ملالہ، منظور پشتین اور پاکستان کا تشخص


ملالہ کے معاملے کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں مسلمانوں میں مذہبی سیاست کے حالیہ عروج کو بھی پرکھنا ہوگا۔ اس مظہر کا تجزیہ کیے بغیر ملالہ یا اس طرح دوسرے معاملات کو سمجھنا بہت سطحی ہوگا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلمانوں میں شناختی سیاست بہت بڑھی ہے۔ ایسی سیاست کا ابھرنا ناگزیر ہوجاتا ہے جب کوئی قوم یا ملّت یا اس طرح کی کوئی دوسری اکائی خود کو مظلوم محسوس کرتی ہے۔ پاکستان میں یہ سیاست ذیادہ شدّت کے ساتھ ابھاری گئی کیوں کہ ایک نئی نویلی ریاست کے قیام کو جواز دے کر اسے استحکام دینا تھا۔ چونکہ پاکستان کئی قومیتیوں کا ایک ملغوبہ تھا اس لئے یہاں ان پر ہمیشہ شک کیا گیا اور ان قومیتیوں کی نسلی و لسانی شناخت کو دبانے کے لئے مسلم شناخت پر مبنی سیاست کو پروان چڑھایا گیا جس کی بہترین مثال نظریہ پاکستان ہے۔

جب بھی جس قسم کی شناخت ابھرتی ہے تو اس کی بنیاد ہی ”دوسرا“ ہوتا ہے۔ یہ ”دوسرا“ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کے لئے یہ دوسرا ہمیشہ ہندوستان رہا۔ مگرپاکستان ہمیشہ اس ابہام میں رہا کہ ”پاکستانی قومیت“ مقدم ہے یا ”اسلامی قومیت“۔ اسی وجہ سےوقت کے ساتھ ساتھ یہ ”دوسرا“ بھی پھیلتا گیا اور اس عمل میں پھر اپنے بھی ”دوسرا“ بن گئے۔ یہی ”دوسرا“ جب کسی اپنے کی حوصلہ افزائی کرے تو اس اپنے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ملالہ نہ کسی کی کوئی سازش تھی اور نہ ہے۔ اس کو جو ملا اس کی خواہش بھی اس نے نہیں کی تھی۔ ہوتا یوں ہے کہ جب کوئی کسی جد وجہد میں لگ جاتا ہے تو اکثر نتائج سے بے پرواہ ہوکر اس میں مگن ہوجاتا ہے۔ یہ اس شخص کی شخصیت کا خاصہ ہوتا ہے کہ وہ ایسا کرے یا پھر اسے کچھ حالات ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہی کچھ ملالہ اور اس کے والد نے بھی کیا۔ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اگے کیا ہونے والا ہے۔ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ملالہ کو گولی لگے گی۔ وہ اپنے کام میں جُت گئے اور حالات بدلتے گئے۔

ملالہ نے پہلی آواز سن 2008 ءسے پہلے اٹھائی۔ اس کے والد اس سے قبل ایسا کر رہے تھے۔ جب 2009 ء میں سوات میں امن معاہدہ کیا گیا تو اس کی بڑی حامی ملالہ ہی تھی جبکہ مجھ سمیت کئی لوگ اس معاہدہ کو مذاق سمجھتے تھے۔ اس معاہدے سے پہلے جب سوات کے حالات کا پتہ پاکستان میں لوگوں کو چلا تو انہوں نے احتجاج شروع کیا۔ یہ وہی دن تھے جب یہاں اعلانات کیے گئے تھے کہ 15 جنوری 2009 ء کے بعد سوات میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی جائے گی۔ یہ خبر جب دنیا میں پھیلی تو بہت واویلا ہوا۔ ہماری اپنی روایات لیکن دنیا میں ترقی یافتہ قومیں اس صدی میں ایسی کسی حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اس سے گویا ان کو ایک شاک سا ہو گیا کہ پاکستان کس دور میں رہ رہا ہے۔

ایسے میں میڈیا کی نظر بھی سوات پر پڑی، اب میڈیا کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ ایک مرد اگر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پر بات کرے تو یہ بات اتنا اثر نہیں رکھتی لیکن اگر طاقتور ایک تنظیم ایسا کرے تو یہ بڑی خبر ہے۔ اس لئے میڈیا کو ایسی آوازیں چاہے تھیں اور اگر ایسی کوئی آواز کسی کمسن لڑکی کی ہو تو سونے پہ سہاگہ کیوں کہ اس وقت سوات میں لڑکیاں ہی تعلیم کے حوالے سے براہ راست ٹارگٹ تھیں۔

ملالہ چونکہ امن معاہدے کی حامی تھی لہذا اس وقت طالبان بھی اس کے مخالف نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ملالہ نے ایک پاکستانی چینل کو انٹرویو طالبان کے ساتھ کھڑے ہوکر ہی دیا تھا اور برملا امن معاہدے کی حمایت کی تھی اور اپنے لئے تعلیم مانگی تھی۔ اس کے بعد ملالہ کی شہرت پاکستان میں اور غیر ملکی میڈیا میں ہونے لگی۔ بی بی سی نے اسی لئے ملالہ سے رابطہ کیا اور اس کو کو ڈائری لکھنے پر راضی کیا۔ یاد رہے وہ یہ سب کچھ فون پر لکھواتی تھی۔ اس کے معاہدہ ختم ہوا اور حکومت نے آپریشن کیا۔ ملالہ اور اس کے والد ائی ڈی پی والے مرحلے سے واپس اگئے اور اپنا کام جاری رکھا۔

بچّوں کے ایک عالمی ایوارڈ کے لئے نامزدگی کے بعد ملالہ کو حکومت پاکستان نے بھی انعامات دینے شروع کیے۔ پاکستانی میڈیا پر اس کے انٹرویو ہونے لگے۔ وہ مشہور ہوتی گئی اور سوات سے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ایک آواز بن گئی۔ حالات کچھ نارمل ہورہے تھے اور ملالہ اور اس کے والد اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے ایسے میں اکتوبر 2012 ء کواس کے سر میں گولی ماردی گئی۔ اس کی شہرت کی وجہ سے اسے حکومت پاکستان نے اپنے خرچ پر علاج کے لئے لندن بھیجا۔

یہ خبر پوری دنیا میں بڑی خبر بن گئی۔ یعنی ملالہ کو اس کے تعلیم کے لئے مارا گیا اور یوں دنیا ملالہ کی طرف متوجہ ہوگئی۔ وہ تعلیم کے لئے دنیا میں پہچان بن گئی تھی اس لئے اس نے پوری دنای میں تعلیم خاص کر لڑکیوں کی تعلیم کے لئے آواز اٹھانی شروع کی۔ مخلتف فورمز پر اپنی کمسنی کے باوجود اچھی تقریریں کیں۔ اسی وجہ سے اسے مزاحمت کی علامت سمجھا گیا اور بعد میں جاکر لوگوں نے اسے نوبل انعام کے لئے نامزد کیا اور انہوں نے ایک دوسرے شخص کے ساتھ یہ انعام جیتا۔

جس طرح پہلے بتایا گیا کہ کئی لوگ ملالہ کو ایجنٹ یا پاکستان مخالف اس لئے سمجھ رہے ہیں کہ ملالہ کی تعریف وہ ”دوسرا“ کر رہا ہے جسے ہمارے ہاں نظریہ پاکستان اور پوری دنیا میں مسلم شناخت پر مبنی سیاست نے بنایا ہے۔ اب کو شاید یاد ہوگا کہ جب ملالہ کو گولی ماری گئی تو پورا پاکستان اس کا حامی تھا اور اسے مظلوم سمجھتا تھا۔ مگر وہ بچ گئی اور اسے اس ”دوسرے“ نے ذیادہ پذیرائی دی لہذا وہ اپنوں میں بری ہوگئی۔ (البتہ اگر وہ خدا ناخواستہ وہ فوت ہوئی ہوتی تو سب کی ہیرو ہوتی جس طرح اب بے نظیر بن گئی ہیں ورنہ اپنی زندگی میں ان کو بھی کیا کیا نہیں کہا گیا)۔

اب گہری نظر سے عاری ماضی میں رہنے والے سیکولرز اور مذہبی جنونی ملالہ کو اپنی لڑائی کے لئے ایک علامت بنا رہے ہیں تو اس میں ملالہ کا کیا قصور۔ سوشل میڈیا پر جو مخالف پروپیگنڈے کے لئے فوٹو شاپ کر کے تصاویر دی جا رہی ہیں۔ ہالبروک سے ملنا کوئی عیب نہیں کہ اس سے پاکستان کے کئی لوگ ملتے رہے ہیں جن میں علماء بھی ہوتے تھے کہ وہ اس وقت پاکستان افغانستان کے لئے امریکی خصوصی وزیر تھا۔ یہاں بیانیہ ایک خاص حلقے سے نکلتا ہے لہذا ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اب مثال منظور پشتین کی لے لیں۔ ایک بہت بڑا حلقہ بلکہ پورا پاکستان اس کا مخالف ہے اور اس کو بھی ایجنٹ سمجھ رہا ہے۔ حالانکہ منظور پشتین ایک سادہ خو نوجوان پاکستانی ہے جو صرف ریاستی قوتوں کی زیادتیوں کا ازالہ اور بندش چاہتا ہے لیکن بہت سوں کے لئے وہ بھی غدّار اور ایجنٹ ہے۔ ہم ایسے نظریات پر اس لئے بھی یقین کر لیتے ہیں کہ اگلا شخص جو کر رہا ہوتا ہے ہم اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پشتین جو آواز اٹھا رہا ہے کئی لوگ اس کا سوچ کر بھی کانپ جاتے ہیں۔ پشتین پیچھے ہٹ نہیں سکتا کہ اس نے اب یہ جد و جہد شروع کی ہے اور کسی بھی جد و جہد شروع کرنے کے بعد بڑی فکر اسے جاری رکھنے کی ہوتی ہے۔ کل اگر پشتین یہ جنگ مکمل طور پر جیت جاتا ہے اور لوگ اسے منتخب کرتے ہیں تو اسے بھی اسی مخالفت کا سامنا ہوگا۔

بین الاقوامی میڈیا پشتین پر رپورٹس لکھ رہا ہے کیوں کہ یہ اپنی صورت میں ایک انوکھی بات ہے پاکستان میں۔ اسی وجہ سے ایک بڑی اکثریت اسے عالمی قوتوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے۔ یہی کچھ ملالہ کے ساتھ بھی ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ طالبان اور ریاستی خفیہ قوتیں الگ الگ وجود رکھتی ہیں۔ ریاستی قوتیں ان میں سے کچھ کو استعمال کر رہی ہیں اور کچھ کو مار رہی ہیں۔ مسلم شدّت پسندی اسی مسلم شناختی سیاست کی پیداوار ہے اور دنیا و پاکستان کی ریاستی قوتوں کے ہاتھوں میں ایک اچھا ہتھیار بنے ہوئے ہیں مگر اپنی ذات میں یہ جدیدیت سے منسلک سیاست کی پیداوار ہے۔ یہ کسی ایک لیڈر کے تحت متحد نہیں اور نہ ہی کوئی منظم تحریک ہے اس لئے ہر کسی کے ہاتھوں میں استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ اب عالمی معیشیت بھی جڑی ہوئی ہے۔ یہ بھی ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ غیر مسلم قوتوں نے اس شدّت پسندی کو اتنا نہیں پروان چڑھایا جتنا اسلام کے اندر دو بڑے مذہبی دھاروں نے اپنے ملکی اور تہذیبی سیاست کے لئے اسے ابھارا ہے۔ ان دھڑوں کو دو بڑے مسلم ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے جو اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہمیں لڑا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).