافی تھی۔ گویا کھلی دہشتگردی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک نام نہاد عالم دین کا فریق ثانی پر کفر کا فتوی محض دوسرے فرقے کا ہونے کی وجہ سے لگایا گیا۔ اگر میرے جیسا سر پھرا ہوتا تو قطعاََ اس طرح معافی نا مانگتا اور  نہ معافیاں  مانگتا پھرتا۔

عدنان اگر زرا سا بھی سیاسی یا مذہبی ہوتا تو نجانے کیا کچھ ہو جاتا۔ اک معصوم کی جان جا سکتی تھی۔ یہاں سب دوستوں کا شکریہ جنہوں نے بروقت عدنان کو سپورٹ کیا اور ایک نام نہاد عالم دین کو بیک فٹ جانے پر مجبور کیا۔ فرقہ واریت یہیں سے شروع ہوتی ہے پچھلے سال روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک آنا ہوا۔ یہاں کوئی کسی سے اس کا فرقہ نہیں پوچھتا ۔ مختلف مسالک کے نمازی ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے۔ سعودی مصری، پاکستانی کو نماز پڑھانے کے لئے مصلے پر کھڑا کر دیتے ہیں۔ دوسرے کو خود سے افضل سمجھتے ہیں۔

کوئی ہاتھ سینے پر باندھے یا ناف پر، ساتھ والا اسے یہ نہیں کہتا کہ تیری نماز نہیں ہوئی۔ قدموں کے درمیان فاصلے پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی۔ رفع یدین کرو نا کرو۔ سب چپ چاپ اپنی اپنی نماز پڑھتے ہیں۔ یہاں آ کر مختلف بیرون ممالک کے لوگوں ساتھ دوستی ہوئی۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مصری سے معذرت اور شکریہ ادا کرنے کا ڈھنگ آیا۔ فلپائنی سے اپنا کام خود کرنا ۔ بنگالی، نپالی سے وقت کی قدر ۔ چائنیز سے بچت۔ سوڈانی سے اعتماد اور حوصلہ۔ غرض ہر شخص اپنے اندر الگ دنیا رکھتا تھا۔

مصری کافی دوست بن گئے ہیں۔ ایک کے ساتھ زرا زیادہ تعلق ہے وہ اکثر میرے دفتر میں ہی بیٹھ جاتا ہے کبھی میں اس کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس کے پاس ایک انڈین نیلم کمار نامی لڑکا سکارف فولڈر کا کام کرتا ہے۔ ایک دن مصری نے اسے کہہ دیا کہ مسلمان ہو جاؤ۔ لڑکے نے مصری کو کھری کھری سنادی کہ تم سارا دن کیا کرتے ہو۔ تمہارے کرتوت سے واقف ہوں۔ نماز تم نہیں پڑھتے، موبائل پر لڑکیوں سے باتیں کرتے رہتے ہو اور مجھے کہتے ہو مسلمان ہو جاؤ۔ تین دن بعد مجھے علم ہوا تو میں نے اس لڑکے کے ساتھ دوستی لگانے کا سوچ لیا۔ آتے جاتے ہاتھ ملانا اس سے حال چال پوچھنا اسے پیار سے “پا جی” کہہ کر مخاطب کرنا۔ چند دنوں میں دوستی ہو گئی۔

میں اسے کھانے پر روم میں بلا لیا۔ ہچکچاتے ہوئے اس نے دعوت قبول کر لی۔ اپنی استطاعت کے مطابق جو کچھ بنا سکتا تھا بنا لیا۔ کچھ بازار سے لے آیا۔ ساتھ بٹھا کر اسے بولا کھاؤ۔ اب وہ خاموش، کھانے کی طرف ہاتھ نا بڑھائے۔ پوچھا کیا وجہ ہے کھاتے کیوں نہیں تو کہنے لگا پہلے آپ کھا لیں پھر میں کھا لوں گا۔ زبردستی اس کے منہ میں دو نوالے ڈالے۔ اس کی ہچکی بندھ گئی آنسو گالوں سے ٹپک گئے۔ ضبط نا کر سکا اور روتے ہوئے کہنے لگا سائیٹ میں میرا گلاس بھی مسلمانوں نے الگ رکھا ہوا ہے۔ ساتھ بٹھا کر کھلانا تو دور کی بات۔

مجھے تو علم تھا اس لئے زیادہ حیرانی نہیں ہوئی مگر مسلمان ہوتے ہوئے شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ دل کیا ڈوب مروں یا زمین پھٹ جائے اور میں سما جاؤں۔ انسانیت کی تذلیل یہیں سے شروع ہوتی ہے بظاہر کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں۔ مگر ہمارے اخلاق سے ایک لمحے کے لئے بھی محسوس نہیں ہوتا۔ امن، جنگ، صلح، لڑائی میں ہمارا کردار ہمارے مسلمان ہونے کی نفی کرتا ہے۔ ناپ تول، دھوکہ دہی میں ہم نمبر ون ہیں۔ خدارا اب سدھر جاؤ۔ مسلمان ہو تو اپنے عمل سے ثابت کرو۔ فرقہ واریت کا سبب نا بنو۔ امت کو جوڑنے کا عہد کرو۔ انسانیت کا احترام کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).