مولوی خادم حسین رضوی کی نفسیات


مولوی خادم حسین رضوی کی گرفتاری کا حکم جاری ہوے تقریبا ایک ہفتہ ہونے کو آیا۔ اس دوران مولوی خادم رضوی نے گجرات کے پیر افضل قادری کے ساتھ مل کر ایک ویڈیو ریکارڈنگ جاری کی ہے جس میں پنجاب حکومت اور دیگر زعماے ریاست کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔ مولوی رضوی نے کہا ہے کہ اگر ان کے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو وہ یکم اپریل سے لاہور میں داتا گنج بخش کے مرقد کے قریب دھرنا دیں گے جو تاحکم ثانی جاری رہے گا۔

خادم رضوی 1966ء میں اٹک کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ حافظ قرآن اور دورہ حدیث کے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے کسی اسکول سے تعلیم نہیں پائی۔ پاکستان میں مذہبی اشتعال انگیزی کی بنیاد پر سیاسی شہرت حاصل کرنے کی روایت خاصی پرانی ہے۔ مولوی خادم رضوی اس فہرست میں نسبتاً نیا نام ہیں۔ مولوی خادم رضوی عوام کے حساس عقائد کی آڑ میں نہ صرف کھلم کھلا بدزبانی کرتے ہیں بلکہ انہیں عوام کو تشدد پر اکسانے میں بھی ملکہ حاصل ہے۔ خادم رضوی نے منبر رسول پہ بیٹھ کر گالی گلوچ کا آغاز 2015 میں سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید کے خلاف بدگوئی سے کیا۔ پرویز رشید مختلف وجوہات کی بنا پر اسٹبلشمنٹ کے ناپسندیدہ شخص سمجھے جاتے تھے۔ مارچ 2016 میں مولوی خادم حسین رضوی نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں چار روز تک دھرنا دیا جس میں دل کھول کر بدزبانی کا مطاہرہ کیا گیا۔ بعدازاں معروف فلاحی کارکن عبدالستار ایدھی کی موت کے بعد بھی خادم رضوی نے ملک کے مختلف شہروں میں بدزبانی بلکہ ننگی گالیوں کا مظاہرہ کیا۔ وہ اس دوران حکومت کے وزراء، عدلیہ کے ججوں اور فوج کے اعلی افسران کے نام لے لے کر گالیاں دیتے رہے۔ نومبر 2017ء میں خادم رضوی نے چند ہزار کے مجمع کی مدد سے دارالحکومت اسلام آباد کو تین ہفتے تک یرغمالی بنائے رکھا۔ اس دوران اربوں روپے کی جائیداد تباہ ہوئی۔ سات قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مولوی خادم رضوی کسی بڑے ہنگامے کا باعث بن سکتے ہیں۔

مولوی خادم رضوی نے اگست 2015ء میں “تحریک لبیک” کے نام سے ایک مذہبی سیاسی جماعت قائم کی تھی۔ مولوی خادم رضوی نے 29 فروری 2016 کو ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد اشتعال انگیز تقاریر اور گالی دشنام کی بنا پہ شہرت حاصل کی۔ گزشتہ برس ستمبر میں لاہور کے حلقہ این اے 120  کے ضمنی انتخابات میں تحریک لبیک نے حیرت انگیز طور پر سات ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ اس انتخابی مہم کے دوران مولوی خادم رضوی کے کارکن مسلسل اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے لیکن انتظامیہ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بعد ازاں چکوال کے صوبائی اور لودھراں کے قومی ضمنی انتخاب میں بھی مولوی خادم رضوی کی جماعت نے قابل ذکر تعداد میں ووٹ حاصل کئے۔ مولوی خادم 2011 تک لاہور میں محکمہ اوقاف کی ایک مسجد کے پیش امام تھے۔ مبینہ طور پر مولوی خادم رضوی نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی شہادت کے بعد اشتعال انگیز تقاریر کیں۔ محمکمے کی طرف سے بار بار تنبیہ کے باوجود خادم رضوی نے اشتعال انگیزی جاری رکھی تو انہیں برطرف کر دیا گیا۔ محکمہ اوقاف کی ملازمت ختم ہونے کے بعد خادم رضوی بریلوی مکتب فکر کی سیاست میں نمایاں ہو گئے۔ رسمی دنیوی تعلیم سے بے بہرہ خادم رضوی شمالی پنجاب کے دیہاتی لب و لہجے میں تقریر کرتے ہیں۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ٹھیک سے اردو لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے۔ مولوی خادم حسین رضوی کا نفسیاتی تجزیہ کیا جاے تو ذیل کے نکات سامنے آتے ہیں۔

مولوی خادم حسین رضوی کے بارے میں JIT کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے سے بڑوں کے ساتھ بدتمیزی اور چھوٹوں کے ساتھ حقارت سے پیش آتے ہیں ۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ مولوی خادم رضوی بدترین احساس کمتری کا شکار ہیں۔

2006ء میں گوجرانوالہ کے قریب ایک حادثہ کے بعد سے مولوی خادم رضوی کی ٹانگیں مفلوج ہوچکی ہیں اور وہ وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔ اس حادثہ کے بعد مولوی رضوی کا علاج انگریزی تعلیم پانے والے ڈاکٹروں نے کیا۔ وہ جس وہیل چیئر پہ نقل و حرکت کرتے ہیں وہ سیکولر تعلیم پانے والے انجینئرز نے بنائی ہیں۔ وہ جس لاؤڈ اسپیکر پہ خطاب کرتے ہیں وہ جدید سائنسی ایجاد ہے۔ مولوی خادم حسین رضوی کو وڈیو تقاریر اور ٹیلی ویژن پر اپنا چہرہ دیکھنے کا بہت شوق ہے ۔ اس کے باوجود مولوی خادم رضوی ہر طرح کی جدیدیت کے سخت مخالف ہیں۔ مولوی خادم رضوی کی ذات دو قطبی ہے۔ وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے بدمزاجی کا جو مظاہرہ کرتے ہیں وہ دراصل جدید علوم اور جدید زندگی سے محرومی کا جان لیوا احساس ہے۔

خادم حسین رضوی خبط عظمت کا شکار ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کے والد نے بھی کبھی ان کے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ تاہم مولوی صاحب یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ان کے والد اپنے بیٹے کی کس خوبی کی بنا پر انہیں یہ خصوصی درجہ دیتے تھے۔ ایسا شخص اپنی ذات کے بارے میں بے بنیاد مغالطوں کا شکار ہوتا ہے اور خود کو عام انسانوں سے الگ مخلوق سمجھتا ہے۔ مولوی خادم رضوی کی ذہنی اختلال کی حد تک پہنچی ہوئی نرگسیت کے باعث احتمال ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں کوئی مذہبی دعوی بھی کر سکتے ہیں۔

مولوی خادم رضوی کی گفتگو غیر مدلل ہے۔ وہ دلیل دینے کی بجاے گالی کے ذریعے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔ ایسا شخص جو گالی جیسی بنی بنائی ترکیب کے بغیر اپنا جملہ مکمل نہ کرسکے، منطق میں کمزور ہوتا ہے اور ذہانت میں کمتر سمجھا جاتا ہے۔

تقریر کرتے ہوئے ہر جملے کے بعد مولوی خادم رضوی کے نتھنوں سے ایک حقارت آمیز ہنکارا سنائی دیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جوش سے مغلوب ہونے کے باعث سنجیدہ معاملات پر تحمل سے غور و فکر کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

مولوی خادم رضوی کی تقاریر غور سے سننے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل انہیں مذہب کی حقیقی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہ اعلی اخلاق، رواداری اور تواضع سے عاری ہیں۔ یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ مولوی خادم نے مذہبی عقائد میں سے کچھ مفید مطلب نکات چن لئے ہیں لیکن وہ مذہبی تعلیمات کے ارفع درجوں سے نابلد ہیں۔

مولوی خادم رضوی بنیادی انتظامی ضابطوں سے بھی آگاہ نہیں۔ وہ اپنے جلسے میں آنے والے صحافیوں کو یرغمالی بنانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ ٹیلی وژن پر تجربہ کار صحافیوں کے ساتھ بلاوجہ ایسی بدتمیزی کی ہے جس سے ان کی شخصیت کا کھوکھلا پن واضح ہوتا ہے۔

مولوی خادم رضوی ذہنی طور پر بے لچک شخصیت کے مالک ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی کریئر کی ابتدا ہی سے وہ اپنے سیاسی ساتھیوں میں اختلاف پر قابو نہیں پا سکے۔ ان کے ایک قریبی ساتھی ڈاکٹر اشرف جلالی ان پر ہر طرح کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔

مولوی خادم رضوی کے مالی امور مشکوک ہیں۔ وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ دسویں گریڈ کی ملازمت چھوٹنے کے بعد انہوں نے کس طرح ایسا تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کیا ہے جس میں کروڑوں روپے کے معاملات بغیر کسی باضابطہ حساب کتاب کے چلائے جا رہے ہیں۔

مولوی خادم رضوی کی تقاریر میں علمی حوالے سرے سے غائب ہوتے ہیں۔ ان کا قدیم اور جدید تاریخ کا شعور سطحی ہے۔ مولوی خادم رضوی صاحب تصنیف نہیں ہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں اصول دین اور اخلاقی اقدار بیان کرنے کے بجاے من گھڑت واقعات سنانے پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کا تبحر علمی محض بنیادی عربی گرائمر کے اصول و ضوابط پہ محیط ہیں۔ مثلاً وہ اعراب کی مدد سے لفظوں کے بدلتے ہوئے معانی پہ طویل گفتگو کرتے ہیں جس کا کوئی علمی، فلسفیانہ یا اخلاقی مطلب نہیں ہوتا۔ مولوی خادم رضوی اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے ابتدائی درجوں کے مدرس ہیں اور منقولی علوم کی حدود سے باہر ان کی علمی حیثیت سرے سے مفقود ہے۔

مولوی خادم رضوی دو طرفہ مکالمے کی بجائے یک طرفہ وعظ دینا پسند کرتے ہیں۔ ایسا شخص سیاسی مکالمے کی ابجد سے بھی آشنا نہیں ہوتا۔

مولوی خادم رضوی اپنی خطابت میں حقائق کی بجائے غلو سے کام لیتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد دھرنے کے دوران ان پر  آنسو گیس  کے 12000 شیل برسائے گئے۔ موقع محل کی مناسبت سے وہ فوق العادت واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔

مولوی خادم رضوی جدید سیاسیات کی مبادیات سے بھی ناواقف ہیں۔ انہوں نے اپنی کسی تقریر میں کسی ضابطہ قانون یا آئین کا کبھی حوالہ نہیں دیا بلکہ عدلیہ کے اعلی ترین منصب داروں کے بارے میں توہین آمیز جملوں کی مدد سے ہجوم کو اشتعال دلاتے ہیں۔ مولوی خادم رضوی صرف مسلمان فرقوں ہی کے بارے میں نہیں بلکہ تمام مذاہب کے بارے میں اخلاق سے گرا ہوا لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ مولوی خادم حسین کے چند جملوں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ تمدنی آداب سے بے بہرہ ہیں۔

مولوی خادم رضوی طاقت سے مرعوب ہوتے ہیں۔ انہوں نے بظاہر بہادری کا چولا اوڑھ رکھا ہیں لیکن دراصل وہ ایک بزدل شخص ہیں جو صرف یہ جانتا ہے کہ حساس ترین مذہبی معاملات کو اچھال کر ہجوم کو مشتعل کیا جا سکتا ہے۔ اعلیٰ سول اور عسکری حکام کے ساتھ بات چیت کے دوران ان کی علمی اور ذہنی صلاحیت کا پول کھل گیا کیونکہ انہوں نے 27 نومبر کو اسلام آباد میں جس معاہدے پر دستخط کئے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

حال ہی میں ایم ایم اے کے نام سے مذہبی جماعتوں کا ایک سیاسی اتحاد قائم کیا گیا ہے لیکن اس میں مولوی خادم حسین کی جماعت تحریک لبیک کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے سنجیدہ مذہبی حلقے بھی خادم رضوی کو وقعت نہیں دیتے۔

Mar 31, 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).