سیاستدان ہیں ہی چور۔ ۔ ۔


‏انسانی ارتقاء کا عمل بڑھا تو خاندانوں نے قبیلوں پھر ریاستوں کی اشکال اختیار کیں۔ قبیلوں کے سردار بنے پھر مختلف قبائل کے اوپر کوئی حاکم یا بادشاہ بن گیا۔ یہ بادشاہ یا حاکم اکثر قبائل نے خود منتخب کیے یا بزور طاقت براجمان ہوگئے۔

ہمارے معاشرے میں بھی ایسا ہی ہے گاؤں کے چودھری یا نمبردار سے لےکر ملک کے سربراہ تک عام طور پہ وہی شخص آگے آتا ہے جس کا کسی نا کسی طرح اپنے مخصوص علاقے پہ اثر و رسوخ ہو صاحب شعور ہو۔

گاؤں کا نمبردار اپنے علاقے کے لوگوں کے درمیان تصفیہ طلب امور نمٹاتا تھا۔ نمبردار یا جاگیر دار اچھی شہرت کے عامل نرم دل عوام دوست بھی ہوتے اور اپنے مزارعین ملازمین پہ جبر ڈھاتے ظالم جاگیر دار بھی۔

جب ہمارے ہاں سامراج کا قبضہ ہوا تو اس نے بھی اپنے پٹھووں حواریوں گدی نشینوں کو جاگیریں عطا کیں تاکہ ایک بہت بڑے خطہ زمین پہ حکومت قائم رکھنے کےلئے چھوٹے موٹے باغیوں سرپھروں کا لوکل سطح پہ پہ ہی قلع قمع کیا جا سکے اور مقبوضہ ریاست پہ کنٹرول قائم کیا جا سکے۔ الغرض ظالم جاگیردار اور عوام دوست نمبردار دونوں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
جیسے جیسے سیاسی عمل کا آغاز ہوا اپنے اپنے گاؤں دیہات قصبوں اور بڑے شہروں سے ایسے ہی لوگ سیاست میں آ گئے اور منتخب ہو کر حکومتی ایوانوں میں پہنچنا شروع ہوئے جن کو ان کے علاقوں میں پسند کیا جاتا تھا اپنا نمائندہ سردار سمجھا جاتا تھا یا پھر وہ جن کا بزور طاقت اپنے علاقے میں اثر و رسوخ تھا۔
اسی طرح شہری حلقوں سے اچھی شہرت اور مالی ساکھ رکھنے والے کاروباری حضرات، وکلا و اساتذہ وغیرہ بھی سیاسی میدان عمل میں اترے۔

تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اکثر ایسے لوگ ہی اپنے علاقوں میں بڑے سمجھے جاتے تھے جو اپنے لوگوں کے کام آتے، پنچایتوں میں انصاف فراہم کرتے، غریبوں کی مدد کرتے تھے۔ ظالم جاگیرداروں چودھریوں کی تعداد کم تھی لیکن منفی بات کی شہرت چونکہ زیادہ ہوتی ہے اس لئے ہمارے قصے کہانیوں افسانوں ڈراموں میں ان کا ذکر بھی زیادہ ہوتا ہے۔

خیر یے لوگ سیاسی عمل کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اپنے حلقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کونسلرز پھر چئیرمین ممبر ضلع کونسل سے لے کر ایم پی اے ایم این اے بنتے رہے اور وزیراعظم صدر کے عہدے سنبھالتے رہے
یہاں پر بھی اکثریت انہی کی ہے جو عوامی خدمت اور اچھی شہرت کی بنیاد پہ ووٹ حاصل کرکے یونین کونسل سے لےکر پارلیمان تک پہنچے۔ ووٹ خرید کر یا بزور بازو حاصل کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو گی۔

یہ سیاستدان اپنے حلقوں میں لوگوں کی موت مرگ سے لےکر شادی بیاہ کی تقاریب میں شریک ہوتے ہیں۔ یہی عوامی نمائندے علاقے کے ترقی جیسے تعلیم صحت، تعمیرات گلیات و شاہرات و دیگر ترقیاتی کاموں کے لئے حلقے کی عوام کی آواز بنتے ہیں ان کے کام آتے ہیں۔
کچھ یہاں پر بھی اقربا پروری کرتے ہو نگے غیر قانونی ٹھیکے لیتے ہوں گے الغرض نظام میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں لیکن اکثریت عوام کی مرضی سے منتخب ہو کر آتی ہے۔ لہذا کسی کو کوئی حق نہیں کہ مجموعی عوامی شعور پہ انگلی اٹھائے۔

ریاستہ نظام حکومت میں طاقت کے دیگر محرکات بھی ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں کے ساتھ فوج بھی ایک سٹیک ہولڈر ہوتی ہے نظام عدلیہ ہوتا ہے پھر حکومتی نظم و نسق چلانے کےلئے بیوروکریسی کا ایک پورا نظام ہوتا ہے۔
ملک خداداد پاکستان کا قیام بھی ایک جمہوری جدوجہد کے بعد عمل میں آیا ہے اور بابا جی اور ان کے دیگر ساتھیوں نے اعلان کیا تھا کہ یہ ایک جمہوری ملک ہوگا جس کا نظام حکومت عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے پاس ہوگا۔
لیکن ایسا ہو نہ سکا اور جمہوریت پٹڑی پہ چڑھتی اترتی رہی اور ستر سالوں میں زیادہ وقت اتری ہی رہی۔

طاقت کا منبع ظاہری بھی اور پوشیدہ بھی عسکری ادارے کے پاس ہی رہا۔ نئی نویلی لاڈلی بیوروکریسی جو کہ زیادہ تر تقسیم کے وقت ہندوستان سے امپورٹ کی گئی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منہ زور ہوتی گئی۔ رہی سہی کسر نظام عدل نے پوری کر دی جو آمریت کو قانونی چھتری مہیا کرتی رہی۔
طالع آزماؤں اور بیروکریٹس نے اس ملک کی عوام کو ایسے ہی ہانکا جیسے وہ انگریز سرکار کے زمانے میں ایک مفتوح قوم کو ہانکتے تھے بلکہ اس سے دو چار ہاتھ آگے ہی نکلے ہوں گے۔
ان اداروں نے خود کو ناقابل تسخیر بنایا اپنے لئے نظام میں لامحدود اختیارات اور مختلف قسم کی مراعات حاصل کیں جیسے زرعی رقبے پلاٹ وغیرہ۔
جو زرعی زمین بےزمین ہاریوں کسانوں میں تقسیم ہونا تھی اس کی بندر بانٹ ادھر ہونے لگی۔

قیام پاکستان کے ساتھ ہی ان سیاستدانوں کو ایک منظم مہم کے تحت بدنام کرنا شروع کیا گیا۔ ان کو چور نکما کرپٹ ثابت کیا جاتا رہا۔
اور ذرائع ابلاغ کے اس جدید دور میں یہ مہم مزید تیزی اور زیادہ مہارت کے ساتھ اپنے عروج پے ہے۔
رہی سہی کسر یہ سیاستدان بھی ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھال کر اور آمروں کے آلہ کار بن کر پوری کرتے رہے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے۔ عوام کو ڈلیور نہیں کیا۔ اور آج بھی اسٹیبلشمنٹ جب کسی سیاسی جماعت کو اپنے عتاب کا نشانہ بناتی ہے تو دوسری جماعت خوشی سے بغلیں بجاتی ہے۔
معلوم نہیں یہ کب سمجھیں گے کہ
ہوا کسی کی نہیں چراغ سبھی کے بجھیں گے۔

اگر ہم ملک کے گزشتہ ستر سالوں پہ نظر دوڑائیں تو مورخ یہی لکھ رہا کہ جب جب اس ملک پہ کڑا وقت آیا اسی نا اہل کرپٹ سیاستدان نے ڈوبتی کشتی کو کنارے لگایا۔ اسی نے ملکی دفاع کو مضبوط کیا اور صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور امن و امان قائم کیا۔
یہاں کسی ایک شخص کی برائی یا تعریف کرنا مقصود نہیں صرف ایک نظام کی بات کرنا مقصد ہے باقی آپ میں سے بےشمار لوگ مطالعہ پاکستان کے علاوہ کی تاریخ بھی جانتے ہیں۔

اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ یہ عوامی نمائندہ یہ سیاستدان ہر مشکل وقت میں چاہے وہ گاؤں یا محلے میں کوئی موت مرگ غمی خوشی ہو کوئی ناگہانی آفت ہو یا آپ کا ملک کسی دو راہے پہ کھڑا ہو یہ عوامی نمائندہ اپنی خدمات پیش کرتا ہے مذاکرات کی میز پہ بیٹھتا ہے کسی کے گناوں کا بوجھ اٹھاتا ہے سب باتوں کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے سارا اور سارا کریڈٹ کوئی اور لے جاتا ہے اور یہ سیاستدان ساری لعنیں سمیٹ کر عوامی خدمت میں جت جاتا ہے۔
اسکی ایک ہی فکر ہوتی ہے کہ یہاں سے واپس اپنے حلقہ انتخاب میں جانا ہے اور سرخرو ہوکر جانا ہے۔

اور آخر میں سب سے اہم بات۔
گھر میں جب خاتون خانہ سے ڈوگی والی کروا کر نکلیں تو باہر چوک میں اس کا غبار بھی سیاستدانوں پہ ہی نکلتا ہے۔
یہ ہیں ہی چور۔
لٹ کے کھا گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).