ترقی پسند سیاست کا نیا جنم


کسی بھی سیاسی نظریے اور فکر کی کامیابی تب ہی ممکن ہے، جب وہ اپنی سرزمین اور اس پر بسنے والے عام لوگوں سے جڑا ہو، بصورتِ دیگر وہ نظریہ چند دائروں تک ہی گھومتا رہتا ہے۔ پاکستان میں ترقی پسند ، سوشلسٹ یا اشتراکی سیاسی فکر پچھلی صدی کے آغاز میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہونا شروع ہوئی، اس کے لیے بنیادی کردار برصغیر کے ترقی پسند دانشوروں نے ادا کیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عملاً سوشلسٹ اور اشتراکی تحریکیں اور جماعتیں بھی اپنا وجود بنانے میں کوشاں رہیں۔

1947ء کے بعد یہ عمل بھارت میں اپنی رفتار کے ساتھ جاری رہا جس کی وجہ سے وہاں قائم کی گئی ریاست کی بنیاد سیکولرازم پر تھی، بلکہ بھارتی آئین کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے Sovereign Democratic Republic سے Sovereign Socialist Secular Democratic State قرار دیا گیا۔

بھارت اپنے طور پر سوشلسٹ ریاست قرار دینے کے باوجود ایک سوشلسٹ ریاست کیوں نہ بن سکا، یہ ایک علیحدہ بحث ہے، بلکہ شروع دن سے ملی جلی یعنی سرمایہ دارانہ وسوشلسٹ معیشت اندرا گاندھی کے عروجِ حکمرانی میں مزید دھندلا گئی اور ہلکے ہلکے سرمایہ داری نے تیزرفتار سرمایہ داریت کی طرف سفر کرنا شروع کردیا۔ لیکن ان سارے حالات و واقعات کے باوجود آج بھی بھارت میں دنیا کی بڑی سوشلسٹ و اشتراکی تنظیمیں، تحریکیں اور سیاسی جماعتیں موجود ہیں، جو سیاست ، ریاست اور سماج پر اپنا اہم اثر رکھتی ہیں۔

اس کے مقابلے میں ، سرد جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی Containment of Communism کی امریکی پالیسی کے تحت، 1947ء کے بعد پاکستانی ریاست سرکاری سطح پر سوشلسٹ سیاست کا سر کچلنے میں مصروف ہوگئی۔ ترقی پسند سیاسی جماعتیں، تنظیمیں ممنوع قرار دے دی گئیں، کمیونزم کی سیاست کرنے ولا غدار قرار دے دیا گیا۔ کمیونزم یا سوشلزم کو کچلنے کی اس ریاستی مہم میں فیض احمد فیض جیسے پُرامن شخص پر غداری اور بغاوت کا مقدمہ بنا۔ کمیونسٹ پارٹیاں بنانا ممنوع تھا، اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے نیپ کے اندر اپنا وجود داخل کردیا۔

پاکستان کی اشتراکی یا سرخ سیاست اس ریاستی کارروائی کے تحت زیرزمین (Underground) سیاست کی نذر ہوکر عوام سے کاٹ دی گئی۔ 1947ء سے 1966ء تک اس سیاست کو خوف کے کٹہروں میں محدود کردیا گیا۔ اسکا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ زیرزمین سرگرم سوشلسٹ یا اشتراکی ایکٹوسٹ اپنے اپنے دائروں تک محدود ہوتے چلے گئے، گو وہ بات عوام کی اور اجتماعی طور پر کرتے لیکن اُن کی Audience چند افراد تک محدود ہوگئی۔ سادہ الفاظ میں وہ آپس ہی میں سوشلزم سوشلزم کھیلنے لگے۔

ریاست نے سوشلسٹوں کا عوام سے رابطہ ایسا کاٹا کہ وہ خود بھی اس کو کاٹتے ہی چلے گئے۔ انہوں نے کٹر اشتراکی اصطلاحوں، بحثوں اور موضوعات کو اپنی سیاست قرار دے دیا۔ روس نواز، چین نواز اشتراکی دو مختلف دھڑوں میں بٹے اور پھر وہ اُن بحثوں کا شکار ہوئے جن کا تعلق اپنی زمین سے کم اور روس اور چین میں برپا سوشلزم سے زیادہ تھا۔

وہ دانشوری کی اس حد تک چلے گئے کہ بحثوں اور اختلافات کے دائرے سابق سوویت یونین، عوامی جمہوریہ چین، انڈوچینی خطے، افریقہ اور دیگر خطے تھے۔ افسوس، یہ ذہین، قابل، محنتی اور اجتماع کی فکر رکھنے والے اکثر لوگ اپنی فکر کو سرزمینِ پاکستان کی ثقافت، تہذیب و تمدن اور عوامی زبان میں نہ ڈھال سکے۔ سٹالن اور ٹراٹسکی کا اختلاف، چین اور سابق سوویت یونین کا اختلاف، انہی پر اُن کی توانائیاں صرف ہونے لگیں۔اُن کے کٹرپن نے جہاں انہیں عوام سے کاٹنا شروع کیا، وہیں وہ عملاً اشتراکی ملائیت کا شکار ہوگئے۔ وہ سوشلزم اور کمیونزم کی Perfections کے معاملات میں الجھ گئے۔

ساٹھ کی دہائی اور اس کے بعد اسّی کی دہائی تک بیشتر اشتراکی رہنما، دانشور اور تحریکیں ایسی ملائیت/پوپائیت کا شکار ہوئیں کہ وہ عوام سے دور ہوتے چلے گئے۔ ساٹھ کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے ساتھیوں نے مل کر جب پاکستان پیپلزپارٹی بنائی اور سوشلزم کو ایک مقبول نعرے کے طور پر متعارف کروانے میں کامیابی حاصل کرلی تو بیشتر ’’بنیاد پرست کمیونسٹوں‘‘ نے کہا، ’’بھٹو نے سوشلزم چوری کرلیا ہے۔‘‘

شروع میں سوشلسٹوں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان پیپلزپارٹی کو سپورٹ کیا لیکن ہالہ کانفرنس کے بعد جو 1970ء کے الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے پر منعقد ہوئی، ان کٹر سوشلسٹوں نے آہستہ آہستہ پی پی پی کو ’’ردِ انقلاب‘‘ قرار دے کر تھوڑے بہت قائم رابطے محدود کرنا شروع کردئیے۔ اِن سوشلسٹوں میں ایک بڑا دھڑا جو پی پی پی اور ذوالفقار علی بھٹو کے پرچم تلے یا اُن کے پرچم کو تسلیم کرنے میں قائم رہا، وہ دھڑا پیپلزپارٹی پنجاب کے چیئرمین بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کاگروپ تھا اور دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ یہی وہ گروپ تھا جس نے پی پی پی اور بھٹو کو پنجاب میں مقبول جماعت کے طور پر عوام میں متعارف کروانے میں کامیابی حاصل کی۔

انہی سوشلسٹوں کے سبب 1970ء کے انتخابات میں پی پی پی پنجاب میں حیران کن کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔زیادہ تر لوگ تاریخ کو ایسے مسخ کرتے ہیں جیسے کوئی بچہ سلیٹ پر لکھے الفاظ کو مٹا دیتا ہے۔ پی پی پی کا پہلا تنظیمی کنونشن ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر 4-K گلبرگ میں ہوا اور انہی کے بقول وہ اس دن پارٹی کے رکن نہیں بنے جبکہ عملاً پی پی پی پنجاب کا دفتر 4-A مزنگ تھا جہاں بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پی پی پی کو پنجاب میں منظم، متعارف اور کامیاب کروانے میں کامیاب ہوئے۔ یعنی پی پی پی کو ایک مقبول سوشلسٹ جماعت متعارف کروانے کا سہرا 4-Aمزنگ کے سوشلسٹوں کے سر ہے جس کی قیادت بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کرتے تھے۔ عوام سے کٹ جانے والے اشتراکیوں نے عملاً بابائے سوشلزم کو بھی اپنے کٹرپن رویوں سے مسترد کردیا۔

مغربی پاکستان جو 1971ء کے سانحے کے بعد کُل پاکستان یا بچاکھچا پاکستان تھا، اس میں پی پی پی کی پنجاب میں مقبولیت نے اسے مغربی پاکستان کی مقبول سوشلسٹ پارٹی کے طور پر متعارف کروانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں طلبا اور عوام کی جس Mass Movement کی قیادت کی، اس کا مرکز پنجاب ہی تھا جہاں ساری کی ساری تنظیم شیخ محمد رشید جیسے سوشلسٹوں کے تحت تھی۔ خالص (Pure) اور Perfect سوشلسٹ، پی پی پی اور بھٹو کی کامیابی کے بعد انہیں ردِانقلاب کہتے ہوئے عوام سے مزید دُور ہوئے۔

ایک طرف ریاست انہیں کچلنے میں مصروف تھی اور سراٹھانے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی اوردوسری جانب وہ Purity کے جھنجھٹ میں ایسے الجھے کہ بس۔ سرد جنگ میں فیصلہ کن نام نہاد جہادِ افغانستان تھا۔ اس جنگ نے جہاں پاکستان کی سیاست کو نگلا، وہیں پاکستان کے سماج میں بچے کھچے عوامی افکار کو بھی نگل لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے عام کارکن تک اس جنونیت کا نشانہ بنے۔

جب سارا میدان عالمی سرمایہ داری اور ا س کے سرخیلوں نے مار لیا تو پاکستان میں بچی کھچی ترقی پسند سیاست بھی معدوم سے معدوم تر ہوتی چلی گئی۔ پی پی پی نے 1986ء میں مفاہمت کا آغاز کرکے اس عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ پی پی پی کی 1967-1977ء اور پھر 1977ء سے 1986ء تک جدوجہد نے پاکستان میں ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جس پر مسلمان دنیا ہی نہیں بلکہ اب ساری دنیا اس پر حیران ہے کہ ایک نہتی لڑکی (بے نظیر بھٹو) کو ایک مردانہ معاشرے میں مقبول سیاسی لیڈر اور حکمران بنوانے میں کامیابی ہوئی۔

اس کامیابی کاتمام تر سہرا اس سیاست کو جاتا ہے جو 1977ء کے بعد پی پی پی کے جانثار سیاسی کارکنوں نے کی، جنہیں خالص ترقی پسند Bhutto’s Worshippers کہتے ہیں۔ پی پی پی کے انہی شخصیت پرستوں کے سیاسی عمل کے بطن سے پاکستان میں ایک خاتون لیڈر بنیں۔ بے نظیر بھٹو کسی Feministتحریک یا جدوجہد سے نہیں بلکہ ذوالفقارعلی بھٹو کے لیے جان قربان کر دینے والے کارکنوں کی دل دہلا دینے اور حیران کردینے والی جدوجہد کے نتیجہ میں کامیاب ہوئیں۔

گو 1986ء کے بعد پی پی پی نے سرمایہ دارانہ نظام سے مفاہمت کا سفر ہر آئے روز تیز کیامگر ایک خاتون (بے نظیر بھٹو) کو لیڈر تسلیم کروانے کاتمام تر کریڈٹ عوام کے لیے سُولی پر جھول جانے ولاے رہبر ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے سیاست کے عشق میں گرفتار، اپنے آپ کو آگ میں جھلسا دینے والوں کے سر ہے۔

دلچسپ تضاد دیکھیں، وہ کٹر کمیونسٹ اشتراکی جو ذوالفقار علی بھٹو پر سوشلزم چوری کرنے کا الزام لگاتے اور بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کو اشتراکی تسلیم نہیں کرتے تھے، انہی کمیونسٹوں نے 1986ء کے بعد ایک نیا سیاسی جنم لینے والے بے نظیر بھٹو کے پرچم تلے پناہ لینی شروع کردی۔ اسّی کی دہائی کے بعد، جب ملائیت کی ضربیں شدید ہونے لگیں تو انہی سوشلسٹوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947ء کی تقریر میں پناہ لینے کی سعی کی اور اسے اپنا بیانیہ قرار دیا۔

سوویت یونین بکھرنے، مشرقی یورپ میں سوشلسٹ نظام کے خاتمے کے بعد پاکستان میں موجود اِن کٹر سوشلسٹوں کی بڑی تعداد سوویت یونین اور سوشلسٹ یورپ کے سفارت خانوں سے ایسی محروم ہوئی کہ ان کی اکثریت نے اجتماعی جدوجہد کی بجائےNGOs کے تحت سماج میں Compartmentalization (معاشرے کی اجتماعی تبدیلی کی بجائے مختلف سیکشنز میں تبدیلی) کے اصول کو اپنا لیا۔ انسانی حقوق، صحافیوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق، تعلیم کا حق، بے روزگاری اور ایسے لاتعداد ایشوز پر NGOs کا قیام ہونا شروع ہوا اور یوں اشتراکیوں کا ایک شان دار کیڈر ان Funded پراجیکٹس کی نذر ہوا۔

متعدد بار اِن سابق اشتراکیوں کی طرف سے کوشش ہوئی کہ NGOsکے بطن سے ایک ہلکی پھلکی ترقی پسندجماعت نکالی جائے مگر ہر بار ناکامی ہوئی، کیوں کہ سابق اشتراکیوں کی طرف سے قائم یہ NGOs ایک نئی ’’بابو‘‘ کلاس کو جنم سے چکی تھیں جو Good Governance اور کرپشن کو مسئلہ سمجھتی ہے جبکہ سوشلزم استحصال کے خاتمے اور عوامی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے۔

ایسی آخری کوشش عمر اصغر خان نے کی، مگر وہ اس سیاست کے عمل میں پُراسرار طور پر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کا دور اِن NGOs کے لیے گلیمرس دَور تھا۔ بیشتر نے سوشلزم سے لبرل ازم اپنا لیا۔ وہ سمجھے کہ مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ بس لبرل ازم سے کیا جا سکتا ہے، جو کہ ایک سراب ہے۔ لبرل ازم تو سرمایہ دارانہ فکر ہے جبکہ سوشلزم عوامی فکر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).