محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی


آنکھ آج نم ہوئی۔ تو یہ جانا کہ محبت ہوگئی ہے ہم کو۔ لیکن یہ سب بے سبب تو نہیں،

محبت۔ لیکن کس سے ا ور کیوں؟ کیا دنیا میں ہمیں کوئی انوکھی محبت ہوئی ہے؟ اور بھی لوگ بستے ہیں جو محبت کرتے بھی ہیں، نبھاتے بھی ہیں۔

محبت ہوجائے تو وہ سبب نہیں پوچھتی، ذات پات، سرحدیں، کچھ بھی نہیں دیکھتی، دکھ ہونے پر آنسو کے دریا بھی رواں ہوتے ہیں، دل سے آہیں اور دعائیں نکلتی ہیں۔ قول وفعل سے محبوب کے راستے میں آنے والی ہر تکلیف دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

میری محبت کی جنگ میں میرا ہتھیار میرا قلم ہے، شاید اس کی پہنچ دور تک نہیں، لیکن اپنے حصے کی شمع تو جلانا ہے۔ دکھ تکلیف دور نہیں کی جا سکتی، دعاؤں کی قبولیت میں وقت لگ رہا ہے۔ آواز تو اٹھائی جا سکتی ہے۔ ورنہ کل قیامت میں اپنے رب کو کیا جواب دیں گے؟ کہ ہم ہاتھ پہ ہا تھ دھرے ظلم ہوتا دیکھتے رہے۔

حدیث شریف میں ہے :

”مسلمان آپس میں پیار ومحبت، رحم وشفقت اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں کہ جسم کا ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم اضطراب اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔”

میری اس محبت کا تعلق میری ذات سے نہیں، یہ محبت مجھے مسلمان ہونے کے ناطے ہے، پڑوسی ہونے کے سبب ہے، یہ محبت انسانیت کے واسطے ہے، جسے دنیا میں بسنے والی مختلف قومیں اور مذاہب کے لوگ شائد بھلا چکے ہیں۔

کچھ دلوں میں محبت کا یہ دیا روشن ہے اور امید ہے کہ دئیے سے دیا جلتا رہے گا۔

فلسطین، کشمیر، شام اور افغانستان۔۔۔ کئی دہائیوں سے ظلم وستم کی آگ میں جل رہے ہیں، وقتاً فوقتاً اس پر تیل ڈالا جا رہا ہے، قتل وغارت، جبر واستبداد کے نئے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ بھولا بسرا کوئی کبھی الفاظ کی چاشنی بکھیر دیتا ہے، کبھی پانی چھڑک جاتا ہے ورنہ تو خون کی ہولی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔

بچپن سے صرف ان لوگوں کو جدوجہد کرتے اور قربانی دیتے ہی دیکھا ہے، آخر کب ان کو حق ملے گا؟ آخر کب حق مانگنے کا حق چھینا جانا بند کیا جائے گا؟ آخر کب امن، دوستی اور محبت کے نام پر قتل، عصمت دری، تشدد اور ہراساں کیا جاتا رہے گا؟ آخر کب تک؟

شام میں بمباری اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر صرف ایک دن میں چار سو لوگ مارے گئے، جن میں اکثریت چھوٹے بچوں کی ہے، لاکھوں لوگ بے یارومددگار کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ باغیوں اور اتحادیوں کی جنگ میں معصوم و بے گناہ بے دردی سے قتل کیے جار ہے ہیں، اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی اور نجانے کس کس فورم پر آواز اٹھائی گئی، لیکن 2011 سے اب تک معاملہ وہیں کا وہیں ہے، سیکڑوں کی تعداد میں انسانی جانیں باقاعدہ تلف کی جارہی ہیں، جیسے انسان نہ ہوں، کوئی موذی جانور ہوں۔ ان سب کا قصور ہے مسلمان ہونا۔ ابھی یہ درد کم نہ ہوا تھا کہ مختلف ملکوں سے مختلف واقعات میں مسلمانوں پر حملے اور قتل کی خبریں آنے لگیں۔

