ہمارے چیف جسٹس صاحب کو واپس کیا جائے


اعلان بر ائے عام وخاص ۔ اپنا بابا رحما لے جائیں اور ہمارے چیف جسٹس صاحب واپس کر دیں۔ ہر کس و نا کس کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ سلسلہ ِ شہابیہ کا اشفاق احمدیہ بابا رحما، ریاستِ پاکستان کے اہم ترین عہدے پر صوفی بھگتی سے سرشار فیصلے کم اور درخواستیں زیادہ کر رہا ہے۔ بابا رحما سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سے گدلا، گندہ پانی پینے کا مقابلہ کر رہا ہے۔ پنجاب میں، بابا رحما ہسپتال، میڈیکل کالج اور فیس کے معاملات کے بعد اب اخباری تراشوں پر ایکشن لے رہا ہے۔ ڈی جی ایل ڈی اے کے بیان پر اسحق ڈار کو جرمانہ کیا جا رہا ہے۔ فرض کیا جناب اسحق ڈار  ڈی جی ایل ڈی اے سے فرمائش کرتے کہ میرے گھر کے دروازے کے بائیں جانب افریقی ببر شیر اور دائیں جانب بنگال ٹائیگر پہرہ دیں۔ پھر بھی جناب ڈی جی نے یہی فرمانا تھا کہ میں تنخواہ تو ریاستِ پاکستان سے لیتا ہوں لیکن اصل میں نوکر آپ کا ہوں۔ ڈی جی کوئی چھوٹا عہدہ نہیں ہوتا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم اپنے منصب پر چھوٹا نہیں ہوتا۔  جو بھی فرائضِ منصبی سے تجاوز یا تغافل کا مظاہرہ کرے تو اُسے اپنے عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار بھی رہنا چاہیے۔ تاہم صرف بابا رحما اس بیان پر اعتبار کر کے ڈار صاحب کو جرمانہ کر سکتا ہے۔ اگر اس کی بجائے ہمارے یعنی پاکستان کے چیف جسٹس ہوتے تو ڈی جی ایل ڈی اے سے پہلی تنخواہ سے آج تک کے پیسے دھرا لیتے۔ پھر جرمانے کے ساتھ اُسے فرائض ادا نہ کرنے پر جیل بھیج دیتے۔ اور ذہن میں رکھتے کہ ڈار صاحب اس الزام سے انکار بھی کر سکتے ہیں، جو وہ کر چکے ہیں۔ (اخباری تراشے اور ہر قسم کے ٹی وی چینل کچھ مدت پہلے اس خوش خبری سے بھرے ہوئے تھے کہ سمندر میں ایک لاوارث لانچ پائی گئی ہے جس میں پانچ ارب ڈالر ہیں۔ چیف جسٹس اور بابارحما دونوں سے گزارش ہے کہ مل کر زور لگائیں اور یہ ڈالر ریاست کے خزانے میں جمع کروا دئیے جاویں۔)

سندھ کی تمام انتظامی مشینری مع وزیرِ اعلیٰ کو تھر میں مسلسل اموات اور تمام صوبے میں صحت اور پانی کی نایابی کی بنا پر عدالت میں طلب کر کے وضاحت اور جواب مانگا جائے۔ کے پی کے میں مشال خان کے قتل کرنے والوں کو، ڈیرہ اسماعیل خان میں صریح بدمعاشی اور ریاست کو للکارنے والوں کو، ایک ارب تیس کروڑ درخت لگانے والوں کو، دن کی روشنی میں طلب کیا جائے۔ جبکہ  پنجاب پر مہربانی تو پہلے سے جاری ہے اور بلوچستان بلوچستان ہے۔

چیف جسٹس اگر یہ سمجھتے ہیں کہ عدالتِ عالیہ میں فیصلوں کی شرح قابلِ قبول حد سے کم ہے تو وہ ایک فرمان جاری کر سکتے ہیں کہ روزانہ کی بُنیاد پر کم از کم کتنے فیصلے ہونا لازمی ہے۔ ظاہر ہے اس مقصد کے لیے ایک واضح طریقہ کار بھی ضروری ہے۔ جس میں غالباً تاریخ پر تاریخ والی مصیبت کا خاتمہ پہلا اور اہم ترین قدم ہو گا۔ اس سے بھی اہم صرف ایک امر ہو سکتا ہے۔ خود عدالتِ عظمیٰ میں پڑے مقدمات کا فیصلہ۔۔۔۔ یہ مثال بہت دور تک جائے گی۔ اسے رہنے دیتے ہیں۔

ایک ظلم نچلی عدالتوں میں جاری و ساری ہے اور سب کے علم میں ہے۔ کوئی بھی جج روزانہ ڈیڑھ، دو سو مقدموں میں فریقین کو حاضر ہونے کا حکم جاری کر دیتا ہے۔ کوئی غیر انسانی مہا شکتی بھی دن میں آٹھ دس سے زیادہ مقدمات نہیں سُن سکتی۔ ظاہرہے موکلان سے پیسے نچوڑنے کے علاوہ اس حرکت کا کوئی جواز نہیں۔

کئی انتظامی اور انصافی امور ایسے ہیں جو چیف جسٹس کی توجہ کے جانے کب سے منتظر ہیں۔ لیکن ہمیں ڈر بابا رحما سے لگ رہا ہے۔ جو آفاقی سطح پر حضرت عمر (رض) جیسے کسی عظیم رہنما کی راہ تک رہے ہیں۔

جنابِ من، حضرت عمر (رض) تاریخ میں ایک ہی تھے اور قرائن بتاتے ہیں کہ ان کا یہ اعزاز برقرار رہے گا۔ لیکن ایسے کرشمہ ساز، معجزاتی لیڈروں کی بیسویں صدی میں کوئی کمی نہیں رہی۔ جو ملک کی تقدیر بدلنے کے وعدے پر اقتدار میں آئے۔ میسولینی، ہٹلر، عظیم باپ سٹالن اور ان سب کے بھی باوا، جناب امام خمینی : سمیت سٹالن کے، ہر ملک و قوم کی زبردست تباہی ان حیرت انگیز تاریخ ساز شخصیات کی دین تھی۔ ایران تو اب بھی تباہی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر مودی اور اردگان اس پُرانے ماڈل کے نئے ایڈیشن معلوم ہوتے ہیں۔ خدا ہر ملک اور ساری دُنیا کو ایسی آفات سے بچائے۔

 افلاطون نے فلسفہ پیش کیا تھا کہ بہترین افراد ہی حکومت کرنے کے اہل ہیں، کارل پوپر نے اس نظریے کو بخوبی رد کر دیا ہے۔ اب ہم کرشماتی ہیرو نہیں بلکہ ایسا نظام ڈھونڈتے ہیں جس میں بُرے سے بُرے حاکم بھی معاشرے کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ پاکستان کے چیف جسٹس کے لیے قدرت کی طرف سے سُنہرا موقع ہے کہ پاکستان کو ایسی راہ پر ڈال دیں جس میں نااہل، بدنیت اور بدمعاش ترین حکمران بھی کم سے کم نقصان پہنچا سکیں۔ اگر عقل دشمن سلسلہِ شہابیہ کے اشفاقی بابا رحما سے ہماری اور محترم چیف جسٹس صاحب کی جان چھوٹ سکے تو  میڈیا کے اس دور میں جناب ثاقب نثارایک نئے بہتر پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے سب سے پہلے بابا رحما صاحب سےدرخواست کرنا ہو گی کہ ہمارے محترم چیف جسٹس صاحب کو دوبارہ اپنے منصب پر بحال کریں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).