جمہوریت کا ڈھول بجانا بند کریں


جمہوریت پر کوئی بھی مکالمہ کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس بات کا ادراک کیا جائے کہ جمہوریت کوئی آسمانی کتاب نہیں بلکہ  انسانوں کا بنایا ہوا ایک نظام ہے جس کو پرکھنا اور اس کو بہتر بنانا ایک بالکل منطقی کام ہے. بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک ایسا نظام  جو تقریبا دو ہزار سال قبل وضع کیا گیا اور تقریباً تین سو سال سے مغرب میں رائج ہونا شروع ہوا وہ موجودہ دور میں موثر ہے بھی یا نہیں ؟

 اور یہ کہ کیا مغرب کی ساری ترقی اور کامیابی کا سہرا جمہوریت کے سر باندھنا ٹھیک ہے؟  پھر گزشتہ تین دہائیوں سے دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت چین جمہوریت کے بغیر کیسے ترقی کر گئی….

طالب علم کے طور پر بھی یہ اچھی طرح دیکھا جانا چاہیے کہ جمہوریت  اپنی موجودہ شکل میں آنے والے وقت کے لئے قابل عمل ہے بھی یا نہیں؟

کہیں جمہوریت کی کامیابی اس امر میں تو پوشیدہ نہیں کہ ہم اس سے بہتر نظام کے خد و خال واضح کرنے میں گزشتہ کئی صدیوں سے ناکام رہے ہیں ؟

کہیں ایسا تو نہیں یہ جمہوریت اس ڈھول کی طرح ہمارے گلے میں بندھ گئی ہے جس کو اتارنے کی سکت ہم میں نہیں اس لئے بہتر ہے کہ بجاتے رہو …کیوںکہ کام تو ڈھول کر ہی رہا ہے خواہ اس کی آواز کتنی ہی بھدی نہ ہو۔

ان سارے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوۓ جمہوری طرز حکومت کی کچھ خامیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں

جہموریت کی سب سے قدیم آماجگاہ، برطانیہ، کے معروف وزیر اعظم ونسٹن چرچل کہتے ہیں کوئی بھی اس بات کا دعوے دار نہیں کہ جمہوریت ایک کامل طرز حکومت ہے بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے ما سوائے ان تمام نظاموں کے جو وقتاً فوقتاً آزماے گے۔ .یعنی مجبوری کا نام شکریہ والا حساب ہے

جمہوری نظام کی ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ یہ کسی خاص گروہ کو حقوق کا علمبردار ہونے سے نہیں روک سکتا لہذا اگر ایک گروہ اپنے مقصد کو لے کر کچھ لوگوں میں مقبولیت حاصل کر لیتا ہے تو وہ موثر اقدام کر کے حکومت پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور اس طریقے سے خود جمہوری روح کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس میں لوگوں کے حقوق کی حفاظت کا دعوی کیا جاتا ہے

حال ہی میں مولانا خادم حسین کے دھرنے کی صورت میں ہم نے یہ دیکھا کہ جمہوریت کو قابو میں رکھنا ضروری ہے۔

 امریکا سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس جان جے کے مطابق “جمہوریت اس وقت تک قابل قبول ہے جب تک کہ اسے ریگولیٹ کیا جا سکے۔ ” ان کے مطابق جمہوریت لالچی لوگوں کو غیر معمولی مواقع فراہم کر سکتی ہے جج صاحب کے مطابق اخلاقی اور مذہبی عقیدے جمہوریت کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔

کیا جمہوری طرز حکومت کارکردگی اور افادیت کے لحاظ سے سب سے موثر ہے اور کیا اپنی اس کارکردگی کو لے کر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ملک میں ترقی ہو اور لوگ خوشحال ہو جائیں۔ چین اور دبئی کی حالیہ سالوں میں ہوش ربا ترقی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ حکومتی کارگردگی کے لئے جمہوریت کا ہونا یا نا ہونا کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتا

ہمارے یہاں اپنی تمام خرابیوں کے باوجود صدر ایوب خان کے دور میں ہونے والی ترقی اور حکومت کی کارگردگی کی آج بھی مثالی سمجھی جاتی ہے۔

چوتھے امریکی صدر جیمز ہیملٹن واضح طور پر اکثریت کی طاقت سے خائف تھے ان کے بقول جہاں اکثریت جذبات کے بندھن میں بندھ کر متحد ہو جائے اور اس کو موقع مل جائے وہاں اقلیتوں کے حقوق غیر محفوظ ہو جاتے ہیں

امریکا کے بانیوں اور دوسرے صدر جان آدم کے مطابق جمہوریت زیادہ طویل عرصہ تک نہیں رہ سکتی۔ یہ جلد ہی تھک کر ضائع ہوجاتی ہے یا خود کشی کر بیٹھتی ہے

کچھ محققین کے مطابق جمہوری طرز میں اس بات کا قوی امکان رہتا ہے کہ لوگ سیاسی سوجھ بھوجھ کی کمی کی وجہ سے اپنے حق راے دہی کا ٹھیک استعمال کرنے سے قاصر ہوں۔ اس لئے اس بات کا امکان رہتا ہے کہ ووٹر کے غیر منطقی اور جذباتی رحجانات کو دیکھتے ہوۓ سیاستدان نظریاتی اور حقائق کی بجاے تعلقات عامہ اور دیگر حربے استعمال کرنے کو فوقیت دیں

موجودہ دنیا میں جمہوری طرز حکومت کسی بھی طور سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں دیتا۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں معاشی ترقی اور غربت کا خاتمہ زیادہ اہمیت کے حامل ہوں یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں آج بھی لوگ پیٹرول کی قیمت اور ڈالر کے ریٹ کو بنیاد بنا کر حکومتوں کی کارگردگی کا موازانہ کرتے ہیں۔ کسی دور میں کتنا سیاسی استحکام رہا، اس کی باری بہت بعد میں آتی ہے

الیگزینڈر ہملٹن کے مطابق اگر ہمارا جھکاؤ جمہوریت کی طرف بہت زیادہ ہو گیا تو ہم بہت جلد یک شخصی نظام حکومت کی جانب راغب ہو سکتے ہیں

کچھ مورخین کے مطابق جمہوری طرز حکومت عوام کے اذہان میں حکومت کے لئے بد اعتمادی اور ناپسندیدگی کے رحجانات کو فروغ دیتا ہے۔ یہ رحجانات معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور چھوٹوں بڑوں ، استاد شاگرد اور یہاں تک کہ بچوں اور والدین کے مابین تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے .

محققین نے ترقی یافتہ جمہوری مغربی ملکوں میں طلاق کے بڑھتے ہوۓ رحجان، بچوں میں جرائم وغیرہ کی ایک وجہ وہاں پر رائج جمہوری طرز حکومت کو بھی گردانا ہے

معروف جرمن فلسفی نطشے نے تو مغربی جمہوریت کو براہ راست مذہب سے بھی جوڑا ہے۔ اس کے خیال میں “جمہوری طرز حکومت” عیسایت کی میراث ہے۔

موجودہ دور کے ایک معروف اسرائیلی سیاستدان اور رابی شاچ فرماتے ہیں کہ جمہوریت جھوٹ کا پلندہ ہے، جس میں مفادات کا حصول ہی اولین مقصد ہوتا ہے جبکہ تورات کی تعلیمات سچائی کے حصول پر مشتمل ہیں۔

علامہ اقبال کے جمہوریت پر خیالات تو زبان زد عام ہیں لیکن فارسی کا یہ شعر کئی تحریروں پر بھاری ہے

گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کاری شو

کہ از مغزِ دو صد خر عقلِ انسانی نمی آید

جمہوری طرز حکومت سے کنارہ ضروری ہے کہ دو سو گدھے ( ہم نہیں، علامہ کہ رہے ہیں) ایک مرد دانا پر بھاری نہیں ہو سکتے۔ اس بحث میں سے کیا نکلتا ہے؟ اس سے ماورا بات یہ ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے ایک پرفیکٹ جمہوری نظام کا انتظار کرنا چھوڑئیے اور جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق کام کیجئے .وہی قائد عظم والا کام کام اور کام جو کسی طرز حکومت کا محتاج نہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).