آئی لو یو!


“دیکھ رخسی اپنی مس کو یاد سے دے دینا اور ہاں نہ تو تُو نے خود کھول کر دیکھنا ہے اور نہ اپنی سڑی ہوئی سہیلی رمشہ کو ہی کھول کر دکھانا ہے۔”

بھیا کے احکامات سن کر اس نے خط جھٹ سے اپنی گندی کاپی میں دبایا اور سکول کیلئے روانہ ہوئی۔

مِس زہرہ کی کلاس شروع ہونے ہی والی تھی، مس زہرہ وہی کرخت سی پرائمری کی ٹیچر۔ وہ جیسے ہی اپنے سیاہ گاؤن میں نمودار ہوتیں، پرائمری کیا دسویں کے لمبوتڑے بھی مس زہرہ کو اسمبلی میں دور سے دیکھتے ہی صمن بکمن کا ورد شروع کر دیتے تھے۔ ایسے میں پانچویں کی نحیف اور سہمی سی رخسی آخر کیسے اپنے دلارے بھیا کا خط مس زہرہ کے حضور پیش کرنے کی جسارت کرتی، مس زہرہ نے تو پکا اسے دو چار جھاڑ کر کے اس کے بھیا، جو اسی سکول میں پچھلے تین سال سے دسویں جماعت میں ہی تھے ، کو بے عزت کرکے سکول سے بھی نکال دینا ہے اور ابّا نے الگ حشر کر دینا ہے، ارے وہ چھٹی والی تایا کی بیٹی نے تومذاق اڑا اڑا کر زندگی کھا جانی ہے۔ بُوا ۔ ۔

“ وعلیکم السلام “ مس زہرہ کی آواز سنتے ہی اس کے خیالوں کی بے ترتیب لڑی ٹوٹی اور اسے ٹھنڈے پسینے آنا شروع ہوگئے۔ جیسے مس نے اس کی چوری پکڑ لی ہو۔ وہ روہانسی ہو گئی کہ اتنے میں مس کاپیاں چیک کرتے کرتے اسکی ڈیسک تک آ گئیں ۔

“رخسی بچے جو چیز جس کی ہو اسے دے دیتے ہیں نا۔ آپ نے کہاں رکھ دی میری امانت؟”

ہائے رخسی کے چہرے پہ بالکل ویسا اطمینان پھیل گیا جیسے کہ تین لڑکیاں جننے کا گناہ کرنے کے بعد چوتھی بار لڑکا جن کہ ایک ادھ موئی ماں کے چہرے پہ پھیلتا ہے۔ مس زہرہ جیسی سخت مزاج عورت کو آج رخسی نے پہلی بار مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ اب تو یہ روز ہونے لگا، ادھر بھیا خط بھیجتے ادھر مس صاحبہ جوابی خط بھجواتیں۔ ایک دن یوں بھی ہوا کہ رخسی نے مارے تجسس کے دونوں کے خطوط جا کرکے سکول کے اس بدبودار واش روم میں پڑھے اور مجال ہے جو اسے سرخ مارکر سے لکھے ہوئے موئی انگریزی کے “آئی لو یو” کے علاوہ اور کچھ سمجھ آیا ہو ۔

لڑکی کب بچی سے جوان ہوجائے ایک معمہ ہی ہے۔ شائد لڑکی پیدا ہی بس لڑکی ہوتی ہے۔ بچپن صرف بیٹوں ہی کو نصیب ہوتا ہے شائد ۔ خیر سے رخسی جوان ہو گئی۔ مس زہرہ جانے اب کہاں ہوتی ہوں گی، وہ اکثر سوچا کرتی۔ بھیا تو ماں صدقے یونیورسٹی پہنچ گئے تھے، دسویں میں آکر نا اب پڑھائی کو بڑا لائٹ لینے لگی تھی اور کیوں نا دل اچاٹ ہوتا پڑھائی سے ۔ جوانی کے ساتھ ساتھ موبائیل چیز ہی ایسی تھی۔ موبائیل کی سانپ والی گیم سے تو اسے لڈو سے بھی گہرا عشق ہو چلا تھا۔اور فرورڈ میسجز کا چسکا تو رخسی کیا ہر کسی کو لگا ہوا تھا۔

یہ چاند سا چہرا اور ریشمی بدن

تیرے ہاتھ کی مہندی اور ستارہ مانگ

اک شام میرے نام کر دے

جینا میرا اب آسان کر دے

“ہیں۔ یہ کس کا نمبر ہے ؟” رخسی نے ذہن پہ زور ڈالا پھر رانگ نمبر سمجھ کر اپنی سانپ والی گیم کھیلنے لگی، آج تو اس نے بھیا، رمشا ، بلو سب ہی سے زیادہ لمبا سانپ بنانے کی ٹھان رکھی تھی۔ ہیں یہ کیا۔ پھر سے ایک میسج:

لب شراب سے

چہرہ گلاب ہے

اک نظر سے زندہ کر دے

بس اتنا سا کرم کر دے

حسین ہونا آپ کو مجھے یوں تڑپانے کا حق نہیں دیتا۔

جان! پلیز رپلائی!

کچی عمر کی یہی کمزوری ہوتی ہے ۔ فلم میں ڈائیلاگ بھلے ہی بولا کاجل کو جائے مگر شاہ رخ خان کی بانہوں میں خود جا بیٹھتی ہے نادان لڑکی۔ آج تیسرا دن تھا کہ اسے ان پیار بھرے میسجز سے پیار ہونے لگا تھا۔ جبھی تو بات آپ کون سے آئی مِس یو تک جا پہنچی ۔نہا دھو کہ رخسی جیسے ہی فون کے پاس آئی ، محبوب نے اتنا انتظار کرانے کے پر خوب پیار بھرے گلے شکوے کئے جبھی رخسی کو اپنے بھیا والا سرخ مارکر سے لکھا آئی لو یو یاد آیا اور اس نے جھٹ سے فارورڈ کر دیا ۔ موبائیل سے ابھی چیٹ ہسٹری اڑانے ہی لگی تھی کہ اتنے میں اس زور سے بھیا نے اسکے ہاتھ سے موبائیل دبوچا کہ اسکی انگلیاں چھل گئیں۔ دلارے بھیا نے اسے زمین پہ پٹخ دیا۔

“رنڈی کہیں کی۔ منّہ کالا کرنے چلی ہے کلموہی۔”

بھیا نے اسے موٹی موٹی گندی گالیاں دینے پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ لاتوں اور گھونسوں کی بارش سے صدیوں سے اپنے اندر پلنے والی نام نہاد مردانگی اور غیرت کی خوب تسکین کی۔

لاتوں اور گھونسوں کی نوازش کب ختم ہوئی رخسی کو پھر یاد ہی نہ رہا ۔ اس نے شادی کا جوڑا جو پہنا تو اسے اپنے جسم پہ نیل نظر آئے۔ ہاتھ چھلے ہوئے ، بدن سوجھا ہوا۔ کہیں وہ گھر سے بھاگ ہی نہ جائے نا اسی لئے بھیا نے عزت بچانے کی خاطر بڈھے حق نواز کے ہاں رخسی کا ہاتھ دے دیا اور حق نواز بھلا آدمی تھا جبھی تو ایک بدچلن لڑکی قبول کرنے کے ساتھ ساتھ نکڑ والی دکان بھی بھیا کے نام کر دی۔

رخسی تیار ہوئی۔ سنگھار کیا ۔ دلہن بنی ۔ بارات آئی اور روتے بلکتے میاں کے پلنگ تک آ پہنچی۔ گھونگھٹ اٹھنے کے انتظار میں بیٹھی اسے ریاضی کا ٹسٹ یاد آیا چلو شادی نے ریاضی کے ٹسٹ سے تو اسکی جان چھڑائی نا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کوئی اندر داخل ہوا،پلنگ کی سلوٹیں بڑھیں، اس کا دل اک اجنبی کو قریب پا کر مارے ڈر کے زور زور سے دھڑکنے لگا، مانو دل سینے سے نکل ہی آئے گا ایسے میں اسے اماں کی گود کے علاوہ چھپنے کی کوئی نہ سوجھی۔

گھونگھٹ اٹھا ، حق نواز نے مسکرا کر اسے اپنی بانہوں میں بھرا، وہ کسمسائی ، پیچھنے ہٹنے کو ہی تھی کہ سامنے دیوار پہ اسے سرخ رنگ کا “آئی لو یو” نظر آیا ،شاید بھیا نے لکھوایا ہو گا۔ جیسے مس زہرہ کو لکھا تھا، پر اس بار سرخ مارکر کی بجائے بہنا کے خون سے لکھوایا تھا جبھی تو اس قدر شوخ تھا، بدچلن کی ساری شوخی نچوڑ کر جو لکھوایا تھا۔

نیلوفر مروت

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نیلوفر مروت

محترمہ نیلوفر مروت یونیورسٹی آف سوات میں انگریزی ادبیات کی استاد ہیں

nelofur-marwat has 4 posts and counting.See all posts by nelofur-marwat