کچھ بات آمریت، منڈی، غربت اور آزادی کی۔۔۔   


\"zeeshan انیس سو چوراسی کے آخر میں میخائل گورباچوف (آخری سوویت صدر) نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ یہ دورہ حیران کن حد تک دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لے آیا۔ اس دورہ کے دوران جب گورباچوف نے برطانوی شان و شوکت اور خوشحالی کا مشاہدہ کیا تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس وقت مارگریٹ تھیچر برطانوی وزیراعظم تھیں۔ گورباچوف نے تھیچر سے سوال کیا: آخر آپ کو کیسے پتا چلتا ہے کہ تمام شہریوں کو بہتر غذا مہیا ہے؟ تھیچر نے بڑا ہی ٹیکنیکل اور معاشی سائنس کی حکمت سے بھرا جواب دیا

I don’t know. Prices say it all.

(یہ کام میں نہیں کرتی، قیمتیں یعنی مارکیٹ کرتی ہے )

\"z01\"یہ اس برطانوی وزیراعظم کا جواب تھا جس کا ملک عرصہ سے خوراک کی پیداوار میں خودکفیل نہیں تھا، مگر وہاں خوراک کی کمی نہیں تھی۔ جبکہ روس جہاں انقلاب سے پہلے زراعت کی اتنی پیداوار تھی کہ نہ صرف خودکفیل تھا بلکہ سالانہ نو ملین ٹن خوراک دوسرے ملکوں کو ایکسپورٹ کرتا تھا۔ جب لوگوں سے بعد از انقلاب معاشی آزادی چھین لی گئی اور اس کی جگہ ریاستی آمریت نافذ کر دی گئی تو یکے بعد دیگرے خوراک کے بحرانوں نے روسیوں سے نہ صرف ان کا معیار زندگی چھین لیا بلکہ پے در پے قحط کے سبب جان کے لالے پڑ گئے۔ یوں اس تناظر میں تھیچر کا جواب انتہائی معنی خیز تھا۔

اسی طرح 1989 میں بورس یلسن نے امریکہ کا دورہ کیا۔ جانسن خلائی مرکز کا دورہ کرنے بعد مستقبل کا روسی صدر اچانک ایک سبزیوں کی دکان میں گھس گیا۔ وہاں اس نے لوگوں سے کافی سوالات کئے۔ امریکی لوگوں کے معیار زندگی نے اسے بہت متاثر کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایسا معیار زندگی تو Politburo (سوویت کمیونسٹ پارٹی کے پالیسی میکرز) \"z02\"کو بھی حاصل نہیں، یہاں تک کہ صدر گورباچوف بھی اپنی غذا میں اتنی چوائسز نہیں رکھتے جتنا یہاں کے ایک عام آدمی کو حاصل ہیں۔ بورس یلسن نے اپنے ساتھی روسیوں سے کہا \”اگر ہمارے لوگ امریکیوں کا معیار زندگی اور یہاں کے سپر سٹور دیکھ لیں جو (روسی عوام) ضروریات زندگی کی بنیادی چیزوں کے حصول کے لئے ایک لمبی قطار سے گزرتے ہیں تو انقلاب آ جائے \”

انیس سو تراسی میں ایک سیاح روس جاتا ہے اور وہاں وہ دیکھتا ہے کہ ایک گلی میں ایک کافی طویل قطار ہے، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ ٹماٹر کے حصول کے لئے یہاں کھڑے ہیں جبکہ دوسری گلی میں ایک اور بڑی قطار مردوں کی بنیانوں اور زیر جاموں کے لئے تھی جو تین دن تک رہی یہاں تک کہ سب \”انڈر گارمنٹس\” ختم ہو گئیں۔

\"z03\"فرق کیا تھا دونوں نظاموں کے بیچ ؟ امریکی نظام مارکیٹ پر انحصار کرتا ہے اور مارکیٹ طلب و رسد اور قیمتوں کی آزاد حرکت کا نام ہے۔ لوگ محنت کرتے ہیں، کماتے ہیں اور جو مرضی آئے خریدتے ہیں، اس میں ان کی معاشی آزادی ہے۔ سوویت نظام میں آپ ریاست کے ویسے ہی غلام ہیں جیسے دور زراعت میں آپ جاگیرداروں کے پابند تھے، آپ بغیر آمدن کے محنت کرتے ہیں بدلے میں ریاست آپ کی لباس رہائش اور خوراک کا انتظام کرتی ہے، اس میں معاشی آزادی صفر ہے، اشیاء و خدمات کے استعمال میں حق انتخاب سے آپ محروم ہیں۔ ریاست آپ کی لباس رہائش اور خوراک کا انتظام کیسے کرتی ہے آپ نے ٹماٹر اور بنیانوں کے قصے میں ملاحظہ فرمایا۔

یہاں ایک نقطہ زیر بحث لانا لازم ہے کہ طبقاتی تقسیم محض معاشی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی و سماجی بنیادوں پر بھی ہوتی ہے۔ ہر وہ چیز جو انسانوں میں مساوات کا خاتمہ کرے اور ان کی آزادیوں کو پابند سلاسل کرے وہ طبقاتی تقسیم کا سبب ہے۔ سوویت یونین میں جب مزدور قیادت (کمیونسٹ پارٹی) کی آمریت نافذ ہوئی تو خودبخود دو منفرد طبقات وجود میں آ گئے جن کی بنیاد طاقت، اختیار، اور اقتدار میں عدم مساوات تھی۔ اب سوویت پارٹی کے کرتا دھرتا کردار اور بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران بالادست طبقہ بن گئے۔ دوسری طرف زیر دست طبقہ عوام (رعایا) تھی جن کی پہلے معاشی و سیاسی آزادی سلب کی گئی اور پھر بالآخر آہستہ آہستہ باقی کی تمام آزادیوں سے بھی وہ محروم کر دیئے \"z04\"گئے۔ اسے ہمہ گیر آمریت (Totalitarianism ) کہتے ہیں۔

ایک مذہبی (تھیوکریسی) ریاست میں بھی دو طبقات وجود میں آجاتے ہیں ایک طرف بالادست مذہبی پیشوائیت ہوتی ہے اوردوسری طرف وہ گناہ گار عوام جسے بقول تھیوکریسی حق انتخاب سے محروم رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ شیطان اسے اچک لیتا ہے یوں علماء کی راہنمائی (جو حقیقتا بالادستی ہوتی ہے ) اشد ضروری ہے۔ دونوں کے کردار بھی ملتے جلتے ہیں۔ایک سوشلسٹ نظام میں ریاست کے ولن اگر سرمایہ دار ہوتے ہیں تو مذہبی ریاست میں وہ ولن شیطان ہے۔ علماء کی مذہبی ریاست میں وہی حیثیت ہوتی ہے جو سوشلسٹ ریاست میں کمیونسٹ پارٹی کے سربراہان کی ہوتی ہے۔ اور عوام جن کی آزادی سے ملا بھی ڈرتے ہیں اور سوشلسٹ ریاست کے آمر بھی کیونکہ ملا کے نزدیک ایک آزاد فرد کے حق انتخاب کو شیطان اچک لیتا ہے تو سوشلسٹ ریاست میں وہ سرمایہ داروں کے بہکاوے میں آ جاتا ہے۔ آمریت کے ہتھکھنڈوں میں دونوں کی نفسیات مشترک ہے۔ دونوں ہر حوالے سے ہمہ گیر آمریت (Totalitarianism ) کی بدترین شکلیں ہیں۔

سوشلسٹ انقلاب محض دو چار ممالک میں نہیں آیا، کل 46 سے زائد ممالک تھے جنہوں نے یہ نظام نافذ کیا۔ انجام سب کے سامنے ہے۔ ان میں سے وہ ملک جو قدرتی وسائل کی قلت کا شکار تھے وہ فورا ہی دیوالیہ ہو کر اس نظام سے نکل آئے مگر ان کی وراثتیں (پاکستان میں ضیا آمریت کی طرح ) ان معاشروں کی آزادی کے ہنوز درپے ہیں۔ وہ ممالک جو قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال تھے ان میں آہستہ آہستہ یہ نظام کمزور ہوتا گیا جس کی وجہ اس سے جنم لینے والی معاشی ابتری، سیاسی آمریت، اور ثقافتی زبوں حالی ہے۔

وینزویلا بھی ان میں سے ایک ہے۔ روس کی طرح یہ ملک بھی تیل و گیس سے مالامال ہے جس کی معیشت کا کلی دارومدار تیل و گیس کی ایکسپورٹ پر ہے۔ انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے، اس وقت وینزویلا میں شرح مہنگائی 700 فیصد سے بھی زائد ہے۔ لوگ بنیادی ضروریات تک سے محروم ہیں۔ ادویات اتنی نایاب ہیں کہ جڑی بوٹیوں کی طب دوبارہ سے استعمال میں آ رہی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کا غلبہ ہے اور سیاسی آمریت کی بدترین شکل رائج ہے۔ معیشت کا ایسا برا حال ہے کہ قوی امکان ہے ملک جلد دیوالیہ ہو جائے گا-

\"ElliotErwitt_13_Nikitaگزشتہ ماہ The Daily Beast کی رائٹر Saraí Suarez اپنے آبائی وطن وینزویلا اپنے خاندان سے ایک طویل عرصہ بعد ملنے جاتی ہیں وہ لکھتی ہیں

\”ہم ہفتوں تیاری کرتے رہے۔ ہمیں روزانہ دوستوں کے وٹس ایپ پیغامات ملتے کہ بخار کی ادویات لیتے آئیے گا، یہ آپ کو یہاں نہیں ملے گی۔ اضافی ڈائپر لیتے آئیے گا یہاں آپ کو نہیں ملے گا- اب کیوں آ رہی ہو بعد میں آ جانا اس وقت حالات بہت برے ہیں۔ مچھر دانیاں لیتی آنا کیونکہ یہاں ذیکا، ڈینگی اور chikungunya وائرس ہر طرف ہے۔میں تمہیں نہیں ڈرانا چاہتی مگر یاد سے اپنی بچی کے لئے دودھ لیتی آنا، اپنے سفر کے دوران انتہائی احتیاط کرنا اور سوشل میڈیا پر کچھ بھی شائع نہ کرنا کیونکہ یہ یہاں خطرناک ہے \”

اور جو انہوں نے مشاہدہ کیا اس کے بارے میں لکھتی ہیں \”یہاں کچھ بھی خریدنے کو دستیاب نہیں، اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تب بھی نہیں۔ دکانوں میں فوجی سپاہی گھی چینی اوراور ٹوائلٹ پیپر کے خریداروں پر ایسے نظر رکھے ہوئے ہیں جیسے یہ سونے کے سکے ہوں۔ بجلی نہیں ہے، ریفریجریٹر خراب ہو رہے ہیں۔ بجلی کی تاریں بغیر مرمت کے بکھری پڑی ہیں- کاریں گرد سے اٹی ہوئی ہیں کیونکہ اسپیئر پارٹس دستیاب نہیں کہ مرمت کروائی جائے۔ ادویات دستیاب نہیں، ہسپتالوں کا انتظام انتہائی برا ہے، پرتشدد اموات کے اعتبار سے یہ ملک سرفہرست ہے۔ برین ڈرینیج (قابل و تخلیقی ذہن کی ہجرت ) عروج پر ہے۔ ایک بدحال ملک کے پیسوں سے جگہ جگہ ہوگوشاویز کی بڑی بڑی تصویریں لگی ہوئی ہیں جس میں اس کی گھورتی آنکھیں بتاتی ہیں کہ اس کا دور کتنی بدترین آمریت تھا۔ کیوبا کے بعد یہ وہ سوشلزم تھا جو میں نے اپنے شوہر کو دکھایا (کہ دیکھ لے اور سبق حاصل کرے)

سیاسی ثقافتی اور معاشی آزادیوں سے انحراف کسی بھی ملک کو زوال کے کن گڑھوں میں دھکیل دیتا ہے اس کا مطالعہ ہم ہر سوشلسٹ ملک کو بطور کیس اسٹڈی کر سکتے ہیں۔ سوشل سائنسز کے تمام طالب علموں کو ان اہم سوالات کے جوابات ان ممالک کے مطالعہ سے لازمی مل جائیں گے کہ

– قیمتیں کیسے کام کرتی ہیں ؟

– آزاد منڈی کی معیشتوں میں قحط کیوں نہیں آتے اور سوشلسٹ معیشتوں میں کیوں آتے ہیں ؟

– حکومتی کاروباری ادارے کیوں نقصان میں جاتے ہیں جبکہ نجی ملکیت کے ادارے کیوں نہیں ؟

– معاشی آزادی کا سیاسی و ثقافتی آزادی سے کیا تعلق ہے ؟

– کیا طبقات محض معاشی اسباب سے بنتے ہیں ؟

-اور سب سے اہم یہ کہ ہماری سرگرمیوں میں incentive اور self interest کا کیا مقام ہے ؟

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
14 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments