میرے استاد ۔۔۔۔ پروفیسر ادیب الحسن رضوی


ادیب صاحب کے اعزازات اور کارنامے بیان کرنے کے لیے ایک مضمون کافی نہیں۔ اس کے لیے پوری کتاب ہو تو بات بنے۔ ایس آئی یو ٹی کی طویل جدوجہد کی کہانی زبیدہ مصطفیٰ جیسی باشعور اور مشاق صحافی نے تحریر کی ہے۔ (میری بڑی آرزو ہے کہ اس کتاب کے اردو ترجمے کی سعادت مجھے حاصل ہو) اس سے کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بہرحال، سفینہ چاہئے اس بحربے کراں کے لیے۔ یہاں چند ذاتی مشاہدات پر اکتفا کرنا چاہوں گا۔

ادیب صاحب اپنے زمانۂ طالب علمی میں کراچی کی سیاسی تحریکوں سے ہم دردی رکھتے تھے جو واضح شراکت تک جاپہنچی تھی۔ ان کا ایک واقعہ میرے چچا انور احسن صدیقی نے بیان کیا اور ان ہی کی خودنوشت ’’دلِ پُرخوں کی اک گلابی سے‘‘ میں انھوں نے حسن عابدی مرحوم کے حوالے سے لکھا ہے:

’’حسن عابدی صاحب نے بتایا کہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں نواب مشتاق احمد گورمانی کافی بیمار ہوگئے تھے۔ انھیں گردوں کی تکلیف ہوگئی تھی۔ انھوں نے ملتان میں کافی علاج کروایا تھا لیکن وہ پوری طرح سے صحت یاب نہیں ہو رہے تھے۔ آخر انھوں نے کراچی کے مشہور و معروف یورو لوجسٹ ڈاکٹر ادیب رضوی کو، جن کی سارے ملک میں شہرت تھی، ملتان بلانے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی مریض کو دیکھنے کے لیے ملتان گئے۔ گورمانی سے ملاقات اور بات چیت کے دوران ڈاکٹر ادیب رضوی نے ان سے پوچھا کہ آیا انھیں یاد ہے کہ 8 جنوری 1953ء کو کراچی میں صدر کے علاقے میں ان کی کار جلائی گئی تھی۔ گورمانی نے جواب دیا کہ ہاں انھیں یہ واقعہ یاد ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے پوچھا ’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی گاڑی میں آگ کس نے لگائی تھی؟‘‘ گورمانی نے نفی میں جواب دیا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’وہ طالب علم میں تھا جس نے آپ کی گاڑی میں آگ لگائی تھی۔‘‘ گورمانی حیرت سے کچھ دیر تک ان کی طرف دیکھتے رہے اور پھر ہنس پڑے۔‘‘

گہری نظریاتی وابستگی والے لوگوں کی طرح انور چچا کی نفرت اور محبّت عمیق تھی۔ ان میں خود داری بھی بہت تھی چناں چہ جب اس بیماری کا شکار ہوئے جو بالآحر جان لیوا ثابت ہوئی تو انھوں نے میرے ضد کرنے پر کراچی کے سب سے بڑے اسپتال کے ماہر ڈاکٹر کو دکھا لیا مگر علاج کے لیے ادیب صاحب کے ایس آئی یو ٹی کو ترجیح دی۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح او پی ڈی میں دکھانے جاتے اور وقت آنے پر جنرل وارڈ میں داخل ہوگئے۔ اس دوران میں نے ان سہولیات کو بہت قریب سے دیکھا جو ایس آئی یو ٹی نے عوام الناس کے لیے فراہم کر دی ہیں۔ اسپتال بھی ایسا کہ بقول ہمارے ایک ڈاکٹر دوست کے، خود بیمار پڑ جانے کو جی چاہے۔ انور چچا تو علاج کے باوجود جاں بر نہ ہوسکے مگر اسپتال کی کارکردگی کے بارے میں، مَیں نے جو کچھ لکھا ہے وہ آنکھوں دیکھی باتیں ہیں، سُنی سُنائی نہیں۔ بہتر علاج کا پورا نظام ہے جو ادیب صاحب نے قائم کر دیا ہے اور اس کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے جان پہچان کی ضرورت ہے، نہ سفارش کی اور نہ پرچی کی۔ ذرا سوچیے پاکستان میں ایسا کتنی جگہ ممکن ہے؟

بڑے ادارے اور شاندار عمارت کے ساتھ ادیب صاحب کا بہت بڑا کارنامہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے بارے میں قوانین اور ان کے نفاذ میں مشاورت بھی شامل ہے۔ ایس آئی یو ٹی سے منسلک جو ادارے قائم کیے گئے ہیں، ان میں ٹرانس پلانٹ سینٹر سے بہت لوگ واقف ہیں مگر میں ایک اور ادارے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔۔۔ سینٹر فار بائیومیڈیکل ایتھکنر۔۔۔ صحت کے شعبے سے وابستہ اخلاقیات کی تربیت دینے والا یہ ادارہ اپنی قسم کا واحد مرکز ہے جو تجارتی مفادات اور ترجیحات کے اس دور میں ضابطۂ اخلاق کی تربیت دیتا ہے۔ اس ادارے میں ڈاکٹر فرحت معظّم (میری قابلِ احترام سینئر اور تقریباً میرے اساتذہ کی طرح) اور ڈاکٹر عامر جعفری (جو بڑے لائق والدین کے فرزند ہیں۔۔۔ ادا جعفری اور نور الحسن جعفری) نے مجھے کئی بار وہاں لیکچر دینے کے لیے بلایا جو میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ایس آئی یو ٹی کے شان دار چمکتے ہوئے فرش پر میں یوں بھی پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوں۔ ایک مرتبہ اسی انداز میں گیا اور گفتگو شروع کرنے والا تھا کہ روسٹرم سے مجھے نظر آیا، ہال کا باہر والا دروازہ آہستہ سے کھلا اور ایک سبز سایہ اندر داخل ہوا۔ اسی طرح نامحسوس انداز میں حرکت کرتے ہوئے وہ پچھلی نشست کی طرف جاکر سنبھل گیا۔ وہ ادیب صاحب تھے۔ جو حسبِ معمول آپریشن تھئیٹر کا لباس پہنے ہوئے تھے۔ ان کو وہاں دیکھ کر میرے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ کپکپاتی آواز میں ان کو سلام کیا۔ وہ آگے تو نہیں آئے مگر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا میں نے تمہارا نام دیکھ لیا تھا، اس لیے تمہاری بات سننے کے لیے آگیا۔ بس مجھ پر سکتہ نہیں طاری ہوا۔ جیسے تیسے گفتگو سمیٹی اور اس کے بعد ان کو باضابطہ سلام کرنے کے لیے گیا تو انھوں نے میری طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ میں نے اپنے استاد کے احترام میں سر جھکا لیا۔

ان کا نام آتا ہے تو میرا سر اسی طرح جُھک جاتا ہے، اور وہ طالب علموں والی پرانی عقیدت لوٹ کر واپس آجاتی ہے۔

آخر میں اپنے استاد محترم کے حوالے سے ایک تلخ یاد بھی دوہرانا چاہتا ہوں۔ بہت عرصے پہلے کسی نے کراچی کے کسی کونے میں شاہراہ کا نام ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے نام پر رکھ دیا تھا۔ اب خدا معلوم یہ سڑک کہاں سے آتی ہے اور کہاں جاتی ہے۔ پچھلے سال اس سڑک کے نام کی ایک تصویر انٹرنیٹ پر گردش کر رہی تھی۔ جہاں پروفیسر صاحب کا نام سُرخی میں لکھا ہوا تھا، وہاں کسی نے سیاہی پھیر دی تھی اور گالی دینے کے انداز میں ایک لفظ بھی لکھ دیا تھا۔ میں نے وہ تصویر دیکھی تو سوچنے لگا کہ ہم کس قدر ظالم ہیں کہ مسیحا کو کافر قرار دینے سے باز نہیں آتے۔ میرا سر ایک بار پھر جھک گیا، لیکن اپنے استاد کے سامنے شرمندگی کے ساتھ۔

افسوس ہے اس قوم پر جو اپنی جہالت سے بھی بےخبر ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2