کوئی ہے جو بیس کروڑ کے اس اژدھام میں اک چوہے کی آواز بنے؟


فیس بک پر میں اس ویڈیو کو دیکھ کر دم بخود ہی رہ گیا۔ ڈوریوں کی مدد سے ایک چوہے کو اگلی پچھلی ٹانگوں سے کھینچ کر اس طرح سے لٹکایا گیا تھا کہ اس کا پورا جسم تنا ہوا تھا۔ پس منظر میں ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ویڈیو مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں مزدوری کرنے والے کچھ پاکستانیوں نے ریکارڈ کی تھی، اس چوہے نے غالباً کسی چارجر کے تار کتر دیے تھے، پکڑا گیا تھا اور اب اسے ان صاحبان کے غیظ و غضب کا سامنا تھا۔ اس کا صیاد اسے مسلسل ایک چھڑی سے ٹہوکے دے رہا تھا، چوہے کو اس سے تکلیف تو ہو رہی تھی لیکن ڈوریوں سے لٹکا وہ ذی روح نہ تو اپنا جسم سمیٹ سکتا تھا نہ ہی بچت کا کوئی اور سامان کر سکتا تھا، محض اپنی دم ہلا رہاتھا یا خوف کے عالم میں چھڑی پر نظر رکھے اس کے ساتھ ساتھ اپنا سر گھما رہا تھا۔ ایک مر حلے پر ان صاحب کو یہ بھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ چھڑی سےاس چوہے کو گدگدی کریں۔ چوہا محظوظ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ہمارے فاضل دوست ضرور ہوئے۔

چوہے کو اس انداز سے اذیت دینے، اس کا تمسخر اڑانے سے تو بہتر تھا کہ وہ اسے مار ڈالتے۔ جیسا کہ ہم اکثر دیکھتے اور سنتے آئے ہیں جس گھر کے رہنے والے چوہوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، کڑکی کی مدد سے اسے مار ڈالتے ہیں۔ بلکہ اب تو اس کا استعمال بھی معدوم ہو گیا ہےاور لوگ اس مقصد کے لئے سریع الاثر زہر یا پنجرے کا استعمال کرنے لگے ہیں۔

لیکن ہمارے وہ ہم وطن چوہے سے چھٹکارہ پانے کے بجائے اسے اذیت دینے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
اسے اذیت دینا تو گویا ان کے لئے تفریح کا سامان بنا ہوا تھا۔
انہیں اس چوہے کو اذیت دینے کا حق کس نے ودیعت کیا تھا؟

کیا وہ محض اسے اس لئے اذیت دے رہے تھے کہ وہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے سے با اختیار تھے، طاقتور تھے جبکہ چوہا خدا کی بنائی ہوئی مخلوقات میں ان کے تئیں ادنٰی اور کمزور ترین درجے پر فائز تھا؟

اشرف المخلوقات کی اس راجدھانی میں اس چوہے جیسی ادنٰی مخلوق کے لئے اب کون آواز اٹھائے گا؟
سنا ہے سوشل میڈیا بڑا بے باک اور بے دھڑک ہو چکا ہے اور ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، تو کیا یار لوگ اس چوہے کے لئے بھی کوئی مہم چلائیں گے کیا؟

اس مرحلے پرمہم چلانے کا مقصد یقیناً اس چوہے کی تکلیف کا ازالہ کرنا نہیں بلکہ اس حوالے سے شعور کو پھیلانا ہو گا کہ جانور بھی ذی روح ہونے کے ناطے تکلیف محسوس کرتے ہیں، اور ان سے رحم دلی کا معاملہ روا رکھنا چاہیے۔ اس مہم کا یہ بھی مقصد ہو گا کہ اس انتہائی ناخوشگوار واقعے میں ملوث افراد کو سزا نہیں تو کم از کم بے نقاب ضرور کیا جائے تاکہ وہ اور ان جیسے دوسرے آئندہ ایسی حرکت کا ارتکاب کرنے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہو جائیں، اور اگر کر بیٹھیں تو منہ چھپاتے پھریں۔

ملک میں رائج 1890 کے ایک قانون کے تحت، کہ جو خود بھی توجہ کا طالب ہے، جانوروں پر ظلم کرنا جرم ہے، اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو ایک ماہ تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ تو کیا اب اس جرم کے ارتکاب کے بعد ہمارے تحقیقاتی ادارے اس بات کا کھوج لگانا پسند کریں گے کہ یہ کون لوگ تھے، اور انہیں دوسرے ملک کے اداروں کے ساتھ مل کر قانون کے کٹہرے میں لایا جائے؟

کیا ہماری عدالتیں جو بات بے بات از خود نوٹس لے لیتی ہیں، خدا کی دوسری مخلوقات کو بھی اس قابل سمجھتی ہیں کہ ان کے حقوق کا بھی تحفظ کریں اور اس جرم کے ارتکاب پر بھی حرکت میں آئیں؟

اقوام عالم میں اگر اب بھی ہماری کوئی ساکھ ہے تو کیا کسی کو اس بات کی بھی تکلیف ہے کہ دیکھنے والوں کے سامنے ہمارے ہم وطنوں کی اس حرکت نے پوری قوم کی ساکھ کو مجروح کیا ہے اور ہمارے لئے شرمندگی کا باعث بنی ہے؟

کیا کوئی لکھاری، کوئی دانشور، کوئی اینکر پرسن، کوئی ادارہ اس معاملے پر آواز اٹھائے گا جو بظاہر تو غیر اہم ہے لیکن ہماری اجتماعی فطرت کا عکاس ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی سخت دل بھی ہیں اور تماش بین بھی؟

کچھ احباب چھوٹتے ہی یہ بھی کہہ اٹھیں گے کہ یہاں انسانوں کو بنیادی حقوق نہیں ملتے اور ہم جانوروں کا، اور وہ بھی کسی اور کا نہیں بلکہ چوہوں کا رونا لئے بیٹھے ہیں، اور اس کے لئے آواز اٹھانے کی دہائی دے رہے ہیں۔ بعض دوست تو پھبتی بھی کسیں گے۔

بصد احترام عرض ہے کہ کیا جب تک انسانوں کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے، ہمیں جانوروں پر ہونے والے مظالم نہیں روکنے چاہیے؟ ان کی نشاندہی، ان کا تدارک نہیں کرنا چاہیے؟
چلیں میں تو شاید کچھ غلط ہی کہتا ہونگا، محمدِ عربیؐ کے کچھ احکامات سناؤں آپ کو؟

فرماتے تھے ایک چڑیا تک کو بلا ضرورت مت مارو۔ ایک سفر کے دوران ایک پرندے کے بچے خود گھونسلے میں واپس رکھوائے۔ جانوروں کو داغنے سے بھی روکتے تھے آپؐ۔ وہ واقعہ بھی کسی نہ کسی شکل میں پڑھنے والوں نے سن رکھا ہو گا کہ جس میں پیغمبرؐ نے ایک طوائف کے حوالے سے جنت کی بشارت دی تھی کہ جس نے ایک پیاسے کتے کو انتہائی تردد سے کنویں میں سے پانی نکال کر پلایا تھا۔ اس عورت کے حوالے سے جہنم کی پیشین گوئی بھی سنی ہو گی آپ نے کہ جس نے ایک بلی کو باندھ کر رکھا تھا اور وہ اسی حالت میں بھوکی پیاسی مر گئی تھی۔ اس اونٹ کی بابت بھی سن رکھا ہو گا جو نبی کریمؐ کو دیکھ کر بلبلا اٹھا تھا اور آپؐ نے اس کے مالک کو بلا کر سرزنش کی تھی کہ وہ اس کی بساط سے بڑھ کر کام لیتا ہے اور ضرورت سے کم کھانے کو دیتا ہے۔ آپؐ تو یہ بھی کہتے تھے کہ جانور ذبح کرتے ہوئے چھری تیز رکھو تاکہ اسے کم سے کم تکلیف ہو۔ اور تو اور ایک روایت میں آپؐ نے چیونٹیوں کو جلا کر مارنے والوں کی باز پرس بھی کی۔ سچ ہے آپؐ رحمت العالمین تھے، سارے جہانوں کے لئے رحمت، ان میں بسنے والی اور موجود ہر شے، ہر تخلیق کے لئے رحمت۔ یہ تو ہم بد نصیبوں نے انؐ کی تعلیمات کو اگر یکسر فراموش نہیں تو کم از کم بگاڑ کر رکھ دیا ہے، اور ہمارے اعمال کے سبب اسلام کا اصل چہرہ دھندلا گیا ہے، کہیں گم ہو گیا ہے!

اور پھر اسلام ہی کیا، تمام مذاہب عالم جانوروں سے محبت اور رحم دلی کا درس دیتے ہیں۔ مذاہب کو بھی چھوڑئے انسانیت کا، اخلاقیات کا بھی تو یہی تقاضا ہے۔

اس معاملےمیں تو بات چوہے تک ہی محدود نہیں بلکہ جیسے کہا گیا، یہ ہماری اجتماعی فطرت کا آئینہ دار ہے۔ اس چوہے کو لمحے بھر کو فراموش کر دیتے ہیں، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ گدھے جیسے بے ضرر اور فائدہ رساں جانور کے ساتھ وطن عزیز میں کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ کیا آپ نے یہ منظر نہیں دیکھ رکھا کہ ریڑھی پر لدے وزن کے سبب گدھا ہوا میں معلق ہو گیا ہو؟

سڑکوں پر رواں ان ٹرکوں اور ٹرالیوں پر بھی کبھی نظر نہیں پڑی جن پر مویشیوں اور دیگر جانوروں کو وہ جوکہا جاتا ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک شہر سے دوسرے شہر، حتٰی کہ ڈیورنڈ لائن کے اس پار لے جایا جاتا ہے؟ اگر آپ کی گردن میں ایک رسی ڈال کر اسے کھینچ کر جنگلے کے ساتھ اس طرح سے باندھ دیا جائے کہ آپ کا سر اور گردن مستقل جھکی رہے اورآپ اسے سیدھا نہ کر سکیں، اور پھر اس عالم میں کسی تنگ جگہ کھڑے کھڑے آپ کو دنوں کا نہیں تو کم از کم گھنٹوں کا سفر کرنا پڑے تو آپ پر کیا گزرے گی؟ آپ پر جو گزرے گی سو گزرے گی جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے اس وقت بھی لاکھوں نہیں تو ہزاروں مویشی اس تکلیف سے گزر رہے ہوں گے!

چلیں ان کا ذکر بھی چھوڑ دیتے ہیں، شدید موسم میں، چھوٹے چھوٹے پنجروں میں لاتعداد مرغیاں تو ٹھنسی ہوئی دیکھی ہوں گی، جو بعد ازاں اپنے پیروں پر کھڑی بھی نہیں ہو سکتیں اور اسی حالت میں ذبح کر دی جاتی ہیں؟

اس سے یاد آیا آپ نے ایک جانور کو دوسرے کے سامنے زبح ہوتے اور تڑپ تڑپ کر جان دیتے تو دیکھا ہو گا؟ اور نہیں تو عید قرباں کے دن؟ اور کیا کبھی یہ بھی غور کیا ہے کہ اس موقعہ پر دیکھنے والے جانوروں کی کس طرح سیٹی گم ہوئی ہوتی ہے؟ کس قدر پتھرائی ہوئی آنکھوں سے وہ اپنے ساتھی کو تڑپتے اور مرتے دیکھ رہے ہوتے ہیں؟

گلی کے بچوں کو آوارہ کتے بلیوں کے گلے میں رسی ڈال کر کھینچتے یا انہیں پتھر مارتے تو دیکھا ہو گا؟
سخت دھوپ میں ’کِلے‘ سے بندھے مویشیوں پر تو کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی جگہ نظر پڑی ہو گی؟

چڑیا گھر کے شیروں کو بھیڑوں سے بھی کمزور تو محسوس کیا ہو گا آپ نے؟
اور پھر بھی آپ یہ سوچتے ہیں کہ اس چوہے کو درپیش معاملہ اپنی نوعیت کا ایک عام سا واقعہ ہے اور اس قدر بحث اور توجہ کا طالب نہیں!
چھوڑئے صاحب، میں کس بات کا رونا لے بیٹھا، آپ بتائیےپی ایس ایل کے میچ کیسے رہے؟

الیکشن وقت پر ہو رہے ہیں یا نہیں؟
کون سی پارٹی جیتتی نظر آرہی ہے؟
موسم کی سنایئں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).