غیرت کا تقاضا ہے کہ مودی کی اینٹ سے اینٹ بجائی جائے


کسی نے واٹس ایپ پر کافی لمبا سا وائس نوٹ بھیجا جو بڑا جذباتی قسم کا تھا مگر اس کا آخری جملہ تھا ”میں پوچھتی ہوں آخر یہ پاکستانیوں کی غیرت کب جاگے گی؟ مودی وہاں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے اور پاکستانی ہوش نہیں کرتے“

ہاں جی۔ بجا فرمایا۔ ہم پاکستانی غیرت ہی نہیں کرتے۔ ہم نے تو تب بھی غیرت نہیں کی جب مودی جی بلدیہ ٹاون میں 300 لوگوں کو کوئلہ بنا کر چلے گئے، ہم تو تب بھی کچھ نہ بولے جب مودی جی نے اے پی ایس میں کہرام مچا دیا، مودی جی آئے اور تھر کے سینکڑوں بچوں کا کھانا کھا گئے، قصور کے درندے بن گئے، بلوچستان میں غریب پنجابیوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر مارتے گئے، مودی جی ماڈل ٹاون بھی آئے تھے اور ہماری بہنوں کے چہروں پہ گولیاں مار کر گئے تھے۔

مودی جی ایک بار صفورا گوٹھ بھی آئے تھے اور نہتے لوگوں کا خون پی کر چلے گئے تھے مگر ہماری غیرت ہی نہیں جاگی۔ مودی جی ہزارہ کے لوگوں کو بھی مارتے ہیں، وہ بچارے کتنی بار لاشوں کے انبار لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کبھی یخ سردی میں، کبھی تپتی دھوپ میں۔ مگر ہماری غیرت ہی نہیں جاگتی۔ مودی جی ایک خوبصورت اور زندگی سے پیار کرنے والے جوان نقیب اللہ کو بھی مار کر چلے گئے۔ کتنے سارے بے بس قبائلیوں نے جمع ہو کر بتایا کہ ان کے بھائی بیٹوں کو بھی مودی جی نے مارا ہے مگر مجال ہے کہ ہمیں غیرت آئی ہو۔

مودی جی نے اسماء نواب کے گھر والوں کو قتل کر کے اس بے گناہ کو 20 سال کے لئے جیل میں ڈال دیا تھا۔ آج وہ جوانی جیل میں گزار کر اپنا بڑھاپا آزاد گزارنے پر بھی اتنی خوش ہے کہ آنسو بہا رہی تھی۔ اس سے تعلیم، خوشیاں، زندگی سب کے مواقع چھین لیے مودی جی نے۔ ایسی ہی ایک جڑانوالہ میں ایم اے کرنے نکلی تھی لڑکی عابدہ۔ مودی نے اس کے خواب بھی بھنبھوڑ کر، نوچ کر نالے میں ڈال دیے۔ ایک بچہ معصوم سا، حامد نام تھا عمر 12 سال۔ لالہ موسی میں تحریک کا پہلا شہید بنانے کے لئے مودی جی نے کچل دیا اور بعد ازاں فخر کا اظہار کیا۔ آج تک اس کے والدین مودی کے خلاف منہ ہی نہیں کھولتے۔

پرچم کے سفید حصے سے بھی مودی صاحب خوش نہیں۔ تین افراد کو تو ہڈیاں توڑ کر اینٹوں کے بھٹے میں ڈال کر سرمہ بنا دیا تھا۔ آپ لوگوں کو اندازہ نہیں کہ اینٹوں کے بھٹے کا درجہ حرارت کتنا ہوتا ہے؟ یہ تپش بطن میں موجود بچے نے کیسے جھیلی ہوگی؟ مودی صاحب ہی ہیں جن کے بے شرم مطالبات سے گھبرا کر کوئی اقلیتی جوان کھڑکی سے کود گیا تھا اور حال ہی میں سروسز اسپتال میں مودی جی نے ہی ایک اقلیتی جوان کو مار مار کر آنجہانی بنا دیا تھا۔ مودی جی نے سندھ دھرتی پر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک اقلیتی جوان کو بے آبرو کیا اور ویڈیو بھی عام کر دی۔ ہم پاکستانیوں کی غیرت کب جاگے گی؟

میں بتاتی ہوں۔ ہماری غیرت کب کب جاگتی ہے۔ ملالہ، شرمین، نور بخاری، وینا کی واپسی، عدت کی مدت، یاسرہ کا مہر اور ایسے ہی کچھ مزید بیکار بنا سر پیر کے بے بنیاد مسائل پر بات کرتے ہوئے۔ حالانکہ یہ مسائل ہیں بھی نہیں مگر بنانے پڑتے ہیں اصل مسائل چھپانے کے لئے۔ مسئلہ پڑوس کے مودی کا نہیں اندر کے کھوٹ کا ہے۔ نظام باہر سے آ کر کسی نے خراب نہیں کیا۔ یہ اندر سے سڑ رہا ہے۔ معاشی اور اخلاقی طور پر مضبوط ہوں گے تو اپنا حق مانگ سکیں گے ورنہ یوں ہی دن کیا سال منا لو، مودی کا کچھ نہیں بگڑتا۔

ہم کتنے بے حس ہیں، کتنے خود غرض ہیں اس کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ ہمارا پالتو جانور بیمار پڑ جائے تو اسے کاٹ کر کھا لیتے ہیں کہ کہیں گوشت ہاتھ سے نہ نکل جائے، پڑوس میں کوئی خاتون سسرال والوں کے ہاتھوں مار کھا رہی ہو تو دیکھنے پہنچ جاتے ہیں اور دیکھ کر واپس آجاتے ہیں۔ خرابی کو صحیح کرنے کا حوصلہ دم توڑ چکا ہے۔ ایک کے بعد دوسری ٹرک کی بتی کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ قومیں خوشحالی کے پیچھے بھاگتی ہیں، ہمیں دو میچ کروا کر بار بار بتاتے ہیں کہ قوم کو تحفہ دیا ہے۔ آج قوم خوشی منا رہی ہے۔ میں پھٹیچر نہیں کہوں گی لیکن ہم ویسٹ انڈیز جائیں، ویسٹ انڈیز ہمارے گھر آئے، امارات میں کسی چھوٹی ٹیم کو ڈال کر ویسٹ انڈیز سے کھیلیں، پی ایس ایل میں زیادہ ویسٹ انڈین ہی یہاں آکر کھیلنے کو تیار ہوں تو پلیز اس لالی پاپ سے قوم کو نہ بہلائیں۔ چھ ان کے اور چھ ہمارے لڑکے لے کر ایک ہی بار ٹیم بنا لیں۔

ہمیں مذہبی اسکالر بتا کر جعلی ڈاکٹر کو بے انتہا مقبول کہہ کر مسلط نہ کریں۔ سانپ کے مقابلے میں ان کی زبان کا زہر زیادہ ہی نکلے گا۔ تبدیلی کے نام پر ادھر ادھر سے لوگ لا کر پرانے مشروب کو نیا نہ بتائیں۔ ہم پرانا بھی خرید لیں گے کیونکہ ہمیں عادت نہیں لت لگ چکی ہے۔ یہ گالم گلوچ، کرپشن، دھونس دھمکی یہ سب محض سیاستدانوں کی خصلت نہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی زوال کی ایک جھلک ہے۔ کتا گھر بدر ہو گیا تو اس کی بھی بریکنگ نیوز بن گئی ہے کیونکہ یہی ہماری ترجیحات بن چکی ہیں۔ کھانا کون گرم کرے گا؟ یہ آج کل سب سے گرم ایشو ہے۔

زیادہ دور نہیں وہ وقت جب ہم اپنی پیاس کا قصور بھی ہمسائے پر ہی ڈالیں گے کیونکہ وہ ڈیم بنا بنا رک نہیں رہا جبکہ ہم ابھی تک امت مسلمہ کی چیمپین شپ کی ٹرافی میں حصہ لیے جا رہے ہیں۔ قوم وہ ٹھیک راہ پر گامزن ہوتی ہے جو محنت اور تعلیم کے بل بوتے پر اپنی عزت کروانا جانتی ہو، وہ نہیں جہاں پولیس بھی چائنیز توند والے بھائی سے پٹ کر سوچ میں مبتلا ہو کہ ان پر پرچہ کریں یا نہیں؟ کیونکہ پین اور کاغذ بھی کہیں چین سے تو نہیں منگوا رہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).