میں اشتراکیت کی نہیں یکساں حقوق کی کی بات کر رہا ہوں


میں طبقاتی نظام کے خاتمے کی بات کررہا ہوں۔ آپ کہیں گے کہ طبقاتی نظام کا خاتمہ ہی تو اشتراکیت کا پیش خیمہ ہے۔ نہیں جناب، اشتراکی تو طبقاتی نظام ختم نہیں کرسکے۔ بلکہ وہ تو خود ایک طبقہ بن بیٹھے تھے۔ میں تو یکسانیت کی بات کر رہا ہوں۔ بنیادی انسانی حقوق کی یکسانیت کی بات۔ تحفظ خویش کی بات۔

ہمارے ملک میں غریب عوام، کھیتوں، ملوں، کارخانوں اور بازاروں میں دن رات اپنا خون پسینہ بہاکر ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھتے ہیں۔ بدلے میں ان کے بچوں کو ان کے سب سے بنیادی حق یعنی اعلیٰ و جدید تعلیم کے بجائے فرسودہ اور روایتی نظریات پر مبنی تعلیم پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔

اول تو پاکستان میں قائم جاگیر داری نظام کے باعث غریب عوام کے لئے انسانی حقوق کا تصور ویسے ہی ناپید ہے۔ اس پر پاکستان میں رائج سرکاری ٹیکسٹ بورڈ سسٹم، مدارس کا نظام اور کیمبرج سسٹم کے تعلیمی نظاموں کی وجہ سے طبقاتی نظام کو تقویت ملی ہوئی ہے۔ یکساں تعلیمی نظام نا ہونے کی وجہ سے امراء کا طبقہ اپنے بچوں کو کیمبرج سسٹم کی تعلیم دلواتا ہے۔ جبکہ غریب عوام کا بچہ۔ ’تالا، باجا‘ پڑھتا ہے۔

پھر کیمبرج مکمل کرکے امراء کا طبقہ اپنے بچوں کو مزید تعلیم کے لئے مغربی ممالک بھیج دیتا ہے۔ جہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ بچے پاکستان کے غریب عوام پر حکمرانی کے لئے مسلط کردئے جاتے ہیں۔

غریب عوام کوبس اتنی ہی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ حکمران طبقے کے جلسوں میں ذندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگا سکیں۔ سیاسی اور مذہبی شخصیات کے من پسند نغمے گاتے رہیں۔ یہ شخصیات جب چاہیں غریب عوام سے ان کی اور ان کے بچوں کی قیمتی جانوں کا نذرانہ طلب کریں تو وہ اپنی جانیں ان پر نچھاور کردیں۔

امراء کے طبقے کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ غریب عوام کو اپنے بنیادی انسانی حقوق کا خیال کبھی آنے ہی نا پائے۔ خوراک، رہائش، صحت، لباس اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق تو دور کی بات، غریب عوام اپنی ذندگی کے تحفظ جیسا بنیادی حق بھی طبقہ اشرافیہ سے مانگ نا پائیں۔ گھٹیا ذہنیت رکھنے والے حکمران طبقے نے پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے اور غریب پاکستانی عوام ان کے مزارع بنے ہوئے ہیں۔ اشرافیہ کے بچے جب مغربی ممالک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے لوٹتے ہیں تو پاکستان میں ویسی تعلیم عام کرنے کے لئے کبھی جدوجہد نہیں کرتے جیسی انہوں نے خود حاصل کی ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر برطانیہ میں رائج تعلیم کو دیکھیں تو اس میں پرائمری اسکولوں کے نصاب میں حکومت نے انگریزی، ریاضی، سائنس، جغرافیہ، تاریخ، آرٹ، ڈیزائن اور ٹیکنالوجی، موسیقی، کمپیوٹر اور جسمانی ورزش کو لازمی مضامین قرار دیا ہے۔ خیر یہ سارے مضامین تو پاکستان میں بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ تو فرق کیا ہوا؟ فرق یہ ہے کہ برطانیہ میں اسکولوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ تاریخ کے مضمون میں پرائمری سطح سے ہی ایسی تاریخ پڑھائی جائے جو منطقی، مربوط اور عقلی دلائل پر مشتمل ہو۔ جبکہ پاکستان میں تاریخ کے مضمون میں اس کا تصور کرنا ہی فساد فی الارض برپا کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارے وطن میں تونصاب میں موجود تاریخی واقعات پر تنقیدی نظر ڈالنے سے پہلے اپنے ویزا اور پاسپورٹ پر نظر ڈال لینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ سائنس کے مضامین پڑھانے میں برطانیہ میں اسکولوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ بچوں کو سوالات اٹھانے کی عادت ڈالی جائے۔ کوئی نظریہ ان کے نوخیز ذہنوں میں شروع سے ہی ٹھونسا نہیں جائے۔ مظاہر فطرت کی توجیح و تشریح بچوں کو اپنے ذہنوں کے مطابق کرنے کی آزادی دی جائے۔

کیا ہمارے وطن میں سائنس کے مضامین کو اس طرح برتا جاتا ہے؟ ہمارے ہاں تو بقول پروفیسر ہود بھائی ’سائنس کے مضامین میں دینیات پڑھائی جاتی ہے‘۔ اب ہمارے معصوم بچے اگر ہم سے مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت سے متعلق سوالات پوچھتے ہیں تو ہم کیا کریں؟ کیا ان کے نوخیز ذہنوں میں غیر منطقی نظریات او ر جانبدارانہ دلائل پر مشتمل تاریخ ٹھونستے رہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کچل کر رکھ دیں؟

مغربی تعلیم حاصل کرکے وطن لوٹنے والے طبقہ اشرافیہ کا فرض نہیں بنتا کے وہ کم از کم اپنی تعلیم سے ہی دیانت داری برتتے ہوئے پاکستان میں یکساں اور متفقہ تعلیمی نظام کے لئے جدوجہد کریں؟ لیکن وہ تو پاکستان میں آنے کے بعد ایسی سیاست شروع کر دیتے ہیں جس کا مقصود صرف اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں یکساں تعلیمی نظام کب رائج ہوگا؟ تمام طبقاتی تعلیمی نظاموں کو ختم کرکے صرف اور صرف ایک پاکستانی نصاب کب اس ملک میں پڑھایا جائے گا؟ نہیں میں اشتراکیت کی بات ہرگز نہیں کررہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).