نکاح، زنا اور جبر


بہت کوشش کرنے کے باوجود میرا ہاتھ صاف نہیں ہو رہا تھا۔ سرخ خون کے قطرے میری انگلیوں کی پوروں میں جذب ہو گئے تھے۔ میں نے ایک بار مزید صابن لگایا اور کوشسش کرنے لگی شاید اس بار کامیاب ہو جاؤں مگر یہ کوشسش بھی ناکام رہی۔ میں نے سوچا کسی کپڑے سے صاف کرتی ہوں مگر یہ خون تو کسی صورت میرا دامن نہیں چھوڑ رہا تھا۔ میں نے آخری کوشسش کی اور اسے صابن کی ایک موٹی تہہ سے دھونے کی ٹھانی مگر نتیجہ جوں کا توں رہا۔ میں واپس باورچی خانے میں آ گئی چھری کو نہایت احتیاط سے صاف کیا اور الماری میں رکھ دیا۔ ایک بوجھ تھا جسے میں نے آج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے کندھوں سے اتار پھینکا تھا۔ میں نے ٹھیک کیا یا غلط یہ اہم نہیں تھا بس اتنا معلوم تھا آج میں نے وہ کیا ہے جو مجھے سالوں پہلے کرنا چاہیے تھا۔

میں باورچی خانے سے باہر آئی اور اپنے صحن کے سرخ اینٹوں والے ٹھنڈے فرش پر بیٹھ گئی۔ مجھے آج پہلی بار فرش کی ٹھنڈک اور نرمی محسوس ہوئی تھی ۔ لال اینٹیں جنھیں روز کپڑے کی گیلی ٹاکی سے صاف کرتے کرتے میں نے اتنا ملائم کر دیا تھا کے مجھے احساس ہوا کسی نے فرش پر ململ کی نازک چادر بچا دی ہو جس میں کمخواب کی سی نرمی ہو ۔ میں پاؤں پسار کر وہیں لیٹ گئی اور آنکھیں بند کر کے سوچنے لگی۔ اب تو کچھ بچا ہی نہیں سوچنے کے لیے۔ اب تو کچھ بھی نہیں بچا سب ختم ہو گیا۔

آہستہ آہستہ میری آنکھیں ٹھنڈی ہونے لگیں فرش کی نرمی میرے اندر جذب ہو رہی تھی۔ ایک عجیب سا سکون تھا جیسے میں نے آج زندگی بھر کے سارے ادھورے کام سمیٹ دیے ہوں سب بوجھ اتار دیے ہوں۔

آج دروازہ کھٹکنے پر مجھے کوئی ڈر نہیں ہو گا۔ آج مجھے کسی بدبو دار جسم کی سختی اور کسی کے الفاظ کی کاٹ سے اپنے جسم اور روح کو چھلنی نہیں کرنا پڑے گا۔ آج کوئی نشتر میری روح میں نہیں پہنچ سکے گا۔ مجھے اپنا آپ اس قدر ہلکا کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ میرا بدن شاید کشش ثقل کھو بیٹھا تھا۔ روئی کے گالے کی مانند میری روح ہوا میں اڑ رہی تھی۔ میں اڑتے اڑتے پتا نہیں کہاں پہنچ گئی مجھے خود بھی پتا نہیں چلا۔

میری روح کسی دلدل سے نکل رہی تھی وہ دلدل جو میں نے بہت پیار سے اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی۔ اسے روز اپنی محبت سے سینچا تھا۔ اس کیباغبانی اپنی خون سے کی تھی۔ مالی اپنے باغ کے ہر پودے سے محبت اس لیے کرتا ہے کیونکے ہر پودا اسے اپنی محبت کی نشانی محسوس ہوتا ہے۔ میں بھی اسی مالی کی طرح اپنی دلدل کو روز سنوار رہی تھی۔ اپنا خون پلا کر۔ اپنی محبت کی حدّت سے اس کیافزائش کر رہی تھی۔ اپنی کوکھ کی آخری تہ میں سنبھال کر کسی حاملہ عورت کی طرح۔ جو ہر چھوٹے سے معمولی جھٹکے پر اپنا ابھرا ہوا پیٹ ایسے تھام لیتی ہے جیسے اس کا ہاتھ اس بچے کو زمیں پر گرنے سے بچا لے گا۔ میں بھی بلکل اسی طرح اپنی دلدل کے ہر قطرے کی حفاظت کر رہی تھی۔

مجھے اپنی دلدل سے اس قدر محبت تھی کہ اس کی ٹھنڈک کی علاوہ کوئی اور شے مجھے ٹھنڈک مہیا نہیں کر پاتی تھی۔ میری دلدل جب میری روح میں اترتی تھی تو میری سانسیں رک جاتی ۔ روح کو سانس کی کیا ضرورت، سانس لینا تو جسموں کا کام ہے روحیں سانس نہیں لیا کرتی۔

مجھے اس سے محبت کب ہوئی پتا نہیں۔ میں تو وہ مٹی تھی جس پر وقت نے کبھی برسات نہیں ہونے دی تھی۔ پھر اچانک ایک دن کوئی کالی گھٹا وقت کے کسی پنڈال سے نکل کر اس قدر برسی کہ مجھے اپنی مٹی کی نمی اور ٹھنڈک محسوس ہونے لگی۔ اس قدر ملائم نرم نازک۔ میں تو نرم زمین پر چلنے کی عادی نہیں تھی۔ اپنی چپل سے نیچے کی زمین میں نے نہیں دیکھی تھی۔ مجھے تو صرف اپنے حصے کی سخت زمین پر ہی چلنا اتا تھا۔ چارکول کی بنی سخت سڑک اور میرے بند جوتے جنہوں نے مجھے اس کی گرمی سے تو بچائے رکھا مگر نرم زمین کی ٹھنڈک تک بھی پہنچنے نہیں دیا۔

میں اس نرم رشتے کی حدّت اور لطافت کے خمار میں سرشار اپنی چارکول والی سخت سڑک پر چلنا بھول گئی۔ مجھے یاد ہی نہ رہا اس نرم دلدل میں جب بہت زیادہ نمی آجاتی ہے تو یہ اپنے اندر انے والی ہر شے کو کھا جاتی ہے۔ اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ مجھے سب بھول گیا۔ سب کچھ۔ وہ دلدل بہت خوبصورت تھی بہت زیادہ خوبصورت۔

اب مجھے وہ کاغذ کی پنے یاد آنے لگے جن پر میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے ہی نام کو نہایت خوبصورتی اور جوش سے پہلی بار لکھا تھا۔ اس کا نام میرے نام کے ساتھ بہت خوبصورت بہت حسین لگ رہا تھا۔ اس دن مجھے میری دلدل مل گئی تھی۔ جو صرف اور صرف میری تھی۔ میں اپنی دلدل کو اپنے آپ سے چمٹائے بار بار چومتی تھی۔ اس کی خوشبو کو اپنے اندر اس قدر گہرائی میں اترنا چاہتی تھی کہ وہ میری روح میں اتر کر میری ہر سانس میں پیوست ہو جائے۔ میں اپنی آنکھوں سے اس کی ہر جنبش کو اپنے کینوس پر اتارنا چاہتی تھی۔ میں سب بھول گئی سب کچھ۔ اپنا نام، اپنا آپ، اپنا وجود میں سب کچھ بھول گئی۔ میں صرف اپنی دلدل میں ڈوبے رہنا چاہتی تھی۔ میں اس سے اپنے اپ کو ایک لمحے کی لیے بھی الگ نہیں کرنا چاہتی تھی۔

پھر وقت بدلا اور دلدل کی نمی ختم ہونے لگی شاید قحط آگیا۔ قحط صرف اناج کا نہیں ہوتا۔ قحط رشتوں میں آجاے تو سب کچھ سینچ لیتا ہے۔ میری دلدل بھی سوکھ گئی۔ مجھے بتایا گیا کے تم کس قدر کم اہم ہو۔ تمہارا وجود کسی ذرخیزی کے لائق نہیں ہے۔ تمہارا جسم کس قدر ادھورا ہے۔ تم میری نرم زمین پر چلنے کی لائق نہیں ہو۔ تم اس چہرے کو دیکھو یہ کتنا بے رونق ہے۔ اس روز میں نے سالوں بعد اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا۔ مجھے لگا ہاں یہ غلط تو نہیں۔ میرا چہرہ کس قدر معمولی ہے۔ میرے نقش کس قدر بھونڈے ہیں۔ میرا رنگ اس قدر گندمی ہے کہ سیاہی پھوٹی پڑتی ہے۔ مجھے اپنے چہرے سے گھن آنے لگی۔ میں اپنی دلدل کے اور قریب ہو گئی۔ میں نے کوشش کی کہ اپنی دلدل سے کچھ نمی چن لوں مگر مجھے دھتکار دیا گیا۔ میں کچھ لمحوں کے لیے افسردہ ہوئی لیکن اسے اپنا نصیب مان کر اس سے چمٹی رہی۔

مجھے روز بتایا جانے لگا میری کم حثیت اور کم قابلیت۔ میرا معمولی درجہ، میری جسمانی ساخت، میرا چلنا پھرنا، میرا ہر قدم کس قدر نامناسب تھا۔ میرا جسم میرا وجود مجھے ایک بوجھ لگنے لگا۔ میرے جسم کا کوئی خم کوئی ابھار قابل ستائش نہیں تھا۔ میرے جسم کی زرخیزی ایک سوالیہ نشان بن گئی۔ ایک مذاق، ایک بھونڈا مذاق۔

میں تھک گئی لڑتے لڑتے۔ جسم کی جنگ سے تو شاید میں ہار نہ مانتی مگر آہستہ آہستہ یہ جنگ میرے وجود سے بہت آگے نکل گئی۔ میری وہ صلاحیتیں جن پر مجھے ناز تھا وہ بے وقعت ہو گئیں۔ مجھے روز الفاظ سے پیٹا جانے لگا، مجھے روز زبان سے جلایا جانے لگا، مجھے ہر تیر اپنی جسم میں پیوست ہوتا محسوس ہونے لگا۔ میں کسی شکست خوردہ سپاہی کی طرح روز اپنے زخم صاف کرتی، ان پر مرہم لگاتی اور اگلے دن مزید زخم کھانے کے لیے تیار ہو جاتی۔

زخم لگتے رہے اور میں کھاتی رہی۔ ایک روز میری دلدل بہت زور سے مجھے جھنجھوڑنے لگی مجھے روح کے آخری ذرے تک مسمار کرنے کے بعد میرے جلتے بستر کی سلوٹوں سے مجھے ایسے نیچے پھینک دیا گیا کہ میں گھنٹوں زمین سے اٹھ نہ سکی۔ میں چور چور تھی۔ میرا بدن اب مزید کسی بوجھ کو اٹھانے کی قابل نہیں رہا تھا۔ آج وہ بوجھ جس کی خوشی میں، میں نے گھنٹوں باورچی خانے میں لگانے کی بعد بہت سا وقت اپنے نامناسب بے ڈھنگے وجود کو سنوارنے میں لگایا تھا، زمین پر بے حس و حرکت پڑا تھا۔ خون کے قطرے میرے جسم کے کسی بدصورت بے ڈھنگے عضو سے نکل کر کمرے کے ٹھنڈے فرش پر پھیل گے تھے۔ نا چاہتے ہوے بھی میرے ہاتھ خون سے تر ہو گے۔

میں گھنٹوں فرش پر پڑی رہی۔ معلوم نہیں کب مجھے ہوش آیا۔ میری دلدل وہاں نہیں تھی اب صرف سخت زمین تھی اور میری چپل۔ میں نے اپنے وجود کو سمیٹا پاؤں سخت زمین پر رکھے اور پوری طاقت سے کھڑی ہو گئی۔ نجانے کون سے بکس میں میری ڈگریوں کے ڈھیر تلے ایک کاغذ مجھے مل ہی گیا۔ میرا اور میری دلدل کی نام والا کاغذ۔ آج مجھے وہ دنیا کا سب سے بدصورت نام لگ رہا تھا میں نے پھلوں کی پلیٹ سے چھری اٹھاتی اور اس کاغذ کی سینے میں پیوست کر دی۔ ایک وار سے میرا دل ہلکا نہ ہو سکا میں چاقو چلاتی رہی چلاتی رہی۔ یہاں تک کے اس کے چھو ٹے چھو ٹے ٹکڑے میرے خون کے قطروں میں لیپٹ گئے اور میرے ہاتھ سرخ ہو گئے۔

آج اس چاقو سے ایک کاغذ کا قتل نہیں ہوا تھا۔ آج اس کاغذ کے سینے سے ایک جنم ہوا تھا ایک انسان کا جنم۔ میرا جنم۔ آج کے بعد کوئی دلدل میرے پاؤں نہ چھو سکے گی۔ آج کے بعد کسی کو میری روح کو مسمار کرنے کا حق نہیں دیا جائے گا۔ آج کے بعد کوئی میری روح کی قیمت محبت کے چند بولوں سے نہیں لگا سکے گا۔

#Say No to Domestic Violence
#Say No to Marital Rape
#Say No to Abusive Relationships


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).