کاش ملالہ کو نوبیل انعام نہ ملے


(یہ مضمون 2013 میں لکھا گیا تھا)۔

مُسلمان، دُنیا کی کُل آبادی کا قریب قریب 24 فیصد ہیں۔

نوبیل انعام کی ایک سو سال سے زیادہ کی تاریخ میں صرف 10 مُسلمانوں کو ہی یہ سعادت حاصل ہوئی ہے کہ اُنہیں نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے ان 10 میں سے 6 نوبیل انعامات امن کے سلسلے میں دیے گئے ہیں۔

اگر ہم ان تمام محققین، سائنسدانوں اور دانشوروں کے حالات زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں ان سب میں ایک قدر کافی مشترک نظر آتی ہے کہ ان سب کے ساتھ، ان کے اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں نے کوئی ”خاص“ اچھا سلوک نہیں کیا۔
ہرایک کی تفصیل میں جائے بغیر ہم یہاں صرف 3 نوبیل انعام یافتہ مُسلمانوں کی بات کریں گے۔

معاف کیجئے گا کہ میں نے 3 کہہ دیا، مُلک خُداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کے تحت ان میں سے صرف 2 ہی مُسلمان تھے، تیسرے صاحب جنہیں طبیعات کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا، اُنہیں 70 کی دہائی میں ہم نے دائرہ اسلام سے خارج کر دیا تھا۔

ڈاکٹر محمد عبد السلام کا تعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے تھا، آپ کو 1979 میں طبیعات کے نوبیل انعام سے نوازا گیا، آپ دُنیا کے پہلےنوبیل انعام یافتہ مُسلمان سائنسدان تھے۔ پروفیسر اسٹیفن ہاکنگز، جن کا شُمار دُنیائے سائنس کے عظیم ترین طبیعات دانوں میں ہوتا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ ’طبیعات رہتی دُنیا تک پروفیسر عبدالسلام کی خدمات کی قرض دار رہے گی‘۔ اس کے باوجود پاکستان میں اُن کو وہ مرتبہ یا مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے، کیونکہ 1973 کے آئین کی دوسری ترمیم کے نتیجے میں تمام ایسے افراد جن کا تعلق احمدی مکتبۂ فکر سے تھا، اُن پر اسلام کے دروازے بند کر دیے گئے اور اُنہیں غیر ُمسلم قرار دیا گیا۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کا انتقال 21نومبر 1996 کو آکسفورڈ میں ہوا، اور اُن کی وصیت کے مطابق اُنہیں پاکستان میں دفن کیا گیا۔ اس عظیم ماہر طبیعات کی وفات پر مُلک خُداداد میں کوئی سرکاری تقریب منعقد نہیں کی گئی، نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی سوگ منایا گیا، نہ ہی کبھی اُن کی خدمات کو سراہا گیا، اورنہ ہی کسی سرکاری اہل کار نے اُن کی آخری رسومات میں شرکت کی۔

بات یہاں تک رہتی تو ہمارے معاشرے کی ذہنیت کے مطابق شاید کسی حد تک قابل قبول سمجھی جاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا اور پروفیسر صاحب کے لوح مزار پر اُن کی وصیت کے مطابق لکھا گیا کہ ” دُنیا کے پہلے نوبل انعام یافتہ مُسلمان“۔ لیکن بعد میں سرکاری سرپرستی میں، اس میں سے ’مُسلمان‘ کو خذف کر دیا گیا اور اب یہ کتبہ ایک مذاق دکھائی دیتا ہےکیونکہ اب وہاں پر لکھا ہوا ہے کہ ’دُنیا کے پہلے نوبل انعام یافتہ‘۔ اس سے بڑا مذاق شاید ہی کسی قوم نے اپنے عظیم سپوت کے ساتھ کیا ہو۔

محترمہ شیرین عبادی ایران کے شہر ہمدان سے تعلق رکھتی ہیں، پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں، اور 1975 میں ایران کی آئینی عدالت کی پہلی خاتون سربراہ بنیں۔ لیکن یہ سلسلہ کُچھ زیادہ دیر چل نہیں پایا کیونکہ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد خواتین کے قاضی، منصف بننے پر پابندی عائد کر دی گئی اور آپ کی تنزلی کر کے آپ کو ایک سیکرٹیریئل قسم کی نوکری پر لگا دیا گیا۔ بعد میں دیگر رفقأ خواتین کے احتجاج پر اُنہیں اُسی عدالت میں جس کی وہ سربراہ رہ چُکی تھیں، میں، ماہر قانون کے طور سے تعینات کر دیا گیا۔ 23 سال کی لگاتار جدوجہد برائے انسانی حقوق کے صلے میں ڈاکٹر شیرین عبادی کو 2004 کے نوبیل انعام برائے امن سے نوازا گیا۔

سال 2008 میں محض اس بنا پر کہ اُنہوں نے ایک ایسے شخص کی وکالت کی جس کا تعلق بہائی مکتب فکر سے تھا، اُن پر شدید قسم کی لعن طعن کی گئی۔ بہائیوں کا ایران میں وہی مقام ہے جو پاکستان میں احمدیوں کا ہے۔ ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے اُن پر بہائی مذہب سے تعلق کا الزام لگایا ہے، اُن پر ہم جنس پرستی کی دورن خانہ سرپرستی کے الزامات لگائے گئے، حجاب نہ کرنے پر اور اسلامی سزاؤں پر سوالات اُٹھانے کے الزامات کے نتیجے میں اُنہیں موت کی دھمکیاں تک دی گئیں، یہاں تک کہ جب حالات بہت زیادہ بگڑ گئے تو اُنہیں جولائی 2009 میں ایران سے جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔

تیسرے مُسلمان دانشور جنہیں اپنے ہی مُلک میں معاشی اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، اُن کا نام ڈاکٹر محمد یونس ہے، آپ کا تعلق بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ سے ہے۔ ڈاکٹر محمد یونس نے 1976 میں ایک ایسے منصوبہ پر کام شروع کیا جس کا مقصد معاشرے کے پسماندہ اور غریب طبقے کو بلاسود قرضہ فراہم کرنا تھا تاکہ وہ چھوٹے کاروبار کی ابتدأ کر سکیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ منصوبہ ایک بہترین نمونے کے طور پر سامنے آیا اور 1983 میں کامیابی کی انتہأ کو چُھونے لگا اور اس نے ایک باقاعدہ بینک کی شکل اختیار کر لی، اور اس کا نام گرامین بینک رکھا گیا، تب کے اعدادوشمار کے مطابق اس بینک نے قریب قریب 83 لاکھ افراد کو قرضے فراہم کیے، جن میں سے 97 فیصد خواتین تھیں، اور اس کا شُمار دُنیا کے سب سے بڑے مائکرو بینکوں میں ہونے لگا، اس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے دُنیا کے 58 ممالک میں اس سے ملتے جُلتے منصوبے شروع کیے گئے اور 2009 میں ایسے منصوبوں کے ذریعے 13 کروڑ کے لگ بھگ خاندانوں کو قرضے فراہم کیے گئے۔

ڈاکٹر محمد یُونس کو 2006 میں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ بنگلہ دیش بھر میں اس کا عظیم جشن منایا گیا، 2007 میں ڈاکٹر محمد یونس نے ایک سیاسی جماعت شروع کی جس کا مقصد شہریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی تھا، لیکن ڈھاکہ کی سرکار کو یہ بات نہ بھائی اور اُن پر ناروے کے فراہم کردہ فنڈز میں خُردبُرد کا الزام لگایا گیا حالانکہ ناروے کی حکومت نے بھی کہا کہ اُن کے فراہم کردہ فنڈز میں ایک پیسے کی بھی ہیر پھیر نہیں کی گئی تھی۔ دسمبر 2010 میں بنگلہ سرکار نے ایک بے بُنیاد خط شائع کیا جس میں ڈاکٹر محمد یونس پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی اور اور تو اور یہ الزام تک لگایا گیا کہ گرامین بینک بنگلہ دیش حکومت کا سرکاری منصوبہ تھا اور ڈاکٹر محمد یونس نے اس منصوبے کواپنے نام کر لیا تاکہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کر سکیں۔ 2011 میں اُنہیں گرامین بینک کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا کہ وہ 70 برس کے ہو گئے ہیں اور سرکاری قوانین کے تحت وہ بینک کے سربراہ نہیں رہ سکتے۔ اس فیصلے کے چند دن بعد ہی ڈھاکہ ہائی کورٹ نے اس فیصلے کی توثیق کر دی، بات یہیں ختم نہیں ہوئی، اُنہیں اس بات پر بھی کیسز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ اُن کی قائم کردہ کمپنی کے بنے ہوئے دہی میں چکنائی کی مقدار کم تھی، ان پر یہ کیسز بھی قائم کیے گئے کہ اُن کی قائم کردہ ایک اور کمپنی کے ایک صارف کو فون کا بل بہت زیادہ آیا ہے، اور وہ دن دُور نہیں جب ڈاکٹر محمد یُونس پر بھی بنگلہ دیش کی زمین تنگ کر دی جائے گی اور اُنہیں بھی مجبورہو کر جلاوطنی اختیار کرنی پڑے گی۔

سال 2013 کا نوبیل امن انعام صرف 2 دن کی دوری پر ہے، اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک سولہ سالہ بچی ملالہ یوسف زئی کو شاید اس انعام سے نوازا جائے۔

ملالہ یوسف زئی کا تعلق پاکستان کے علاقے سوات کے شہر منگورہ سے ہے، کُچھ برس قبل اُس علاقہ پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا اور خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی، اُن دنوں ملالہ نے ایک قلمی نام ”گُل مکئی“ سے بی بی سی پر ڈائری لکھنا شروع کی جس میں خواتین کے حق تعلیم کے لیے آواز اُٹھائی جاتی رہی۔

بعد ازاں حکومت پاکستان نے سوات اور گردونواح میں فوجی آپریشن کر کے وہاں سے طالبان کو بھاگنے پر مجبور کر دیا، لیکن پچھلے ہی سال ملالہ کو اس جرم کی پاداش میں سکول سے واپسی پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، ملالہ کی زندگی تو ڈاکٹروں کی مرہون منت بچ گئی لیکن اُسے برطانیہ مقیم ہونا پڑا۔

حال ہی میں ملالہ نے ایک کتاب شائع کی ہے جس میں اُن تمام حالات کا تفصیلی ذکر ہے۔
ابھی ملالہ ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں تھی کہ پاکستان میں اُس کے خلاف شدید پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا، جس میں اُسے ایک ڈرامے باز، یہودی ایجنٹ جیسے القابات سے نوازا گیا۔

اب جبکہ اُس کا نام نوبیل انعام کے لیے فیورٹ ہے، مُلک خُداداد میں اس 16 سالہ بچی کے خلاف پھر سے مہم شروع ہے جس میں اُس پر انتہائی غلیظ اور گھناؤنے الزامات لگائے جا رہے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر یہ سب حرکات معاشرے کا ناخواندہ طبقہ کرتا تو بات شاید سمجھ میں آجاتی لیکن باعث شرم یہ بات ہے کہ اس میں اکثریت کا تعلق پاکستانی معاشرے کے انتہائی تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔

باعث شرم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بات ہمارے معاشرے کی اجتماعی سوچ کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم اخلاقی طور پر کس قدر انحطاط کا شکار ہیں کہ ہمیں ہر اچھے کام کے پیچھے کوئی نہ کوئی غیر مُلکی سازش ہی نظر آتی ہے۔

کاش ملالہ یہ انعام نہ جیتے، کاش نوبیل اکیڈمی والے اُسے یہ انعام کبھی بھی نہ دیں، اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس انعام کی حقدار نہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ مُجھے اس بچی کی زندگی اس انعام سے کہیں زیادہ عزیز ہے، پچھلے سال تو وہ بچ گئی تھی، لیکن اگر اُسے یہ انعام ملا تو شاید وہ ساری عمر پاکستان نہ لوٹ سکے گی، اور اگر واپس آ بھی گئی تو اس بار اُس کا بچنا محال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).