اسلام: مکمل ضابطہ حیات۔۔۔؟


\"rashid-ahmad-2w\"ہم سب کے ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘ میں آج کل مکالمہ زوروں پر ہے اور اسی توسط سے فیس بک پر بھی یہ بحث ہورہی ہے کہ آیا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو اس سے کیا مراد ہے  اور نہیں تو کیونکر نہیں۔ اس امر پر رائے زنی کرنے سے قبل یہ مناسب ہوگا کہ پہلے ضابطہ حیات کی کچھ تشریح ہوجائے کہ اس مرکب لفظ سے کیا مراد ہے؟ فیروزاللغات میں ضابطہ کا مطلب کچھ یوں درج ہے: قاعدہ۔ قانون۔ انتظام۔ بندوبست۔ دستورالعمل۔ اور حیات عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے زندگی، تو ضابطہ حیات کا مطلب ہوا: زندگی کا دستورالعمل۔ آئین۔ زندگی گزارنے کا قاعدہ۔ زندگی گزارنے کا قانون۔ ضابطہ حیات سے مراد ہے قوانین و ہدایات کا ایک ایسا مجموعہ جو پوری انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرے۔ پیدائش سے موت تک تمام انسانی موضوعات روحانی، جسمانی، جنسی، معاشی، عمرانی، وغیرہ، وغیرہ کے بارے میں کھل کر حکم دے کے اس موضوع سے تعلق رکھنے والے معاملات کس طور سے حل کیے جائیں۔

عربی کا محاورہ ہے ’’لِکلِ ان یصطلح‘‘ کہ ہر کوئی اپنی اصطلاحی رائے رکھنے میں آزاد ہے۔ یعنی آپ جو چاہیں اصطلاح بنا لیں یا کسی اصطلاح کی جو مرضی تشریح کر لیں۔ سو خاکسار جہاں جہاں  ضابطہ حیات کا لفظ استعمال کررہا ہے وہاں میرے نزدیک اس کی خاص معنویت ہے۔ ایسی معنویت جس میں زیادہ فوکس اجتماعی اور شخصی زندگی کے متعلق ہے نہ کہ سیاست اور سیاسی بحثوں کے متعلق۔ گو اسلام سیاسی نظام کے متعلق بھی رہنمائی کرتا ہے جس کا کچھ تذکرہ آگے آئے گا مگر اسلام بہرحال ایک مذہب ہے اور مذہب کا اصل میدان روحانیت ہے۔ بندوں کو اپنے رب سے ملانا ہے۔ انسانوں کی فلاح وبہبود کرنی ہے۔ انسانوں کو تعلیم یافتہ انسان بنانا ہے۔

خاکسار کے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اور زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ بچے کی پیدائش بلکہ پیدائش سے بھی پہلے کے مراحل یعنی نکاح شادی (جن کے نتیجے میں اولاد ہوتی ہے) سے لے کر کفن دفن تک اورحصول علم سے لیکر کائنات کے متعلق تحقیق کرنے تک اسلام ایک مکمل پیکج ہے۔ اسلام ضابطہ تو ہے ہی مگریہ ضابطہ کئی ضوابط کا مجموعہ ہے۔ جس طرح سے ایک آئین ہوتا ہے اور عدلیہ اس آئین کی تشریح کرتی ہے اور تشریح کا دائرہ ہے جس کے اندر رہتے ہوئے ممکنہ تشریحات ہوسکتی ہیں۔ باالکل اسی طرح اسلام نے بنیادی اصول وضوابط بتا دیئے ہیں  اور بنیادی احکامات کے علاوہ تمام مسائل میں تشریح کا راستہ کھلا رکھا ہے۔

اسلام سے بیشتر دنیا کا کون سا مذہب تھا جس نے اتنی بنیادی اور بظاہر معمولی باتیں بھی بتائیں کہ کھانا کیسے کھانا ہے۔ سونا کیسے ہے۔ عبادت کیسے کرنی ہے۔ پانی کیسے پینا ہے۔ کون سے رشتے ہیں جن سے نکاح ہوسکتا ہے کون سے رشتے محرم ہیں۔ عورت کے کیا حقوق ہیں۔ مردوں کے کیا فرائض ہیں۔ استاد کا کیا مقام ہے۔ شاگرد کیسا ہونا چاہئے۔ راستوں کے کیا حقوق ہیں۔ راہگیروں کے کیا فرائض ہیں۔ والدین کی خدمت کیسے کرنی ہے۔ اولاد کی تربیت کیسے کرنی ہے۔ خوراک کس طرح کی کھانی ہے۔ فضول خرچی کیوں منع ہے۔ صفائی کیوں نصف ایمان ہے۔ حکمرانوں کی اطاعت کیوں ضروری ہے۔ جنگ کب کرنی ہے۔ جنگ کیسے لڑنی ہے۔ جنگی قیدیوں سے کیسا سلوک کرنا ہے۔ ہمسائے کے کیا حقوق ہیں۔ اقلیتوں سے چاہے وہ مذہبی ہوں یا سیاسی ان سے کیسا معاملہ کرنا ہے۔ عدالتی نظام کیسا ہوگا۔ اقتصادی نظام  کیسا ہوگا ۔ غرضیکہ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں میں رہنما اصول متعین کئے ہیں جن میں سے ہر اصول پر علیحدہ مضمون لکھا جا سکتا ہے۔

جہاں تک سیاست کے حوالے سے بات ہے تو میرے نزدیک تو اسلام اس معاملہ میں بھی ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے،لیکن بہرحال تشریح کا راستہ مکمل کھلا چھوڑا ہے۔ اسلام کا بنیادی سیاسی اصول یہ ہے کہ لوگو اپنا حق رائے دہی دیانت داری کے ساتھ استعمال کرو اور یہ امانت اس کو سپرد کرو جو اس کا صحیح حق دار ہے۔ اب دیکھیں کتنا پیارا اصول ہے۔ چاہے کسی آمر کے تحت منعقد ہونے والا ریفرنڈم ہو یا کسی جمہوریہ میں ہونے والے انتخابات۔ اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہوکر اگر ووٹ اہل لوگوں کو دئیے جائیں تو وہ سیاپا نہ ہو جو ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے نااہل لوگوں کو منتخب کرکے پھر سارا سال ماتم کیا جاتا ہے کہ لٹ گئے۔ برباد ہوگئے۔

اصل یہ ہے کہ اسلام نے ہمیشہ مذہب کو سیاست سے جدا رکھا ہے۔ اسلام کو سیاست میں گھسیڑنے والے وہ ہیں جنہیں اسلام سے زیادہ ذاتی ترجیحات عزیز ہیں اور جن کے بقول دنیا میں اسلام کا پرچار اس وقت تک ہوہی نہیں سکتا جب تک ریاست داڑھی نہ رکھ لے۔ اسلام کسی خاص طرح کی حکومت کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اسلام کے نزدیک جس طرح کی مرضی حکومت ہو لیکن مبنی برانصاف ہو۔ قرآن مجید کا واضح حکم ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ناانصافی کرنے لگ جاو۔ انصاف کرو کہ انصاف اللہ کو پسند ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا رہنمائی ہوگی کہ اسلام نے بنیادی اصول اور ضابطہ متعین کردیا ہے اور طرز حکومت کا اختیار لوگوں پر چھوڑ دیا ہے کہ لوگ جس طرح کی مرضی حکومت قائم کرلیں، جس طرح کا مرضی نظام بنا لیں لیکن اس کی بنیادی اینٹ انصاف ہوگی اور یہی موجودہ جدید جمہوریت کی بنیاد ہے۔ جمہوریت کو کفریہ نظام کہنے والے وہ ہیں جو انسانوں کے سروں کو کاٹ کر فٹ بال کھیلنا تو جائز سمجھتے ہیں مگر جمہوریت کو کافر کافر کہتے نہیں تھکتے۔ ایسے انسان نما بھیڑیوں سے آپ اور توقع بھی کیا رکھ سکتے ہیں۔

جہاں تک اس دلیل کی بات ہے کہ اسلام اگر مکمل ضابطہ حیات ہے تو موٹروے پر سپیڈ بارے رہنمائی کیوں نہیں کرتا۔ عرض ہے کہ اسلام نے اس بارہ میں بھی رہنمائی کردی ہے۔ حکم ہوا کہ اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ ہر کام میں میانہ روی اختیار کرو کہ انتہا پسندی تمہیں ہلاکت میں ڈالے گی۔ میانہ روی کا حکم دے کر بنیادی تعلیم واضح کر دی گئی اور نتائج سے آگاہ کردیا گیا۔ اب جو مسافر بھی اس تعلیم سے روگردانی کرے گا۔ اس قانون کو توڑے گا وہ پکڑ میں ضرور آئے گا، چاہے موٹر وے پولیس سے اپنا چالان کرائے یا کسی گہری کھائی میں گر کر اپنا جانی ومالی نقصان کروائے۔ فیصلہ مسافر کا۔ مکمل ضابطہ حیات کی تشریح میں موٹروے پر حد رفتار کا سوال پوچھنے پر وہ لطیفہ یاد آتا ہےجس کے آخر میں بیرا یہ کہہ کر گاہک کا منہ  بند کرتا ہے کہ جناب کیا کشمیر پلاؤ میں آپ کو پورا کشمیر ڈال کر پیش کریں؟ اسلام بنیادی تعلیمات سے آگاہ کرتا ہے اور اس کے نقصان وفوائد سے بھی۔ جو اس پر عمل پیرا ہوگا وہ فائدہ اٹھائے گا اور جو عمل نہیں کرے گا وہ اپنا نقصان کرے گا۔

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
13 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments