کب آئے گا ہمارا ہیرو؟


میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم ایسے کیوں ہیں۔ کیوں ہم کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں؟ کیوں ہم اکثر گزرے دور کو یاد کر کے روتے ہیں؟ کیوں ہم ہمیشہ نئے دور اور نئی پود کو دوشی ٹھہراتے ہیں اور ان سے شکایت کرتے ہیں؟ کیوں ہماری ہر ناکامی کی وجہ ہماری حکومت ہوتی ہے؟ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ جو حکمران ہیں، یہ بھی تو ہم ہی میں سے ہیں۔ اور “ہم” “میں” سے شروع ہوتا ہے۔ جیسے ملک صوبوں سے اور صوبے شہروں سے اور شہر گھروں سے بنتے ہیں، میرے گھر سے ملک بنتا ہے، ویسے ہی قومیں افراد سے بنتی ہیں، فرد سے بنتی ہیں۔ مجھ سے میری قوم ہے، مجھ سے میرا ملک ہے۔ میں ان کا نمائندہ ہوں۔ جس دن مجھے اس بات کا احساس ہو جائے گا امید ہے کہ اس دن سے میری قوم، میرے ملک کی حالت سدھرنا شروع ہو جائے گی۔

لیکن ایسا کیوں ہے کہ کبھی ہم امام مہدی کے انتظار میں رہتے ہیں تو کہیں ہم عمران خان کو جناح سے ملاتے ہیں۔ بالغ تو میں بہت پہلے ہو گیا تھا لیکن عاقل ہوتے اک عمر لگ گئی۔ تو جب تھوڑی سی عقل آنا شروع ہوئی تو اپنے چھوٹے چھوٹے عقائد پر سوال اٹھانے شروع کیئے۔ جوابات کی مد میں مجھے سوائے جذباتی بلیک میلنگ کے کچھ نہ ملا۔ مجھے ایک دفعہ مولانا جنید جمشید سے ملنے کی سعادت نسیب ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا اگر اسلام میں موسیقی واقعی حرام ہے تو میں اسے چھوڑنا چاہتا ہوں، مجھے قائل کیجیئے۔ انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے زیادہ موسیقی کو نہیں جانتے۔ نہ ہی تمہیں مجھ سے زیادہ شہرت ملی ہے۔ تو اگر میں نے موسیقی کو خیرآباد کہ دیا ہے تو اس کی کوئی تو وجہ ہو گی نا۔ میں اگر اپنی زندگی میں کسی ایک بھی عالم، مفتی، پیر یا کسی ایک ولی اللہ کے ہاتھ میں ہی ایک جھنجھنا ہی دیکھ لیتا نا تو کبھی موسیقی نہ چھوڑتا۔

عقائد بعض اوقات آپ سے ایسی ایسی حرکتیں کروا دیتے ہیں کہ۔ ہمارے چچا مرحوم ایک زمانے میں نماز نہ پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ایک دن ان سے پوچھ لیا کہ ایسا کیوں؟ تو وہ بولے ”یار جس دن صبح فجر کی نماز پڑھ کر گھر سے نکلتا ہوں اس دن میری گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے“۔

پھر ہم جس چیز پر ایمان لیں آئیں اس کے آگے منطق کی کوئی اوقات نہیں رہتی۔ لیکن اکثر اہل ایماں اس بات سے انکاری ہیں۔ اور اپنے عقائد کو جائز اور عقلی ثابت کرنے کے لئے من گھڑت منطق کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ایک ڈاکٹر کم مولانا زیادہ صاحب دوست ایک دفع داڑھی کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ ”جب آپ سانس لیتے ہیں تو ہوا داڑھی میں سے فلٹر ہو کے آتی ہے“۔ ساتھ ہی انہوں نے سگریٹ کا ایک کش لگایا۔ ”اور ویسے بھی داڑھی کے بال قدرتی چیز ہے اور قدرتی چیزوں کو نہیں کاٹنا چاہیے“۔ اور ہم جسارت کر بیٹھے۔ “تو بھائی وہ جو جسم کے باقی کونے کھدڑوں میں بال آتے ہیں وہ بھی تو قدرتی ہوتے ہیں۔ انہیں کیوں صاف کرتے ہو؟ ” ڈاکٹر صاحب اس کے بعد ہم سے کافی عرصہ نالاں رہے۔

ایک دفعہ جامعہ اشرفیہ میں ایک مفتی صاحب پتلون اور شلوار کا مناظرہ پیش کر رہے تھے۔ ”دیکھو یہ جو شلوار قمیض ہے نا یہ لباس سنت سے قریب ہے۔ اور پتلون کے اور بھی بہت مسائل ہیں۔ مجھے ایک دفعہ ایک شخص نے پوچھا کہ وہ جب پتلون والوں کو سجدے میں جاتا دیکھتا ہے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ “ سب لوگوں نے استغفار کا ورد کیا۔ ”لو بتاؤ۔ اور اس کی وجہ بتاؤں۔ کیونکہ پتلون میں جسم کی ساخت واضح ہوتی ہے۔ “ ہمیں سوال کرنے کی عادت ہے، تو کر بیٹھے گستاخی۔ ”تو حضرت وہ جو شلوار قمیض والوں کی سی ڈی پھنس جاتی ہے اس کا کیا؟ “ اس کے بعد مولانا کے شاگردوں نے ہمیں باہر کی راہ دکھائی۔ جب ہم نے یہ قصہ اپنے دوست نبیل کو سنایا تو اس نے کہا وہ شخص جس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس کو مفتی کی نہیں حکیم کی ضرورت ہے۔

تو آپ سوچیے کہ جب ایسی شخصیات کے ہاتھ میں لوگوں کو متاثر کرنے کی طاقت آجاتی ہے تو وہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلتے ہیں۔ ہمارے فوجی اپنے جسم پر بم باندھ کر اڑا لیں تو وہ شہید اور جب کوئی اور کرے تو وہ دہشت گرد ۔ ہم نے بنگلہ دیش میں جو کچھ کیا، ہم کیوں نہیں پڑھاتے اپنے بچوں کو؟ کیوں ہمیں صرف بھارت کے کشمیر میں مظالم نظر آتے ہیں؟

دور بلوغت میں ہم نے ڈاکٹر شاید مسعود صاحب کا ایک پروگرام دیکھا “دی اینڈ آف ٹائم”۔ اس میں قیامت کی بہت ساری نشانیاں بیاں کی گئیں ہیں۔ اسے دیکھ کر ایسا لگا کہ قیامت کل آئی کہ آج آئی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہم نے طلوع آفتاب کا مشاہدہ شروع کر دیا کہ کہیں آج تو سورج مغرب سے نہیں نکل رہا۔ اور ہم انتظار کرنے لگے کہ کب امام مہدی آکر امت کو اکھٹا کریں گیں اور کب حضرت عیسیٰ کا ظہور ہو گا اور کب مسلم افواج مل کر دجال کو شکست دیں گے۔ ہاں۔ دجال۔ لیکن دجال تو آیا ہی نہیں ابھی تک۔ پھر یہ شکست کس کو دیں گے؟ یعنی ابھی دجال کا انتظار کرنا ہو گا! پھر کسی اسلامی بھائی نے مجھے بتایا کہ دجال دراصل ایک نظام ایک سسٹم کا نام ہے۔ آسان بھاشا میں بولوں تو ہمارے ہاں دجال کا دوسرا نام امریکہ ہے۔ اور پھر ہمارے ساتھ ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی کچھ کرنے کے لئے کھڑا ہو بھی جائے، یا خدانخواستہ کچھ مثبت کر گزرے تو ہم خود اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹ کر اسے شہادت کے رتبے پر فائز کرتے ہیں۔ چاہے وہ ڈاکٹر عبدالسلام ہوں یا ملالہ یوسفزئی۔ ہر کوئی سی آئی اے کا ایجنٹ یعنی دجال کا کارندہ۔

دنیا میں صرف دو ممالک ہیں جو مذہب کی بنیاد پر بنے ہیں۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان اور 14 مئی 1948 میں اسرائیل۔ پاکستان قیام کے وقت قدرتی وسائل سے مالامال تھا جبکہ اسرائیل کے پاس قیام کے وقت قدرتی وسائل کی شدید کمی تھی۔ لیکن اب دیکھیے کہ اسرائیل دنیا میں کہاں کھڑا ہے۔ اعلیٰ ٹیکنالوجی کا سامان، ہیرے کا کٹ، اور دوا سازی اسرائیل کی معروف برآمدات میں شامل ہیں۔ وہاں کے لوگوں کی اوسط عمر 82 برس سے زائد ہے۔ شرح خواندگی تقریباً %99۔ گیارہ سے زائد ایسی دہشت گرد تنظیمیں ہیں جن کا واحد مقصد اسرائیل کی تباہی ہے۔ اناج، خام تیل، خام مال اور فوجی سازوسامان اسے دنیا سے خریدنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے اعداد و شمار آپ کو معلوم ہی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دنیا چند معاملات میں اسرائیل پر منحصر ہے۔ آج کی تاریخ میں اگر چین اور اسرائیل جیسے ملک بند ہو جائیں تو دنیا شاید اپنے گھٹنوں پر آ جائے۔ ان ممالک کی بقاء دنیا کے حق میں بہت ضروری ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے بند ہونے سے شاید ہی کسی کو کوئی فرق پڑے۔ ہم دنیا کو کچھ نہیں دیتے۔ لیکن کیا کیجیئے کہ اسرائیل کی پشت پناہی پر سی آئی اے اور امریکہ یعنی دجال ہی تو ہے۔ اب چونکہ ہم نے ان دو ممالک کا موازنہ پیش کر دیا ہے تو امید ہے کہ جلد ہم بھی مفتیانِ اعظمانِ سوشل میڈیا کی جانب سے یہودیوں کے ایجنٹ اور دجال کے کارندے قرار دیے جائیں گے۔ ہائے کاش اس کام کے پیسے ملتے ہوتے۔

اب دیکھئے نا ہم نے اب تک جتنے قصے بیان کیے، نہ تو ان کی تصدیق ہو سکتی ہے نہ تردید۔ یا تو آپ من و عن ایمان لے آئیے یا جھٹلا دیجیئے۔ یا پھر صرف لطف اندوز ہوں۔ زندگی نے ہمیں پھر وہ موقع بھی دیا کہ جب ہم امریکہ میں آکر رہنا شروع ہو گئے۔ جب سے یہاں آئے ہیں دجالیت ہی ڈھونڈ رہے ہیں۔ ملی نہیں۔ ہاں ایک بات کا احساس ضرور ہوا۔ اس دجال کے نام پر جو دجالیت پاکستان میں ہوتی ہے، اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).