سٹیون ہاکنگ پہ ایک نشست


جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا؟
۔ مگر یہاں جنگل کی نہیں سائنس لیبارٹری کی بات ہورہی ہے!
مغرب کی سائنسی تجربہ گاہ۔

ان سائنسی تجربہ گاہوں میں کیا پیش رفت ہو رہی ہے، کن امور پہ مشاہدے کیے جارہے ہیں اور فالسی فیکیشن ٹیسٹ کے بعد کون سے قوانین وضعکیے جارہے ہیں؟ یہ لیبارٹریز ”بازیچہء اطفال ‘‘نہیں مگر ان سرگرمیوں کی حیثیت ہمارے لیے ”شب و روزہوتا ہے تماشہ مرے آگے ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔
میڈیا ء، اخبارات، جرائد ورسائل اور ہماری نجی بیٹھک بھی ان سائنسی موضوعات کو اجنبی تصور کرتی ہیں اور لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سائنس انہی گوروں کا کام ہے اور۔ ’ جس کا کام اسی کو ساجھے ‘۔

اس غیر سائنسی فضاء میں جب صد قابل احترام ڈاکٹر ناصر عباس نئیر صاحب نے بتایا کہ اردو سائنس بورڈ اگلے ہفتے سٹیون ہاکنگ کی سائنسی خدمات پہ ایک نشست کا اہتمام کررہا ہے، جس میں جامعہ پنجاب کے شعبہ ہائی انرجی فزکس کے سربراہ ڈاکٹر بلال مسعود صاحب سٹیون ہاکنگ کے سائنسی کام پہ روشنی ڈالیں گے۔ ان جملوں کو قوت سماعت نے گرفت میں لیا ہی تھا کہ روح تک مسیحائی کی تاثیر پہنچ چکی تھی، اگر سٹیون ہاکنگ کی موت کے موقع پر بھی اس کی سائنسی خدمات کو یاد نہیں کیا جائے گا تو کوئی بعید نہیں کہ آئندہ وقت میں سٹیون ہاکنگ ایک اساطیری کردار بن جائے گا اور لوگ اس کی ظاہری معذوری کے علاوہ دیگر پہلوؤں کے بارے میں صرف قیاس آرائیوں میں الجھے رہیں گے۔

مقررہ دن کے طے شدہ وقت سے کچھ دیر قبل راقم اپنے ڈیپارٹمنٹ کے کمرۂ امتحان سے چینی زبان کا پرچہ دے کر نکلا اور منہ طرف سائنس بورڈ کی نیت کرکے روانہ ہوا، اس موقعے کے علاوہ بھی اردو سائنس بورڈ ماہانہ سائنس میگز ین جاری کرتا ہے اور لیکچرز کا اہتمام کرتا ہے جو اس غیر سائنسی فضاء میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ ابھی راہ گزر ہی میں تھا کہ اورنج ٹرین کی کنسٹرکشن کے باعث قید مقام سے گزرنا پڑا اوراس مقام کو عبور کیا تو منیر نیازی کے شعر کے مطابق،
اک اور دریاء کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

یعنی ایک اور احتجاج اور راستہ بند۔ بہرحال ان غیر سائنسی مسئلوں سے دامن چھڑاتا چھڑاتا خود کو اردو سائنس بورڈ کے لیکچر ہال میں پاتا ہوں۔ نشست کا آغا ز حافظ احمد ہاشمی صاحب نے باقاعدہ تلاوت کلام پاک سے کیا، نظامت کے فرائض حافظ محمد جنید رضانے سنبھالے ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ اردو سائنس بور ڈ میں سائنس سے متعلقہ موضوعات پہ ماہانہ خصوصی لیکچرزکا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان لیکچرز میں اساتذہ کرام، طلبہ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کرتے ہیں۔ اس کے بعد حافظ جنید رضا نے ڈائریکٹرجنرل اردو سائنس بورڈ ڈاکٹر ناصر عباس نئیر صاحب کو افتتاحیہ کلمات اداکرنے کی گزارش کی۔ ڈاکٹر ناصر عباس نئیر صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہاکنگ کی۔ ” قوت ارادی‘‘ اور ” محققانہ خواہش و لگن ( Urge & Desire)‘‘ ہر جستجو رکھنے والے شخص کے لیے مشعل راہ ہے، نیز انہوں نے اس قوت کو سٹیون ہاکنگ کی سائنسی کامیابیوں کے پیچھے ایک اہم محرک قرار دیا۔

اس کے بعد مہمان مقرر کو اظہار کی دعوت دی گئی تو ڈاکٹر بلال مسعود صاحب آغاز سے ہی سٹیون ہاکنگ کی سائنسی کامیابیوں کا کریڈٹ تقسیم کرتے دکھائی دیے۔ ڈاکٹر بلال مسعود صاحب نے شروع میں کہا کہ ہاکنگ کی شخصیت پہلے بہت بات ہوچکی ہے اور میں اس پہ زیادہ نہیں بات کروں گا، مگراس کے برعکس سٹیون ہاکنگ کی اہلیہ کے تعاون سے لے کر سٹیون ہاکنگ کے لیے ریاضی کی مساواتیں حل کرنے والے چند فرضی طلبہ کا بھی ذکر ہوگیا مگر مرکزی کردار ابھی بھی پردۂ اخفا میں ہی تھا۔ آخرکار جب ڈاکٹربلال مسعود صاحب سٹیون ہاکنگ پہ بات کرنے لگے تو سوال اٹھا یا کہ ان کو نوبل انعام کیوں نہیں دیا گیا۔ کسے خبر تھی کہ ڈاکٹر بلال مسعود صاحب کے ذہن میں نوبل انعام کا لفظ آتے ہی وہ اپنے سماجی و سیاسی تعصب کے حصار میں آجائیں گے۔ اورغیر یقینی حالات میں کہنے لگے کہ ابھی جیسے یہ امن کے نوبل انعام کے ساتھ کیا گیا کہ ہمدردیوں کی وجہ سے اسے کسی کو دے دیا گیا، اور سٹیون بھی جو کہتا رہا وہ بھی ہمدردیوں کے باعث نشر ہوتا رہا وگرنہ کوئی اور کہتا تو یقینا رد کردیا جاتا۔

محفل موضوع سے دور جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ کسی موضوع پہ بات کرتے ہوئے انسان مکمل تعصب سے پاک نہیں ہوسکتا مگرسائنسی افکارمیں حتی الوسع غیر جانبداررویے کا اظہار ناگزیر ہوتا ہے، مگر ایک ماہر فزکس کے کسی سائنسدان کے بارے میں ایسے جملے کسی مثبت رویے کی عکاسی نہیں کررہے تھے۔

بارہا امن کے نوبل انعا م کو ہمدردی کے ووٹ سے منسوب کرکے شامل گفتگو کرنا، سٹیون کی خدمات کو کبھی سائنس سے خارج کرنے کی کوشش کرنا اور کبھی اس کو کسی اور سائنسدان کا کام قرار دینے کی کوشش کرنا، عشق و عقل کی چپقلش، امیر خسرو کا کلام اور مغلیہ عہد میں لکھی گئی غیر منقوط کتاب اورپھر ریاضی کو خارج از سائنس کہنا۔ الغرض یہ سب کچھ لیکچر میں تھا، مگر سٹیون کی سائنسی خدمات کا اتنا ہی ذکر تھا جتنا کہ آٹے میں نمک!
جب ڈائریکٹر اردو سائنس بورڈ ڈاکٹر ناصر عباس نئیر صاحب نے مہمان مقرر کو یاد دلایا کہ بلیک ہول کے بارے میں گفتگو کیجئے، شرکا اس بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

اس کے بعد مہمان مقرر نے فرض کفایہ ادا کرنے کے انداز میں چند جملے کائنات کے پھیلاؤ کے عمل پر بولے کہ” ایک کثیف نقطے سے آغاز اور پھر پھیلاؤکے عمل سے مسلسل کائنات دوچار ہے اور ذرات ایک دوسرے سے اور باہمی کشش کے حصار سے دور جارہے ہیں جو اس پھیلاؤ کا موجب بن رہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد پھردوبارہ سماجی و سیاسی بحث کو بیچ میں لے آئے اور سامنے آویزاں سکرین میں پاورپوائنٹ ( powerpoint ) کی اچانک سلائیڈ بدلی گئی تو یاد آیا کہ بلیک ہول کا پورے فسانے میں ذکر ہی نہیں کیا، تو ڈاکٹر بلال مسعود صاحب نے بتایا کہ” سٹیون ہاکنگ نے کہا تھا کہ بلیک ہول سے شعائیں نکلتی ہیں جو ہاکنگ ریڈیشنز کہلاتی ہیں، یہ تابکاری عمل بھی کائنات میں تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے جو کہ نئے سیاروں کو جنم دیتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر بلال مسعود صاحب درحقیقت اس قومی رویے کی نمائندگی کررہے تھے جو سائنس کو پڑھنے کے باوجود بھی سائنس سے اجنبیت کا باعث بنا رہتا ہے۔ سائنس کا انسان سے براہ راست تعلق ہے۔ سٹیون ہاکنگ نے جن شعاعوں کے متعلق باتیں لوگوں تک پہنچائی، وہ آفاقی نوعیت کی ہیں، ان کا تعلق کائنات میں بسنے والے ہر انسان سے ہے لہذا سٹیون ہاکنگ ہر انسان کا نمائندہ سائنسدان ہے، مگر سائنس اور سائنسدان کو زیر بحث لاتے وقت اس کی سائنسی خدمات سے پہلو تہی کرکے دائیں بائیں کی گفتگو کرنا اور مرضی کا نتیجہ اخذ کرنا ایک فکری بددیانتی ہے۔ ہم نے سائنس سے صحیح معنی میں آشنا ہونا ہے تو سائنسی کتب نہیں بلکہ سائنسی انداز فکر اور استدلال کو معاشرے میں جگہ دینی ہوگی، اور سائنسی فکر تقاضا کرتی ہے کہ سٹیون ہاکنگ اور امن کے نوبل انعام کا تقابل کرنے کے بجائے سٹیون کے سائنسی افکار پہ کھل کر بات کی جائے۔ سٹیون ہاکنگ کے موضوعات کائنات کے آغازیعنی بگ بینگ سے لے کر اس کائنات کے موجودہ پھیلاؤ اور مستقبل کے ممکنہ سکڑاؤ کا احاطہ کرتے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے تعصبات کے خول سے نکل کر سائنس اور سائنسدانوں کو اپنے معاشرے میں جگہ دیں تاکہ دوبارہ کوئی سائنسی موضوع پہ رکھی جانے والی نشست یوں سماجی تعصب کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).