ڈاکٹر عطاء الرحمان بھی شیخ رشید کے ہم خیال نکلے


ڈاکٹر عطاء الرحمان ملک کی نامور شخصیت ہیں ان کے کئی تعارف ہیں، وہ پی ایچ ڈی اسکالر، مایہ ناز سائنسدان، ماہر فزکس اور جانے پہچانے ماہر تعلیم ہیں، انہوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ایک اعلی مرتبہ اورمعتبر ادارہ بنانے کے لیے جو کوششیں کیں وہ قابل تعریف ہیں، یہ بات الگ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس ادارے کو مکمل اور با اعتماد وفاقی تعلیمی کمیشن بنانے میں ناکام رہے، ایسا کمیشن جس میں ملک کے دیگر صوبوں کی پوری نمائندگی ہویا ایسا کمیشن جو صوبوں کے تمام اہل طلبہ و امیدواراں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یکساں مواقع فراہم کرے، اس کمیشن کے اعداد شمار اب بھی بتاتے ہیں کہ کن کرم فرماؤں کے نور نظر کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں، کون ہی جو آج بھی رہ جاتا ہے۔

سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے کئی شکایات ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ جب بھی کسی چھوٹے صوبے، ان کی محرومیوں یا ان کے حقوق کی بات کی جائے تو پھر یہ لیکچر سننے کو ملتے ہیں کہ صوبوں کی نہیں ملک کی بات کرنے چاہیے، ہم سب کو پاکستانی بن کر سوچنا چاہیے، پتا نہیں کس نے یہ کہہ دیا ہے کہ صوبوں کی بات کرنے سے ملک کمزور ہوتا ہے، صوبوں نے مل کرہی یہ ملک بنایا ہے، اور درست بیانیہ بھی یہ ہی ہے کہ صوبوں کی مضبوطی سے وطن عزیز مزید مستحکم ہوگا۔ صوبوں کی حقوق مانگنے پر حب الوطنی پر شک کے دائرے بڑھا دیے جاتے ہیںِ یا پھر غداری کے سرٹفکیٹ بانٹے جاتے ہیں، اب اس قسم کا رویہ ترک کرنے کا وقت آگیا ہے۔

قصہ مختصر ہم بات کر رہے تھے ڈاکٹر عطاءالرحمان صاحب کی جو ایک سائنسدان، ایک ٹیکنوکریٹ اور سب کچھ ہیں لیکن سیاستدان ہرگز نہیں، لیکن اب ان کی سیاست سے دلچپسی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے، سیاسی جماعت بنانا ان کا بنیادی حق ہے، واقعی بھی انہیں سیاست میں آنے کا اتنا شوق ہے تو ان کو اپنی سیاسی جماعت بنانے میں دیر نہیں کرنی چاھیے، اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان، مرزا اسلم بیگ، خادم حسین رضوی اور جماعت دعویٰ کے دھنی حافظ سعید اپنی اپنی سیاسی جماعتیں بنا سکتے ہیں تو ڈاکٹر عطا رحمان کیوں نہیں، جب تک وہ سیاستدان بن جائیں ابھی تک ان کے تعارف میں سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں، لیکن ان کے مضامین میں سیاست اچھل اچھل کر باہر آتی دکھائی دیتی ہے، وہ ان تجزیہ نگاروں جیسے ہیں جو شام ہوتے ہوئے دوسرے اداروں کی خوشی اور خوشنودی کی خاطر پورے پارلیمینٹِ، سیاسی نظام، سیاست، سیاستدانوں اور جمہوریت پر تیروں کی بارش کرکے کپڑا جھاڑ کر چلے جاتے ہیں، ڈاکٹر عطاءالرحمان صاحب یہ کام اپنے مضامین سے لیتے ہیں، میری نظر سے ان کا کوئی چوتھا پانچواں مضمون گزرا ہے جس میں ان کا ایک ہی بات پر زور ہے کہ اس ملک کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف صدارتی نظام میں ہی ہے باقی پورا نظام کسی کام کا نہیں اور موجودہ نظام کبھی بھی نتائج نہیں دے سکتا، ان کا بس چلے تو وہ چند دنوں میں اپنا پسندیدہ نظام مسلط کرنے میں بھی دیر نہ کریں۔

روزنامہ جنگ کے حالیہ مضمون میں بھی انہوں نے اپنی پرانی بات کو دہراتے ہوئے فرمایا ہے کہ ملک کے سب مسائل صدارتی نظام کی چٹکی بھر سیندور سے ختم ہو سکتے ہیں، بات محض صدارتی نظام کی ہو تو بھی ٹھیک لیکن اپنے اس مضمون میں وہ تمام غیر آئینی راستے دکھائے گئے ہیں، جن پر عمل پیرا ہونے کے بعد کوئی بھی شخص اس مقدمے سے نہیں بچ سکتا جو ان دنوں سابقہ فوجی آمر پرویز مشرف بھگت رہے ہیں۔ موجودہ آئین پارلیمانی طرز حکومت کی بات کرتا ہے، اس میں صدارتی نظام کی گنجائش کہاں ہے؟ بلکل اسی طرح ٹیکنوکریٹ حکومت کا تصور آئین سے متصادم ہے، اگر سپریم کورٹ کے ذریعے بھی ایسا کوئی فیصلہ صادر فرمایا جاتا ہے تو بھی غیر آئینی ہوگا، جو بات سپریم کورٹ خود مان چکی ہے۔

ان سب باتوں سے بڑھ کر پرویز مشرف دور کے مملکتی وزیر کا اسٹیٹس پانے والے محترم عطا الرحمان سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کونسل آف ایلڈرز کی بات کر رہے ہیں، اب بتائے اس کا تصور کہاں سے لائے ہیں؟ ایران والی سپریم کونسل یا پھر پرویز مشرف والی نیشنل سیکیورٹی کونسل؟ ڈاکٹر صاحب نے اس کے خدوخال بھی بیان فرمایے ہیں، سپریم کورٹ کی نامزد ایک کونسل آف ایلڈرز جس میں معزز جج اور شھری شامل ہوں، یہ نظریہ کہاں سے آیا، آئین میں اس کی گنجائش کہاں سے نکلی گئی ہے؟ اس سے بہتر مطالبہ یہ نہیں کہ آئین پر اس کے روح کے مطابق عمل کیا جائے، پارلیمینٹ کو پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کا خود مختار ادارہ ہونا چاہییے، اس سے اچھا مطالبہ یہ نہیں کہ آئین نے جس ادارے کو جو کام اور اختیار دیا ہے وہ ادارہ اس سے تجاوز نہ کرے، اداروں کو اپنے اختیارات کی تشریح خود کرنے کے بجاء وہ ہی کچھ کرنا چاہیے جو آئین کہتا ہے۔ وہ کرنے کے بجائے وہی ہے کرنا چاہیے جو آئین کہہ چکا ہے، سپریم کورٹ کونسل آف ایلڈرز کہاں سے جوڑے؟ اس کا مطلب کہ سپریم کورٹ وہ کام کرے جس کی اجازت آئین نہیں دیتا!

پھر یہ کونسی صدارتی نظام حکومت کی اعلیٰ شان جمہوریت ہے کہ صدر کو اختیارات ہوں کہ وہ اپنی کابینہ میں پارلیمنٹ سے نہیں بلکہ باہر سے لوگوں کو شامل کرے، یعنی صدر صرف کل مختارہی نہ ہو، بلکہ ون مین شو ہو، ڈاکٹر صاحب ذرا بتا دیں کی ایسے کتنے ون مین شو آئے، اب تو ووٹ کے تقدس کی بات کرنے والے خود ان ون مین شوز کی کاپی کرنے لگے ہیں۔ اگر ڈاکٹر صاحب کے مشورے پر عمل کر بھی لیا گیا تو پھر پارلیمنٹ، جمہوریت اور تو اور الیکشن کمیشن کو بھی گھر ہی بھیجنا پڑے گا، بقول ان کے کہ انتخابات میں جو امیدوار میدان میں اتریں ان کے کاغذات نامزدگی پڑتال بھی سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کونسل آف ایلڈرز کرے۔ اسی طرح معززین کی کمیٹی ہی ایف بی آر، ایف آئی اے، پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز اور باقی تمام اداروں میں بھرتیاں کرے، ایسے میں عملی طور حکومت اس معززین کی کمیٹی کی ہوگی۔

آخر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے دل کی بات اس طرح کی ہے کہ ان تمام کاموں کو سرانجام دینے کے لیے ایک فنی ماہرین پر مشتمل عبوری حکومت ہو جو آئین میں ترامیم کرے اور اس سارے نظام کو ےتبدیل کر کے رکھ دے۔ آئین میں ترامیم کسی بھی حکومت کا نہیں پارلیمنٹ کا کام ہوتا ہے، کسی قسم کی نگران یا ٹیکنوکریٹ حکومت آئین کیا قوانین کے ایک نکتہ میں بھی ردوبدل کا اختیار نہیں رکھتی، اب وہ دن بھی نہیں کہ سپریم کورٹ کسی آمر کو آئین کا حلیہ بگاڑںے کی کھلی چھٹی دیدے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کا ایسا کوئی بھی حکم آئین توڑنے کے مترادف ہوگا، اورآرٹیکل چھ سے پھر کوئی بچ نہیں پائے گا۔

بیشک ڈاکٹر عطا الرحمان سے اظہار رائے کی آزادی کا حق کوئی بھی نہیں چھین سکتا، لیکن ایسی مثالیں یا سبق دینے والے اکیلے ڈاکٹر عطاءالرحمان ہی نہیں، اور بھی کئی لوگ ہیں جن کے ایسے مشوروں پر عمل سے یہ ملک ایک تجربےگاہ بن گیا ہے، اور وہ تجربے اب بھی جاری ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے تازہ مضمون میں جن تین اقسام کی جمہوریتوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے انہیں سب سے بری، شکستہ خوردہ، بدنام، ناکام اور خطرناک قسم کی جمہوریت ہمارے ملک کی لگی ہے، ایسے بھی کئی لوگ ہیں جنہیں پاکستان کا یہ پارلیمانی نظام اور جمہوری حکومتیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں، اور سچی بات یہ ہے کہ یہاں جمہوریت رہی بھی تو نہیں، سیاستدانن کو حکومت دے کر پالیسی سازی، فیصلہ سازی، اختیارات کا طوطا کسی غیرسیاسی اور غیر جمہوری بیٹھک میں بند کر لیا جاتا ہے۔

آمریتی باقیات سیاسی حکومتوں کو بدنام کرنے میں لگ جاتی ہے اور کرسی کو پھر چار دن کی چاندنی کہنے والے جمہوریت کے چئمپینز خود کو بڑی دیواروں میں بند کرکے جمہوریت کے نام پر آمریت بپا کرکے رکھتے ہیں، بدعنوانیاں، بداعمالیاں، بدانتظامیاں سب اپنی جگہ لیکن بات پھر بھی وہیں پر رک جاتی ہے کہ ملک میں نہ صدارتی نظام، نہ ٹیکنوکریٹ اور نہ ہی کونسل آف ایلڈرز کی گنجائش ہے، آئین بات کرتا ہے تو پارلیمینٹ اور جمہوریت کی بات کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ملک کی پارلیمانی جمھہوریت کی خامیاں تو نظر آتی ہیں، لیکن ان کی نظر دنیا آئیڈیل برطانوی جمہوریت اور دنیا کے سب سے بڑے بھارتی جمہوری نظام پر نہیں پڑی۔ مانتے ہیں کہ ہمارے ہاں جمہوریت کافی کچھ نہیں دی پاتی لیکن بھتر جمہوریت کے لئے اور جمہوریت، جمہوریت کا تسلسل، مزید اور مزید جمہوریت کی ضرورت ہے۔

صدارتی نظام کی راہ دیکھنے والے اکیلے ڈاکٹر صاحب نہیں، یہ خواہش اور خواب سجائے ان کے ان گنت ساتھی اور سجن ہیں، جن سب کو صدارتی نظام کی شکل میں ہرابھرا ملک، ترقی ہی ترقی اور تمام مسائل کا حل نظر آتا ہے، لیکن اب تک ملک کو ماضی کے صدور اور ان کے نظام نے کیا دیا ہے، ذرا اس پر بھی دو جملے بیان کر ہی دیے جاتے۔ صدارتی نظام کے گن گانے سے پہلے ڈاکٹر صاحب کو جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی صدارتی حکومتوں کا بھی ذکر کرنا چاہیے پھر یہ بھی بیان فرمانا چاہیے کہ ان کی حکومتوں کے بدلے وطن عزیز کے بدن میں جو کانٹے چبھے ان سے لہو اب بھی ٹپکتا دکھائی دے رہا ہے، وہ سب کے سب کل وقتی اور کل مختار صدور رہے ہیں، ان کے ادوار میں پارلیمنٹ بےوقعت، بے اختیار اور برائے نام تھی، ان محترم صدور نے ملک کو جو زخم دیے وہ آج بھی ہرے ہیں۔

صدارتی نظام کا جواز دینے کے لیے قائد پاکستان کی ڈائری کا حوالہ ہی کافی نہیں ان کی جمہوریت کے بارے میں باقی تقاریر تحاریر اور خطابات کی بھی بات ہونی چاہیے۔ یہ پتا نہیں کہاں سے ڈائری نکلی ہے، ایسی کوئی نہ کوئی قائد کے نام سے ہر دور کے صدر نے ہی منسوب کرکے اپنے ہی اقتدار کو دوام بخشا۔ صدارتی نظام، کابینہ کی پارلیمنٹ سے باہر کی تشکیل، سارے کام ایلڈرز کونسل کے سپرد کرنے کے بعد مجھے عطاءالرحمان اور شیخ رشید ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں وہ بھی تو جوڈیشل مارشل لا کا مطالبہ کرکے سپریم کورٹ کی حکومت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar