چیف جسٹس کی فعالیت ہدف تنقید کیوں !


غالباً پانچ سال پرانی بات ہے۔ میں اس وقت جناح ہسپتال میں جنرل سرجری وارڈ میں ہاؤس جاب کرتا تھا۔ وارڈ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ابو الفضل علی خان تھے۔ پروفیسر صاحب ایک سخت گیر منتظم مشہور تھے۔ ان کے وارڈ کے سب ڈاکٹرز، نرسز، وارڈ بوائز اور ملازم ہر وقت سولی پر لٹکے رہتے تھے۔ کیونکہ پروفیسر صاحب ذرا سی غلطی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ روزانہ صبح سات بجے ہسپتال آتے اور تقریباً 3 بجے تک وارڈ میں رہتے۔ ہسپتال میں بیشتر لوگ ان کے خلاف تھے۔ ان کے ڈاکٹرز اور وارڈ عملہ تنگ تھا۔

وجہ یہ تھی کہ وہ کام کرنے کا کہتے تھے اور کوئی غفلت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی تھا اور وہ یہ کہ پورے ہسپتال میں جب بھی کوئی ڈاکٹر، نرس یا کوئی ملازم خود بیمار ہوتا یا پھر اس کے کسی عزیز کو سرجری سے متعلقہ مرض ہوتا تو سب کا انتخاب پروفیسر ابوالفضل علی خان کا وارڈ ہوتا۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ پروفیسر صاحب کے وارڈ میں مریض کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کسی سفارش کے بغیر بھی سب کا یکساں علاج ہوتا ہے۔ ہم سب کام کروانے والے افسر کو ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن جب کام پڑتا ہے تو اسی کے پاس جاتے ہیں۔

یہ بات بتانے کا مقصد دراصل اپنی قومی نفسیات پہ روشنی ڈالنا ہے۔ یہ ہمارا مزاج ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے لیکن کوئی بھی ایسے سربراہ کو برداشت نہیں کرتا جو کام کروانے کے بارے میں سخت ہو۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب بھی آج کل ایسی ہی صورت حال سے دو چار ہیں۔ وہ تمام لوگ جو ان کی فعالیت پہ نالاں ہیں وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس فرسودہ نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن عام آدمی چیف جسٹس سے خوش ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ عام آدمی جن مسائل سے دوچار ہے ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اسے جہاں سے امید کی کرن نظرآئے وہ خوش ہو جاتا ہے۔

میں اور آپ۔ عام آدمی نہیں ہیں۔ ہر وہ شخص جو کوئی نا کوئی تعارف رکھتا ہے وہ عام آدمی نہیں ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو مسائل پہ رونا دھونا تو کرتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں مسائل کی چکی سے نہیں گزرنا پڑتا۔ کسی نا کسی طرح ہم ایک خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ ورنہ اس ملک میں جو کچھ ’ جینوئن عام آدمی ’ کے ساتھ ہو رہا ہے ہمارے ساتھ ہو تو ہمارے سارے فلسفے ہوا میں اڑ جائیں۔ یہ وطن سے محبت، نظام حکومت، اداروں کی بالادستی، ووٹ کا تقدس، جمہوریت۔ سب ان لوگوں کی باتیں ہیں جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں۔

بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ چیف جسٹس حد سے زیادہ فعال کیوں ہیں؟ اس سے دوسرے اداروں کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔ میرا ایک سادہ سا سوال ہے کہ وہ تمام ازخود نوٹس جو چیف جسٹس نے لیے ہیں۔ ان معاملات میں وزیر اعظم یا وزیر اعلٰی کو نوٹس لینے سے کس نے روکا ہے؟ آخر کیوں کبھی کوئی خبر نہیں آتی کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلٰی نے اپنے کسی افسر کے خلاف انکوائری کروائی اور اس کے نتیجے میں اسے سزا ملی۔ مختلف محکموں میں جو بے قاعدگیاں ہیں وہ کسی وزیر اعلٰی کو نظر کیوں نہیں آتی؟

ضلعی پولیس افسروں، ڈپٹی کمشنرز یا ممبران اسمبلی کو عوام کے مسائل حل کرنے سے کس نے روکا ہے؟ اگر کوئی ایم این اے یا ایم پی اے اپنے حلقہ میں ہر ماہ کھلی کچہری لگانا چاہے اور اپنے ووٹر کی بات سن کر ’ ووٹ کو عزت ’ دینا چاہے تو کسی نے اس کو منع تو نہیں کیا۔ بیشمار محکمے ہیں، بیشمار افسر ہیں، کمیٹیاں ہی کمیٹیاں ہیں۔ ان کے اوپر مزید کمیٹیاں ہیں۔ لیکن عوام کے لیے سب کے دروازے بند ہیں۔ سب کے سب غیر فعال ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی شخص کام کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کیفعالیت ہدف تنقید کیوں؟ جناب آپ بھی فعالیت دکھائیں اور عوام میں مقبول ہو جائیں۔ لوگ آپ کو بھی ہیرو مانیں گے۔ کسی نے آپ کو روکا تو نہیں۔

دوسری طرف اگر آپ سپریم کورٹ میں چلنے والے کیسز کی تفصیل پڑھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اگر چیف جسٹس ان تمام معاملات کا نوٹس نا لیتے تو کیا یہ سب ایسے ہی چلتے رہنا تھا؟ ہزاروں کی نہیں اربوں کی کرپشن ہے۔ اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھا جانے والوں کے لیے کروڑ تو ایسے ہیں جیسے ہمارے لیے سو کا نوٹ۔ وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے اپنے گھر کے سامنے پارک ختم کروا کے سڑک چوڑی کروا لی۔ کسی کو کان و کان خبر نا ہوئی۔ عدالت نے نوٹس لیا تو جمہوریت خطرے میں آ گئی۔ سبحان اللہ ایسی جمہوریت پہ قربان جاؤں۔ ایک بیوروکریٹ نے کروڑوں کی زمین ہتھیا لی۔ عدالت نے پوچھا تو بیوروکریسی کی عزت خطرے میں پڑ گئی۔ سبحان اللہ ایسی عزت پہ قربان جاؤں۔

سپریم کورٹ نے دہری شہریت معاملے پر ازخود نوٹس لیا تو تازہ ترین انکشاف یہ ہوا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا ہے کہ ملک بھر میں 32 ہزار سرکاری افسروں نے اپنی معلومات چھپائی ہیں۔ 616 نے رضاکارانہ طور پر اپنی دہری شہریت کو تسلیم کیا ہے۔ 691 کی بیگمات دہری شہریت کی حامل ہیں۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز ہیں تو ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ابھی تک پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے بارے میں چیف صاحب نے نوٹس نہیں لیا وہاں ایک الگ اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ مختلف سرکاری کمپنیوں کے سربراہان کی تنخواہ 15 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔

سبحان اللہ کیا کیا لکھوں۔ ! اگر یہ سب چھپا رہتا تو نظام کو خطرہ نہیں تھا۔ اب چیف صاحب نے پوچھ لیا تو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ واہ جی واہ۔ جناب وزیر اعظم اور وزرائے اعلٰی! آپ بھی تو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ آپ نے نوٹس کیوں نہیں لیا؟

آخر میں ایک بات۔ ہمارا ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں جو بھی اچھا کام کرنے کا سوچتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ تمہیں تو ہم ایسی سخت کسوٹی پر پرکھیں گے کہ کبھی بھی اچھے ثابت نہیں ہو سکو گے۔ ایک معاملے پہ نوٹس لیا ہے تو دوسرے پہ کیوں نہیں لیا؟ اس شخص کو پکڑا ہے تو دوسرے کو کیوں نہیں پکڑا۔ ہماری تنقید کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یاد رکھیں کوئی بھی مسیحا سو فیصد مسائل حل نہیں کر سکتا۔ ہاں مسائل کا کچھ حصہ حل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہر اس شخص کا ساتھ دیں جو معاشرے میں بہتری کے لئے کوشاں ہے۔ چاہے اس کیکوششوں سے 20 فیصد بہتری ہی کیوں نا آئے۔ آج اس فعالیت کا ہی نتیجہ ہے کہ سرکاری افسر سہم گئے ہیں۔ پولیس افسر جعلی پولیس مقابلے سے پہلے سو دفعہ سوچتے ہیں۔ ہسپتال والے اپنا نظام درست کر رہے ہیں۔ عدالت کا خوف موجود ہے۔ یہ فعالیت جاری رہنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).