جمعہ 30 مارچ کوفلسطینی یوم الارض منانا چاہتے تھے، زمین سے اپنی محبت کا اظہار چاہتے تھے۔ لیکن جواب میں کیا ملا خون، لاشے، زخمی۔ نام نہاد اسرائیل کی سرحد کے قریب دو فلسطینی کسانوں کو کھیتی باڑی کے دوران فائرنگ کر کے مار دیا گیا، اسرائیلی فوج نے انہیں دہشت گرد کہا۔ لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی احتجاج کے لیے نکل آئے، اسرائیل نے ڈرون کے ذریعے فائرنگ کی، آنسو گیس کے شیل برسائے۔ مرد و عورت، بچے اور بڑے کی تخصیص کے بغیر 17 افراد شہید ہوگئے، سیکڑوں زخمی ہوئے۔ مذمتیں آئیں، قراردادیں آئیں، اظہارِ افسوس ہوا۔ اور پھر آنسو، درد، غم باقی رہے۔

یکم اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ریاستی دہشت گردی دکھائی۔ کشمیریوں پرقیامت ڈھائی گئی۔ 13 جعلی مقابلوں کے نام پر گھروں میں گھس کرچار دیواری کی حرمت کو پامال کیا گیا۔۔۔ ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو ہراساں کیاگیا، 13 معصوم کشمیری نوجوانوں کی جان لے لی گئی۔ ہزاروں لاکھوں افراد احتجاج کے لیے نکل آئے، جابر بھارتی سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر شیلنگ کی، اور ایک دن میں شہدا کی تعداد 17 ہو گئی۔ 3 سو سے زائد زخمی ہوئے۔ سننے میں آیا ہے کہ بھارت نے نہتے کشمیری عوام کے خلاف اسرائیل سے خریدے گئے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ کشمیری نوجوانوں کی نسل کشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حریت رہنماؤں نے دو روزہ ہڑتال اور شوپیاں پلوامہ تک احتجاج کا اعلان کیا۔ مظاہرین کو روکنے کے لیے ایک بار پھر مسلط بھارتی فوج نے طاقت کا استعمال کیا، موبائل اور نیٹ سروس بند کردی، کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا، پر تشدد واقعات میں شہدا کی تعداد 23 ہو گئی۔

زمین سے محبت کا خراج۔۔۔ نسلوں کا نذرانہ۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے اپیل کی کہ وہ بین الاقوامی سیاست میں ایک فعال اور موثر کردار ادا کرتے ہوئے کشمیر اور فلسطین کے تنازعات کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کرے اور اقوام متحدہ پر بھی اس حوالے سے دباؤ ڈالے۔

دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے جمعہ کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کے حکومت پاکستان کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے پاکستان سے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرانے کیلئے اس دیرینہ تنازع کو اپنے قومی ایجنڈے میں شامل کرے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 6 اپریل جمعہ کو ’یوم یکجہتی کشمیر‘ منانے کا اعلان کیا اور کہا پاکستان پہلے بھی کشمیریوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ آج بھی کھڑا ہے اور کھڑا رہے گا۔ کشمیریوں کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔ انہوں نے کہا بھارت کو عالمی قوانین کے سامنے جھکنا ہو گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارتی کشمیر میں صورت حال کے جائزے کے لیے اپنا نمائندہ بھیجے۔

ادھر 3 اپریل کو افغانستان کے صوبے قندوز میں ہیلی کاپٹرز نے ایک مدرسے پر درجنوں بم برسائے۔ جن میں ننھے طلبہ سمیت 150 افراد جاں بحق ہوئے، درجنوں زخمی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ اطلاعات کے مطا بق مدرسے میں حفاظ کی تقریب دستار بندی جاری تھی۔ اور طلبا اپنے اہل خانہ کے ساتھ موجود تھے۔

کسی نے صحیح کہا ہے۔

محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی

ہمارے درمیان یہ فاصلے، کیسے نکل آئے

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی جریدے کو ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ اسرائیل کو اپنی زمین پر امن سے رہنے کا حق حاصل ہے۔ سعودی ولی عہد کے والد اور خادم الحرمین و الشرفین شاہ سلمان نے سعودی عرب کی فلسطینی ریاست کے لیے حمایت کا اعادہ کیا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ دھوکے باز اور جابر اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی کوشش ناقابل معافی غلطی ہو گی۔

ہم کیوں اظہار محبت اور یکجہتی کے لیے اپنے حق کی آواز اٹھانے کے لیے سانحات کے منتظر ہیں۔ ذاتی، ملکی مفادات، خطے میں اجارہ داری اور دنیا پر حکومت کرنے کے پیچھے محبت اور انسانیت کہیں بھول بیٹھے۔ کب اک امت بن کر دوست بن کر خیال کر کے ابھریں گے۔

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza