مجھے شربت نہیں چاہیے، صاحب


خواب کے بارے میں عمومی خیال یہ ہے کہ یہ لاشعوری خیالات، نا آسودہ خواہشات یا خوف سے جنم لیتے ہیں۔ انسان خواب کیوں دیکھتا ہے ،سائنس دان دہائیوں سے اس موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں۔ سائنس دانوں نے دماغ کی میپنگ تو کر لی اور یہ بتا دیا کہ خواب دماغ کے کس حصے سے جنم لیتے ہیں۔ تاہم خوابوں کے جسمانی، حیاتیاتی اور نفسیاتی پہلوﺅں پر ابھی تحقیق جاری ہے۔ خواب عموماَ ترتیب وار نہیں ہوتے۔ آپ کسی جنگل میں چل رہے ہوتے ہیں۔ اچانک آپ کے پیچھے ایک شیر بھاگنا شروع دیتا ہے۔ آپ دوڑتے ہیں اور کسی درخت کی آڑ میں پناہ لیتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد جب سانس بحال ہوتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ آپ لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم کے پیچھے کسی پول کی آڑ میں کھڑے ہیں اور جو شیر آپ کے پیچھے تھا اب وہ ایک ڈاکو کی صورت ہاتھ میں بندوق لئے آپ کی تلاش میں ہے۔

ہر رات کی طرح یہ بھی ایک عام رات تھی۔ میں نے خواب میںدیکھا کہ میں ایک جلسے میں کھڑا ہوں۔ سٹیج سے کسی مقرر کی آواز رہی تھی۔ مقرر کی صورت نظر نہیں آ رہی تھی مگر لہجے سے لگ رہا تھا کہ کوئی بلوچی بولنے والا بھائی تقریر کر رہا ہے۔ آس پاس نگاہ دوڑائی تو محسوس ہوا جیسے ہم تربت میں کھڑے ہیں۔مقرر نے فرمایا،’ آج میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے یہاں کھڑے ہو کر شرم آ رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم بلوچستان بھر میں شربت کے ڈیم بناتے مگر بلوچستان بھر تو کیا ہم تو تربت میں ایک شربت ڈیم نہ بنا سکے۔ وقت ابھی گزرا نہیں۔ شربت سر سے اونچا نہیں ہوا۔ حکمرانوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ تربت کی عوام کے لئے ایک شربت ڈیم بنا کر ان کی محرومیوں کا ازالہ کریں‘۔ عوام کے جم غفیر نے تالیاں بجانی شروع کیں۔

تالیوں کی گونج میں میں اسٹیج کے قریب پہنچا تو آواز جانی پہچانی لگی۔ ایک آدمی بہت ٹہر ٹہر کر لفظ ادا کر رہا تھا۔ ’میرے بھائیو۔ کراچی کے …. عوام کے ساتھ….ایسا پہلی بار….نہیں ہو رہا۔ ہم….سترسال سے….شربت سے محروم ….چلے آ رہے ہیں۔ٹینکر مافیا ….عوام کو شربت….کی سپلائی….من مانی….قیمتوں پر کر….رہے ہیں۔ جبر دیکھ لیں…. کہ کراچی کے عوام….شربت کے سمندر….کے کنارے پر….آباد ہیں….مگر پھر بھی….پینے کے شربت …. سے محروم ہیں۔ ہم خبردار کر ….رہے ہیں….کہ اگر….کراچی کے عوام…. کو ہنگامی بنیادوں …. پر شربت فراہم….نہ کیا گیا…. تو میں ڈر رہا ہوں ….کہ پھر کراچی ….کے باسی ….شربت مافیا کے …. ٹینکر سڑکوں …. پر بہا دیں گے….(تالیاں)

ان کی تقریر ختم ہونے کے بعد سٹیج سیکرٹری سٹیج پر آیا اور اعلان کیا کہ، ’ ہمارے دور کے مشہور شاعر سلمان حیدر اب آپ کے دلوں کو گرمانے آ رہے ہیں۔ آپ کی بہت ساری تالیوں میں دعوت دے رہا ہوں جناب سلمان حیدر کو‘۔ سلمان حیدر سٹیج پر تشریف لائے۔’ بھائیو! میں نے ایک نظم لکھی تھی، میں لاپتا ہو گیا ہوں۔ پہلے آپ کو وہ نظم سناتا ہوں۔مجمع سے آواز آئی۔نہیں نہیں وہ کافر والی نظم….میں بھی کافر تو بھی کافر۔میں بھی کافر تو بھی کافر۔ سلمان مسکرائے اور کہا، اچھا آپ کی فرمائش پر پہلے وہی نظم سناتا ہوں۔

میں بھی کافر تو بھی کافر۔پھولوں کی خوشبو بھی کافر۔لفظوں کا جادو بھی کافر۔یہ بھی کافر وہ بھی کافر۔فیض بھی اور منٹو بھی کافر۔نور جہاں کا گانا شربت۔مکڈونلڈز کا کھانا شربت۔برگر شربت کوک بھی شربت۔ہنسنا بدعت جوک بھی شربت۔طبلہ شربت ڈھول بھی شربت۔ پیار بھرے دو بول بھی شربت۔ سر بھی شربت تال بھی شربت۔بھنگڑا، اتن دھمال بھی شربت۔دھادرا،ٹھمری،بھیرویں کافر۔کافی اور خیال بھی شربت۔وارث شاہ کی ہیر بھی شربت۔چاہت کی زنجیر بھی شربت۔زِندہ م ±ردہ پیر بھی شربت۔نذر نیاز کی کھیر بھی شربت۔بیٹے کا بستہ بھی شربت۔ بیٹی کی گڑیا بھی شربت۔ہنسنا رونا کفر کا شربت۔غم شربت خوشیاں بھی شربت۔جینز بھی اور گٹار بھی شربت۔فن بھی اور فنکار بھی شربت۔ جو میری دھمکی نہ چھاپیں۔وہ سارے اخبار بھی شربت۔یونیورسٹی کے اندر شربت۔شربت شربت میں بھی شربت۔شربت شربت توبھی شربت۔

اچانک منظر بدلا۔منظر بلیک اینڈ وائٹ ہو گیا۔ سارا مجمع واشنگٹن میموریل کے سامنے کھڑا ہے۔ سٹیج پر مارٹن لوتھر کنگ کی آواز گونج رہی ہے۔’تشدد کے ذریعے نسلی انصاف حاصل کرنے کی کوشش ناقابلِ عمل بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ناقابلِ عمل اس لیے کہ ایک دفعہ تشدد شروع ہو جائے تو اس کا انجام سب کی تباہی ہے۔ایک آنکھ پھوڑنے کے بدلے دوسری آنکھ پھوڑنے سے سب کے اندھے ہو جانے کا ڈر ہے۔غیر اخلاقی اس لیے کہ تشدد سے انسان مخالفوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے ان کا ذہن نہیں بدلتا۔انہیں نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتا ہے ان کا دل نہیں جیتتا۔تشدد کی بنیاد محبت پر نہیں نفرت پر ہے۔تشدد لوگوں میں فاصلے بڑھاتا ہے قربتیں نہیں۔میں نے ایک خواب دیکھا ہے‘۔ اچانک مارٹن لوتھر کنگ ایک نوجوان میں بدل جاتا ہے۔ اس کے سر پر ازبکی ٹوپی رکھی ہے۔کاندھے پر کالی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ اس کی آواز بہت پرسکون ہے۔ اس کا لہجہ بہت نرم ہے۔ وہ بات وہیں سے شروع کرتا ہے۔

تشدد کی بنیاد محبت پر نہیں نفرت پر ہے۔تشدد لوگوں میں فاصلے بڑھاتا ہے قربتیں نہیں۔میں ایک خواب دیکھ رہا ہوںاے مرے دوستو! ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ہم سب مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور دن رات کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیںلیکن میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں۔ اپنے علاقے کے مستقبل کا خواب۔میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن یہ قوم جاگ جائے گی اور اس نظریے کو عملی جامہ پہنائے گی کہ سب انسان برابر تخلیق کیے گئے ہیں۔میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن وزیرستان کے بنجرپہاڑوں پر آقاﺅں اور غلاموں کے بیٹے ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن وانا میں جہاں ظلم اور نا انصافی کی گہری رات ہے، انصاف کا سورج طلوع ہوگا۔میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن ہمارے بیٹے ایسے ماحول میں جوان ہوں گے جہاں ان کا کردار ان کی جلد کی رنگت اور لباس سے زیادہ اہم ہوگا۔میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن وزیرستان کی بچیاں لاہور اور کراچی کی بچیوں کی طرح صبح سویرے گلے میں بستہ لٹکا کر سکول جایا کریں گی۔ میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن اسلام آباد، ژوب، قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ اور پشاور میں نوجوان شکوے کا ترانہ نہیں گائیں گے کہ ”زوانان پہ مو قتل کیگی۔ دا سنگہ آزادی دا۔ کورونہ مو ورانیگی۔ دا سنگہ آزادی دا“۔ میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن اس ملک میں سب لوگ برابر تصور کیے جائیں گے اور مل کر خوشی سے چلا اٹھیں گے ’ہم آزاد ہیں۔ ہاں ہم آزاد ہیں‘۔ میں نے اپنے بھائیوں کے لئے زندگی مانگی ہے۔ میں نے اپنے بوڑھوں کے لئے عزت مانگی ہے۔ میں نے شربت کے خواب نہیں دیکھے تھے۔مجھے شربت نہیں چاہیے صاحب۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah