ملالہ سے نفرت کیوں؟


سب سے پہلے تو خاطر جمع رکھیں کہ یہاں لفظ “نفرت“ نہیں “ناپسندیدگی” ہونا چاہیے۔ جس طرح پی ایس ایل کے فائنل کے بعد عمر اکمل خود سے امیدیں لگائے کئی پاکستانیوں کے لئے “ناپسندیدہ افراد ” کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے ۔  اسی طرح ملالہ یوسف زئی کو پسند کرنے یا نا کرنے کا جمہوری حق  تمام پاکستانی محفوظ رکھتے ہیں

اب اگر آب اس بنیاد پر لبرل اور انتہا پسند ہونے کی تخصیص کرنا چاہیں تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔  تاہم نہ تو ملالہ کو پسند کرنا حب الوطنی کی سند ہے اور نہ ہی اس کو ناپسند کرنا کوئی ذہنی عارضہ۔

.کسی بھی ایسے شخص کو جاننے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے جس سے آپ نہ کبھی ملے ہو نہ کبھی براہ راست بات کی ہو۔ مجھ ناچیز کی راے میں کسی بھی فرد کی تحریر اس کے سوچنے کے انداز اور اس کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتی ہے۔

تو جناب ملالہ ( بہن کہ لیں یا بیٹی )…کے بارے میں ان کی کتاب پڑھ کر آپ بھی بلاخوف ایک راے قائم کر سکتے ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ انصار عباسی صاحب کیا کہتے ہیں یا کیا کتاب کرسٹینا لیمب نے لکھی ہے یا دسویں جماعت کی طالبہ نے۔

میں تو اس سحر سے ہی نہیں نکل سکا جہاں محترمہ ملالہ یوسف زئی فرماتی ہیں کہ ان کو بچبن سے ہی پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ وہ ہاتھوں پر جب مہندی لگواتی تو حساب اور فزکس کے فارمولوں سے مزین ڈیزائن بنواتی تھیں۔

اب اس بات کو مضحکہ خیز کہیں تو ملالہ کو پسند کرنے والے ناراض ہوتے ہیں ………

پوری کتاب پڑھئے تو ایسی کئی بھونڈی مثالیں سامنے آئیں گی جو مغرب میں پڑھنے والوں کو تو متاثر کر سکتی ہیں لیکن ایک پاکستانی کے ذوق پر گراں گزریں گی

آپ آتے ہیں نوبل انعام کی طرف ……امن کا انعام، جو سائنس اور ادب کے انعاموں کے برعکس کئی بار متنازع رہا …. کبھی دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے ٹھیک تین ماہ قبل ایڈولف ہٹلر کو امن  انعام کے لئے نامزد کیا گیا، کبھی اسرائیلی وزیراعظم کو اور کبھی عین جنگ کے درمیان اوباما کو ملنے والے امن انعام کو کیا کہا جائے؟

اب ظاہر ہے روس کا معروف لینن امن انعام یا چین کا کنفوشس انعام .. پانے والے یا انعام دینے والے …. ایک خاص طرز سوچ کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔

اب آتے ہیں ملالہ بطور ایک کیس اسٹڈی کے کہ کس طریقے سے موجودہ دور میں میڈیا ایک مدعے یا فرد کو زیرو سے ہیرو بنا سکتا ہے ……بلاشبہ گل مکئی سے لے کر نوبل انعام تک یہ ایک دلچسپ سفر ہے  جو شروع ریڈیو سے ہوا اور اقوام متحدہ کی اسمبلی تک جا پہنچا۔ میڈیا کی زبان میں ملالہ کو بلاشبہ ایک کامیاب سٹوری قرار دیا جا سکتا ہے

یہ اور بات ہے کہ کچھ کے لئے یہ ایک شاھکار ادبی شہ پارہ ہے اور کچھ کے لئے اسٹیج ڈرامے کا سکرپٹ۔

ملالہ کے حق میں دلائل دینے کا مقصد  اگر صرف بھیڑ چال کو فالو کرنا ہے تو کوئی فائدہ نہیں۔ ٹھنڈے دماغ اور تعصب سے بالاتر ہو کر سوچئے کے کیا اب تک ایک ایسی  پاکستانی بچی جس کی بات دنیا سنتی ہے اس نے خدا کے دے ہوئے اس مرتبے کا کتنا فائدہ اس پاک سرزمین کو پہنچایا ۔

اگر پانچ پانچ سال بعد آ کر جذباتی انداز میں یہی بتانا ہے کہ پاکستان آنا ایک خواب تھا تو یہ اعتراف ہے اس بات کا کہ جو آپ کر سکتی تھیں اس سے بہت کم کیا۔ اب لبرل حضرات آپ کو چھوٹی نیلسن منڈیلا کہیں یا دوسرا گروہ آپ کو مغرب کی کٹھ پتلی ..تاریخ میں ملالہ کے مقام کا تعین ٹویٹر یا نوبل انعام سے نہیں،  اس بات سے ہو گا کہ جو موقع قسمت سے آپ کے ہاتھ آیا تھا اس کا کتنا فائدہ اس پاک سرزمین کو ہوا ۔

اگر آپ بھی وزیر عظم بننے کا انتظار کریں گی تو شائد اس وقت تک بہت دیر ہوجائے۔

پانچ سال بعد آنے کا شکریہ !

اپنا ملک ہے چکر لگاتی رہا کریں …


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).