سعودی عرب اور ایران سے بگڑتے سنورتے تعلقات


یوم پاکستان پر منعقد ہ پریڈ میں متحدہ عرب امارات کی فوج کی شرکت نے اس معاملے کو واضح کر دیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں بھی یہ تصور موجود ہے کہ پاکستان سے ناخوشگوار تعلقات کا تاثر قائم رہنا ان کے بھی مفاد میں نہیں۔ اس لئے ایسے علامتی اقدامات ضرور اٹھانے چاہیے کہ جن سے یہ محسوس ہو کہ تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ یہ معاملہ صرف متحدہ عرب امارات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عرب دنیا میں موجود ممالک سے صرف پاکستان کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں اور اس نئے دور کے وجود میں آنے کی وجوہات جہاں عرب میں موجود مختلف سیاسی لہریں ہیں وہیں پر پاکستان کی اپنی خارجہ حکمت عملی میں نئی سمت کا واضح تعین بھی ایک اہم عنصر ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں پاکستان اور ایران کے تعلقات کی تاریخ پر مختصر نظر دوڑانی ہو گی۔ قیام پاکستان کے بعد سے انقلاب ایران تک پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت گہرے رہے مگر انقلاب کے بعد تعلقات اس نہج پر برقرار نہ رہ سکے۔ اس کی بڑی واضح وجہ یہ تھی کہ انقلاب سے قبل ایران کی خارجہ پالیسی کا بھی واضح جھکاؤ امریکہ کی جانب تھا جبکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی امریکہ کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ مگر انقلاب کے بعد ایران کے امریکہ سے تعلقات خراب ہو گئے اور بین الاقوامی تناظر میں پاکستان اور ایران ایک کشتی میں سوار نہیں رہے۔ سو تعلقات کی نوعیت پر اثر پڑ گیا۔

بالکل اسی طرح اب عرب ممالک اور پاکستان کے تعلقات میں اس کی نوعیت میں ایک فرق آ رہا ہے۔ پاکستان کی سی پیک کے بعد ترجیحات میں ایک تبدیلی آ گئی ہے مگر عرب دنیا وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ لہٰذا معاملات کو دیکھنے کے لئے چشمے تبدیل ہو گئے ہیں۔ پھر پاکستان کو ایک اور مصیبت سے بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ پہلے تو کشیدگی صرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان تک موجود تھی اور پاکستان اپنے تعلقات میں دونوں ممالک کے لئے توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اب سعودی عرب کے دیگر عرب ملکوں سے بھی تعلقات وہ نہیں رہے۔ بلکہ قطر کے معاملے پر تو حالات براہ راست کشیدگی تک پہنچ گئے۔ پاکستان کے لئے مشکل یہ ہے کہ اس کے تعلقات خلیج تعاون کونسل کے تمام ممالک سے ہیں اور پاکستان کسی ایک ملک کے سبب سے دوسرے سے بگاڑ پیدا بھی نہیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر عرب میں کچھ ایسے عوامل پیدا ہو گئے ہیں کہ جن کی وجہ سے وہاں پر محاذ آرائی کی کیفیت کے جلد اختتام کا بظاہر کوئی امکان موجود نہیں ہے۔

علاقائی مفادات عربوں میں اپنی قومیتی سوچ، عرب بہار سے اٹھتی سیاسی لہریں اور عرب رہنماؤں کی قیادت اور بالا دستی کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں ان تمام وجوہات کے سبب سے وہاں پر غیر یقینی کی کیفیت بدستور موجود ہیں۔ اور پاکستان کی ان معاملات سے لا تعلقی ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات سے تو بدمزگی کی وجہ اس قت سے ہے جب پاکستان نے ایکسپو 2020؁ء کے انعقاد کے لئے اپنے ووٹ کو عرب امارات کی بجائے ترکی کے حق میں استعمال کیا۔ ترکی سے بھی پاکستان سے دیرینہ تعلقات ہیں اور اسی سبب سے پاکستان نے دو میں سے ایک دوست کا انتخاب کیا۔ مگر دوسرا دوست ناراض ہو گیا۔ یہ ناراضگی اس وقت بہت بڑھ گئی جب پاکستان نے یمن کی جنگ میں کودنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان ابھی تک افغانستان کے عوام کی سرخ خطرے کے خلاف مدد کرنے کی قیمت چکا رہا ہے۔

اس لئے پاکستان کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ یمن کی آگ میں اپنے آپ کو جھلسا لے۔ لیکن ہماری مجبوریوں کو سمجھا نہیں گیا۔ اور متحدہ عرب امارات کے وزیر کی جانب سے پاکستان کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان سامنے آ گیا۔ معاملہ صرف غیر ذمہ دارانہ بیان تک ہی نہیں رہا بلکہ پاکستان کو اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف مشکوک دستاویزات بھی مہیا کر دی گئیں۔ مگر ان سب کے باوجود پاکستان اشتعال میں نہیں آیا۔ نئے وزیر اعظم اور فوج کے سربراہ نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سے تعلقات کو بہتر رکھنے اور کرنے کی غرض سے ان ممالک کے دورے کیے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ قطر ایران وغیرہ کو بھی فراموش نہ کیا۔ ایک موقع پر قطر اور سعودی عرب کی کشیدگی ختم کروانے کی بھی پاکستان نے کوششیں کیں مگر ثمر آور نہ ہو سکیں۔

ثمر آور نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان نے شام کے معاملے میں بھی غیر جانبداری کا ثبوت دیا۔ بات واضح ہے کہ عرب دنیا میں موجود غیر یقینی حالات کا سبب یہ ڈاکٹرائن ہے کہ اسرائیل کو محفوظ رکھنے کے لئے عربوں کو کمزور رکھنا ضروری ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ صدام کے دور میں عراق پر ادویات کی بھی پابندی عائد تھی۔ بچوں کی بڑے پیمانے پر اموات ہو رہی تھیں۔ اس موقع پر ایک صحافی نے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ میڈلین البڑائٹ سے بچوں کی اموات کے حوالے سے سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ Hard Choice half a Million Childrens death No issue“ اس جواب سے ان کے عزائم کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ جن پر تکیہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے تعلقات معمول پر رکھنے کے لئے عرب ممالک سے زیادہ سے زیادہ رابطے میں رہنا چاہیے۔ حالیہ دورہ عمان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سعودی عرب میں تربیتی مقاصد کے لئے فوج کو روانہ کرنے سے بھی اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم برادرانہ تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).