میری ماسی میرا شریک حیات کیوں چنے؟


”میں ایک ماسی کی پسند سے اپنے شریک حیات کا انتخاب کیوں کروں؟ “ یہ میری ایک دوست کے الفاظ تھے، اس روز میں اس کی سالگرہ تقریب میں شریک ہونے گئی تھی۔

میری دوست جہاں اچھی شکل رکھتی ہے وہاں وہ با اخلاق بھی ہے۔ جس کی عمر اس وقت ستائیس سال کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ اس میں گھرداری کی تمام صفات بھی موجود ہیں۔ گھر کے مالی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایک بینک میں نوکری کرنا پڑی۔ لیکن آج بھی ہمارے ہاں لڑکیوں اور عورتوں کو ملازمت کرنے پر کئی قسم کی طعنہ زنی کا شکار ہونا پڑتا ہے، مگر وہ ان تمام تر مشکلات کا سامنہ کرنے کے باوجود آج تک اپنی ملازمت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

مگر ہماری ماؤں کو لڑکی کے جوان ہونے پر اس کی شادی بیاہ کا غم کسی دیمک کی طرح کھائے جاتا ہے۔ سو اس کی ماں بھی بہت پریشان تھی۔ لہٰذا انہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ کروانے کے لیے یہ ذمے داری ایک ماسی کو سونپ دی تھی۔

ماسی کو تو جیسے ایک نیا شکار ہاتھ آ گیا اور وہ آئے دن میری دوست کے گھر کوئی نہ کوئی رشتہ لے کر پہنچ جاتی تھی۔ ایک روز جب میں اپنی دوست کے ہاں اس سے ملنے گئی تو کچھ دیر بعد وہ عورت کمرے میں گھس آئی اور ہم دونوں کے سامنے بیٹھ کر ایک لڑکے کی تصویر رکھ کر اس کی تعریفوں کے پل باندھ کر گن گانے لگی۔

” اے باجی کر لو نہ، دیکھو کتنا پیارا ہے، رانیوں کی طرح تم راج کرو گی، اے باجی اتنا خوبصورت ہے۔ اس نے تو کبھی سگریٹ تک کو نہیں چھوا، گھر میں نہیں محل میں رہو گی۔ صرف ایک بار غور سے دیکھو۔ اب دیکھو نہ اتنی عمر ہو گئی ہے اور جیسے جیسے عمر بڑھتی جائے گی اچھے رشتے بھی ہاتھ سے چھوٹتے جائیں گے۔ “ میری دوست نے مجھے دیکھا اور وہ رو پڑی۔ میں نے ماسی کو باہر جانے کا کہا اور وہ ہمیں کوستی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔

ان دنوں میں محسوس کیا کہ میری دوست اس معاملے کی وجہ سے شدید ڈپریشن کا شکار ہے۔ جسے ایک اچھے سائیکاٹرسٹ اور سائیکوتھراپسٹ کی ضرورت تھی۔ مگر اس پر مسلسل اس بات کا دباؤ ڈلا جا رہا تھا کہ وہ رشتوں سے انکار کرنے کی بجائے جلدی سے ہاں کر دے تاکہ ماں باپ کے سر سے اس کا بوجھ اتر جائے۔

میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک ان پڑھ، عورت کیسے کسی کی زندگی کے اہم ترین فیصلے میں اپنا اثر دکھا کر ہمیں کسی کے گلے بھی باندھ سکتی ہے۔ وہ ہمیں کسی فروٹ والے، کسی دکاندار یا کسی دودھ بیچنے والے کے قابل سمجھتی ہے۔

ہمارے اپنے والدین بھی اس معاملے میں اتنے بے بس ہو جاتے ہیں کہ شادی بیاہ جیسے اہم ترین معاملات ایک ماسی کے سپرد کردیتے ہیں۔ ہم کیوں نہیں اپنی بیٹیوں کو یہ اختیار دیتے کہ اپنی مرضی سے وہ اپنے شریک حیات کا انتخاب کر سکیں۔ کیا یہ ان پر ایک ظلم و جبر کی صورت نہیں ہے۔

رشتے والی ماسی کے لیے تو یہ ایک کاروبار ہے، اسے اس کام کے لیے ایک مخصوص رقم ملتی ہے۔ اسے پھر اس بات کی کیا فکر ہے کہ کسی لڑکی کا مستقبل تباہ ہو جائے یا سنور جائے۔ کسی بھی انسان کے لیے شادی کرنا ایک اہم ترین اور نازک سا فیصلا ہوتا ہے، ویسے بھی ہماری سماجی تشکیل اور سماجی و نفسیاتی رویے ایسے ہیں کہ بیٹیوں کو ہی گھر کی عزت کا خیال رکھنے کا کہا جاتا ہے۔ مگر کیا یہ خیال ہمیں اس لمحے نہیں آتا جب ہم کسی ماسی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہماری بچی کا رشتہ کروا دو۔ اور گھر کی عزت ہر بار بیٹی ہی کیوں بنتی ہے؟ کیا کسی بیٹے کا فرض نہیں ہے کہ وہ بھی گھر کی عزت کا اتنا ہی ذمے دار ہو جتنا ہم کسی بیٹی کو ٹھہراتے ہیں۔

شادی کا مطلب محض گھرداری کرنا، بچے پیدا کرنا، انہیں سنبھالنا، شوہر کی خاطر مدارات کرنا ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بیٹی کی سسرال کے گھر سے لاش آنے کو بھی اچھا شگون مانا جاتا ہے۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ عورت خود الگ سے ایک جیتا جاگتا وجود ہے۔ وہ محض کسی کے گلے باندھنے کے لیے تخلیق نہیں کی گئی ہے۔ مگر ہم نے عورت کو صرف ایک عورت ہی سمجھا ہے، اسے انسان سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں جو یہ رشتوں ولا ماسی کلچر ہے، اس میں تو وہ عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں جو لڑکیوں کو بیہلا پھسلا کر اپنے جال میں بھی پھنسا لیتی ہیں۔ الگ الگ لڑکوں سے ان کی ملاقاتیں کروا کر ان کے ساتھ جو حشر کرتی ہیں، پھر کیا اس بات کی گنجائش رہتی ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو ان کے حوالے کر دیں۔ اس قسم کے ناٹک رچائے جاتے ہیں جس میں سب کچھ نقلی ہوتا ہے۔ وہ (ماسی) آپ کو لڑکے کا گھر بھی دکھائی گی، ان کے والدین سے بھی ملوائی گئی مگر یہ سب جعلی ہوتا ہے یہ سب حربے لڑکیوں کو شیشے میں اتارنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ لڑکے لڑکی کی ملاقات کے بہانے جو کچھ کیا جاتا ہے، وہ باعث شرم ہے۔ مگر ہم بھر بھی ان ماسیوں پر یقین کرتے ہیں کہ یہی ہماری بیٹیوں کا مستقبل سنوار سکتی ہیں۔

کسی زمانے میں تو یہ بات عام تھی کہ گاؤں کی پنچایت کا بابا ہی لڑکیوں کے رشتے کرادیا کرتا تھا۔ مگر یہ عمل بھی غلط تھا، کیوں کہ انسانی اور سماجی لحاظ سے کسی بھی انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس بات کا فیصلا خود کر سکے۔ جب ہم کسی لڑکے کو اس بات کو حق فراہم کرتے ہیں کہ وہ پسند سے شادی کرے تو کیا یہ حق کسی لڑکی کا نہیں ہونا چاہیے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی زندگی کا خیال کوئی اور کیوں رکھے گا، جو کہ صرف کچھ دنوں کے لیے ہم سے میل جول رکھتا ہے۔

مذہنی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو لڑکیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند سے شادی کریں، ان سے پوچھا جائے کہ انہیں کس قسم کا شریک حیات پسند ہے۔ اگر ہم انہیں اس حق سے محروم کرتے ہیں تو پھر وہ تمام دیگر حقوق نبھانے کی پابند نہیں ہیں جن کا تقاضا ہم ان سے ہر حالت میں کرتے ہیں۔

ہمارے والدین کو یہ فکر تو کھائے جاتی ہے کہ لڑکی جوان ہو گئی ہے، اب اس کی شادی کروا دی جائے مگر وہ اس بات کی پرواہ کیوں نہیں کرتے کہ اس کی تربیت بہتر انداز سے کی جائے۔ اسے بوجھ تصور نہ کیا جائے۔ بچپن سے ہی اس کے دماغ میں یہ تصور پنپنے سے گریز کیا جائے کہ گھر کی عزت اسی کے ہاتھوں میں ہے، اس لیے وہ اسے نیلام کرنے سے پرہیز کرے۔

انہیں اتنی آزادی ضرور ملنی چاہیے جو کہ ان کا حق ہے۔ اس لیے یہ بھی ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنے دیا جائے۔ کیونکہ شادی کرنے کے بعد رشتے والی ماسی تو زندگی نہیں گزارے گی۔ لہٰذا ان کی خواہشات کا احترام کرنا بھی لازم ہے تاکہ وہ جس مرد کو اپنا شریک حیات بنانا چاہتی ہیں، اسی کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی بھی رکھ سکیں اور اس بات کو بھی منوا سکیں کہ ان کے اپنے وجود کی بھی کوئی اہمیت ہے۔

تعارف:
صدف شیخ لکھنے پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں، انہیں سماجی و سیاسی مسائل پر لکھنا پسند ہے۔

صدف شیخ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صدف شیخ

صدف شیخ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہیں سندھی اور اردو رسائل و اخبارات میں کالمز لکھنا پسند ہے۔

sadaf-shaikh has 11 posts and counting.See all posts by sadaf-shaikh