ایک پاکستانی ماں یورپ میں


ہمارا تعلق ایک اصول پرست گھرانے سے تھا، والد صاحب کے کچھ اصول تھے ان کو توڑنے کا کوئی تصور ہی نہیں کرسکتا تھا۔ بچیوں کی تعلیم کے خلاف تھے، اس لئے سکول کے بعد ہی چولھا چکی پہ لگا دیا کالج کا تو سوچنا بھی اصول میں نہیں تھا۔ شادی ہوگئی، اپنے اصولوں کے ساتھ، کچھ عرصے کے بعد خاوند یورپ آگئے والد صاحب نے ہمیں بھی یورپ جانے کے لئے کہ دیا اور حکم دیا کہ واپس مت آنا جب تک میں نہ کہوں۔ ہمیں اس وقت تو برا لگا کہ کو ئی باپ ایسا کیسے کہ سگتے، لیکن آج دس سال بعد لگتا ہے کہ وہ کتنا آگے کا سوچ رہے تھے، ہم اللہ جنت دے۔

مشرف کے دور میں یورپ آئے۔ بوریا بستر گول کیا جہاز میں پہلی بار بیٹھ گئے۔ ہم یو رپ پہنچ آئے اور لیگل طریقے سے۔ یہاں آئے تو دنیا ہی اور لگی جیسے کوئی اور جہاں میں آگئے ہوں۔ سب ایک جیسے گھر ایک جیسے سکول۔ ایک جیسے ہوسپٹل۔ باھر جانے سے گبھرانے لگے سب لوگ انگریزی بو لتے تھے تو احساس کمتری کی وجہ یا جو بھی کیوں کہ پاکستان میں تو لوگ پہلے شکل دیکھتے اور جائزہ لینے کے بعد آپ کی تعلیم کتنی کون سے سکول سے لی وغیرہ۔ لیکن ہمت کرکے پہلے سکول گئے بچوں کو لے کر تو اندازہ ہوا انسانیت کیا ہوتی ہے۔

انگریز استانی میرے پاس آئی پوچھا انگریزی آتی ہے ہم نے نفی میں سر ہلادیا۔ کہتی نو پرابلم بچے کو چھوڑ جانا نہ کوئی فیس نہ سیکورٹی نہ داخلہ فیس ہم تو حیران ہوگئے۔ آتے ہوئے ایک پاکستانی مل گئیں۔ دیکھ کہ بہت خوشی ہوئی تو ان سے پوچھا یہ غریبوں کا سکول ہے لیکن والد صاحب نے کہا تھا جو کمانا بچوں کی تعلیم پہ لگانا۔ وہ تھوڑا مسکرائی اور ایک بندے کی طرف اشارہ کرکے بو لیں یہ ڈاکٹر ہیں ایک دن کا ہزار یورو کماتے ہیں، پاکستانی کوئی ڈیڑھ لاکھ ، تو ان کی بچی بھی اسی سکول میں پڑھتی ہے۔ یہاں سب سکول ایک جیسے اور فری ہوتے ہیں۔

یہ بات ہضم تو نہیں ہوئی اس وقت لیکن آج تو کوئی نیا بندہ آئے تو ہم اس کو یہ بتاتے ہیں۔ پھر بیماری کی وجہ سے ہاسپٹل جانا ہوا۔ کال کی ایمبولینس آئی اور ہاسپٹل گئے سب نرسز ڈاکٹر خود باہر آئے نہ کو ئی کمپاؤڈر نہ کوئی فیس جمع کرائی علاج کرایا اور واپس اور وی آئی پی ہاسپٹل لگا ہم تو حیران ہوتے گئے کہ یہ کتنے اچھے لوگ ہیں جو ہم باھر والوں کے لئے بھی وہی تعلیم وہی علاج دے رہے ہیں جو ان کے اپنے لوگوں کے لئے ہے۔

ہر ضلع میں سیم سکول سیم ہاسپٹل اور سیم پولیس سیم سبجیکٹس۔ ہم تو حیران ہوتے جدھر جاتے نہ کوئی کپڑے پہ نہ کوئی شکل پہ غور کرتا۔ نہ پوچھتے کون ہو کدھر سے آئے ہو۔ کسی کا رش میں کندھا لگ جاتا تو سوری کہتے۔ دکانوں پہ سب لائن میں لگتے اپنی باری کا انتظار کرتے۔ نہ امیر کا پتا چلتا نی غریب کا۔ نہ کوئی نوکر نہ چوکیدا نہ ڈراٸیور۔ تو سوچتے یہ تو غیر مسلم لیکن ایسے زندگی گزارتے جو ہمارے اسلام نے ہمیں سکھائی تھی۔

قانون سے واسطہ پڑا تو حیران ہو گئے۔ امیر غریب کے لئے ایک قانون۔ نہ کو ئی سفارش نہ کوئی رشوت ہر ضلعے میں کو رٹ تاکہ کہیں اور نہ جانا پڑے۔ یہ سب کچھ دیکھ کے تو ہمیں اپنی کم تعلیم کا احساس تو ختم ہو ہی گیا ساتھ اپنے اپ پہ بھروسا ہونے لگا گھر کے پاس دیکھا تو Education for adults لکھا تھا۔ اندر گئے تو مختلف ملکوں کے لوگوں کو ہر عمر کے لوگوں کو فری انگلش سکھائی جاتی۔ ہم نے بھی کلاسز شروع کر لیں۔ کچھ سیکھ لیا تو ڈرئیونگ ٹیسٹ پاس کیا اور خود روڈ پہ گاڑی نکالی تو سوچا کاش پاکستان بھی ایسا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).