پیار کا گھاٹ – کسی پر بیتا ایک افسانہ


ریلیف پراجیکٹ کے سلسلے میں انتظایہ سے روزانہ ہی رابطہ رہتا تھا۔ پولیس سے بھی باڈر انتظامیہ سے بھی سیکیورٹی والوں سے بھی۔ ان رابطوں کے دوران ہونے گپ شپ میں امیر صاحب کے معاملات بھی پتہ لگے۔ ان کے غیرقانونی غیرنصابی کام خوب چل رہے تھے۔ ویسے ہی جیسے ایسے کام چلا کرتے ہیں۔ اسمگلنگ کے دھندے کو انتظامیہ نظر انداز ہی کرتی ہے کہ باڈر پاس رہنے والوں کے ذرائع آمدن ویسے ہی محدود ہوا کرتے ہیں۔

امیر صاحب کو کچھ دن کے لئے اسلام آباد جانا پڑا مجھے بتایا تو ان کی رہائش کے انتظامات اور مہمانداری کے لئے ہیڈ آفس میں کہہ دیا۔ ان کے اس دورے کی وجہ سے ہماری شام اور رات گئے ہونے والی گپ شپ بھی نہ رہی اور وقت گزاری کا ایک ہی ذریعہ ان کی لڑکی سے بات چیت ہی رہ گیا۔ اس سے بات چیت دوستی کے درجوں سے آگے بڑھ چکی تھی اور اب ہم ہر طرح کی بات کرنے لگ گئے تھے۔

ایک دن اس نے پوچھا کہ آپ کو رمشہ اچھی نہیں لگی۔ میں نے کہا رمشہ اچھی ہے لیکن ہمیں اتنی کم عمر لڑکیاں ہی اچھی نہیں لگتی۔ اس نے وجہ پوچھی تو لمبی تقریر کر دی کہ تجربات برے ہیں۔ ہم مزہ چاہتے تربیت دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ برابر کا میچ ہوتا۔ ان کا تو شرمانا رونا ہی ختم نہیں ہوتا۔ غرض اس ٹاپک پر جو بکواس ہو سکتی تھی کی جو تاریخ تھی وہ بیان کی۔

یہی باتیں کرتے اچانک اس نے بتایا کہ آپ کو پتہ رمشہ کیوں آئی ہے۔ اس کو اس کے والد سے ہی مسئلہ ہے۔ دو بار اسے والدہ نے بروقت بچایا اور اب یہ مستقل یہیں رہے گی۔ میں نے کہا یہاں اس کو تمھارے ابا سے کون بچائے گا اس نے جواب دیا کہ ابا اس کے ماموں ہیں کچھ شرم کریں۔ ہم ہنسنے لگے۔

مجھے تقریر آ گئی تو میں نے بہت تفصیل سے بتایا کہ سیکس پیار کے عمل کا حصہ ہے ہر کسی کو پیار کے اس گھاٹ اترنا ہوتا ہے بس خیال اتنا ہی کرنا ہوتا کہ جس کے ساتھ اتریں دل بھی اسی کا ہو اور جسم بھی ساتھ دے۔ ان باتوں کا الٹا اثر ہونا ہی تھا۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی میرے کمرے میں آ گئی۔ ترسے ہوئے لوگ بھلا انکاری ہوتے ہیں، لگے رہے۔ پھر یہ معمول بن گیا امیر صاحب کی واپسی تک۔

انکے آتے ہی سب بدل گیا میری حماقت کے دفتر سے ان کی میزبانی کرائی تھی۔ وہیں سابق پارٹنر نوکری کرتی تھی۔ اس سے مل کر امیر صاحب سب سمجھ گئے۔ کوئی کسر تھی تو پوچھنے پر پوری ہو گئی۔ ہمارے کرتوت آشکار ہوگئے۔ امیر صاحب نے واپسی پر آتے ہی مجھ سے ملاقات کی۔ اپنے گھر سے چلے جانے کو کہا۔ کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی اچھا وقت گزرا کہہ کر نکل آیا۔
اگلے دن امیر صاحب کی بیٹی دفتر نہ آئی تو سمجھ آ ہی گئی کہ کیا ہوا، کیوں نہیں آئی۔

کچھ دن بعد دعوتی کارڈ آیا۔ کھول کر پڑھا تو پتہ لگا کہ امیر صاحب کی بیٹی کی شادی رمشہ کے بھائی کے ساتھ ہو رہی ہے۔ یہ راضی کیسے ہو گئی اس کو تو کوئی اور پسند تھا۔ یہی سوچ رہا تھا امیر صاحب پہنچ گئے کہ آپ کو گھر لے جانے آیا ہوں۔ ڈر محسوس ہوا تو اک پولیس افسر کو فون کیا کہ امیر صاحب کے گھر جا رہا۔ وہاں مجھے کال کرتا رہے۔ گھر پہنچے تو امیر صاحب مجھے ایک کمرے میں بٹھا کر اندر چلے گئے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ان کی بیٹی کمرے کے اندر آئی۔ اسنے پہلی بات یہ بتائی کہ رمشہ سے آپ کا ابھی آج شام کو نکاح ہے۔

حیرتوں میں دبا میں سوچ رہا تھا کہ کیا کیسے کہ اس نے کہا رمشہ کے بھائی سے شادی کی شرط ہی میں نے یہ رکھی تھی میں نے کہا اور وہ تمھارا عاشق تو اس نے کہا اس کی حالت زار کا پتہ لگ گیا تھا ان راتوں میں جو ہم دونوں نے اکٹھے گزاریں۔ یہ سن کر اسے کہا تو پھر مجھ سے کرتی شادی کہنے لگی نہیں مجھے کوئی وعدہ نبھانا ہے۔ میں نے کیا انکار کرنا تھا گنجائش ہی نہیں تھی کوئی، اسی شام نکاح ہوا۔

میں رمشہ کے ساتھ بیٹھا سب کچھ سوچ رہا تھا کسی تفصیل میں کوئی دلچسپی نہیں تھی پہل کرنے کا سوچ ہی نہیں رہا تھا۔ کم عمر لڑکی اپنے خیالات یاد آ رہے تھے۔ انہی سوچوں میں گم رمشہ پر نظر پڑی تو وہ مجھے گھور رہی تھی۔ آنکھوں میں اداسی نہیں تھی بلکہ محسوس ہوا کہ یہ چمک تو کچھ خباثت بھری سی ہے۔ اس نے بولنا شروع کیا کہ خود کشی کر رہی تھی میں۔ تنگ تھی اپنے آپ سے اپنے باپ سے اپنے حالات سے ادھر اس لئے آئی تھی کہ گھر سے دور جا کر مرونگی۔

اک اک حرف پڑھا میں نے جو لکھا آپ نے چیٹ میں لڑکی جب آپ سے ملنے آئی تو میں نے چیٹ پڑھی۔ پیار میں بدن اور دل ساتھ لے کر اترتے ہیں۔ ان سب کو انہی کی باتوں میں مار آئی ہوں۔ میں مطلب سمجھنے کی کوشش میں ہی تھا کچھ پوچھنا چاہا تو لب ہلنے کے قابل ہی نہ رہے تھے کہ ان پر کہ اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے تھے۔ مجھے اپنے ساتھ لے کر پیار کے گھاٹ اتر گئی تھی۔

وسی بابا نام رکھ کے لکھی ہوئی اک پرانی کہانی

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi