کیا پاکستانی ایک چینی کالونی بننے جا رہا ہے؟


کالونیل ازم کا وقت گزر گیا ہے، اب کوئی بھی بیرونی قوت (ملک یا کمپنی) پاکستانی سرزمین کو کالونی نہیں بنا سکتی –

ایک جمہوریت میں تو یہ ہرگز ممکن نہیں، کیونکہ اگر کوئی کمپنی یا دوسرا ملک اس ملک کے شہریوں کے اقتدار اعلی پر ڈاکہ ڈالے گا تو جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان مقابلہ کی ثقافت میں یہ سیاسی منشور بن جائے گا کہ مجھے ووٹ دو، میں اقتدار میں آ کر انہیں نکال دوں گا- اور ایک حکومتی حکم انہیں نکال باہر کر سکتا ہے –

مگر ایک سوال اب بھی موجود ہے جس پر ہم نے ستر سالوں میں کم ہی غور کیا ہے- کیا ایک ملک کے اندر، اسی ملک کی کوئی اندرونی قوت، باقی تمام مقامی اکائیوں یا طبقات یا سٹیک ہولڈرز کو کالونی بنا سکتی ہے؟

میرا جواب ہے ہاں- یہ اندرونی کالونیل ازم دنیا میں بھی اور پاکستان میں بھی اب تک موجود ہے اور انتہائی طاقتور حالت میں موجود ہے –

وہ دن کب آئے گا جب ہمارے تعلیمی ادارے اپنی تحقیقات میں آزاد ہوں گے اور تنقیدی فکر کا کلچر ہماری جامعات میں رواج پائے گا؟ ہم یہ سوال اٹھائیں گے کہ کیا پاکستان میں پاکستان کے تمام فرد اور اکائیاں/شناختیں آزاد و خود مختار تھیں؟ کیا پاکستان میں برطانوی کالونیل دور سے زیادہ آزادی تھی یا زیادہ جبر تھا؟ کیا پاکستان میں پاکستانی شہری اپنی سیاسی سماجی اور معاشی زندگی میں واقعی آزاد تھے؟

ہمیں چینیوں سے کوئی خطرہ نہیں – ہمیں خطرہ اپنے سیکورٹی اداروں کے اس رویے سے ہے جو پاکستان میں تمام شہریوں کے انسانی حقوق کو اپنے بوٹ کے نیچے رکھتے ہیں یا اپنی وردی کے حصار میں قید رکھتے ہیں –

ذرا سوچئے، اگرپنجاب پولیس کے کچھ سپاہیوں پر تشدد کرنے والے یہ چینی افراد عام پاکستانی ہوتے تو پنجاب پولیس نے ان کی چمڑی سلامت رکھنی تھی ؟ یا اگر یہ چینی اپنے ملک میں اپنے ہی کسی سیکورٹی ادارے کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تو کیا ان کے والدین دوبارہ اپنے بچوں کو زندہ دیکھ سکتے؟ کیا یہی چینی باشندے، یورپ و امریکہ جا کر ایسا کر سکتے ہیں؟ یہ وہ خصوصی استحقاق ہے جو چینی باشندوں کو پاکستان میں حاصل ہے اور جو پاکستانی ریاست نے انہیں دے رکھا ہے –

اپنے سیکورٹی اداروں کے رویوں کو بدلئے کہ وہ تمام انسانوں/شہریوں کو برابر کا انسان سمجھیں اور ان کے انسانی حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کریں نہ کہ ان کے انسانی حقوق سلب کریں- پاکستانی شہریوں کے شہری حقوق غیر ملکی باشندوں پر مقدم ہیں –

ہمیں اچھے میزبانوں کی طرح چینیوں اور دوسرے غیر ملکی مہمانوں کا استقبال کرنا چاہئے- ہم پاکستانی نسل پرست نہیں اور نہ ہی غیر ملکیوں سے نفرت کرتے ہیں- ہم پوری دنیا کے انسانوں کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہتے ہیں –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan