بچوں کو “سویا ہوا محل” نامی کہانی سنانے کا وقت


بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی ’سویا ہوا محل‘ جس میں ایک خوفناک پری کی بدعا سے، ایک خوبرو شہزادی کو پورے سو سال سو کر گزارنا پڑتے ہیں، اس دوران بادشاہ، ملکہ اور دیگر کرداروں کے سونے کے ساتھ ساتھ، نہ صرف محل کا ہر کام رک جاتا ہے بلکہ ہر چیز بھی اپنی جگہ ساکت ہو کر رہ جاتی ہے۔ سچ پوچھیں تو کہانی میں شہزادے کی آمد سے شہزادی کی بیداری اور شادی کی بجائے، ہمیں ہمیشہ سوئے ہوئے محل کے تذکرے میں دلچسپی رہی۔ تب ننھا سا ذہن یہی سوچتا رہتا کہ شہزادی کے سو جانے سے بھلا پورا محل کیسے متاثر ہو سکتا ہے؟ تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ ساکت ہو کر کیسا طلسم کدہ ترتیب دیتی ہوں گی؟ پھر آہستہ آہستہ یہ بات سمجھ میں آنا شروع ہوئی کہ شہرِ طلسم میں سچے حاکمین اور کھرے منصفین کے سو جانے سے واقعی شہر، شہرِ افسوس میں تبدیل ہو جایا کرتے ہیں۔

آج رشید امجد صاحب کا افسانہ ’یہ ایک طلسم ہے‘ پڑھا تو بچپن کی یہ یاد تازہ ہو گئی۔ یہ افسانہ بھی ایک ایسے شہرِ افسوس کے بارے میں لکھا گیا ہے جہاں ہر کام مجید امجد کی نظم’ کنواں چل رہا ہے ‘کے مصداق بس چلے جا رہا ہے۔ جہاں نہ سوال کرنے کی اجازت ہے اور نہ جواب دینے کی قدرت، بس ایک دن رات کا پہیہ ہے جو گھومے جا رہا ہے۔ اس افسانے کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے جس میں رشید امجد ہمیں اس شہر کے چند آشنا اورمرکزی کرداروں سے ملواتے ہیں:

”یہ ایک ادیب ہے۔ ۔اسے مطالعے کا شوق نہیں، مشاہدہ بھی بس واجبی سا ہے، لیکن اسے زعم ہے کہ اس کی انگلیاں معاشرے کی نبض پر ہیں۔ وہ با ر بار ایک ہی کہانی مختلف انداز سے لکھے جا رہا ہے۔۔ لیکن کسی کو اس کی یکسانیت کا اندازہ نہیں۔“

”یہ ایک مورخ ہے جسے نہ اپنے ماضی کا علم ہے، نہ حال کا پتہ۔۔ لیکن اس کے باوجود وہ تاریخ لکھ رہا ہے اور اُس کے مستند ہونے کا دعویدار بھی ہے۔۔ لوگوں کو ماضی سے دلچسپی نہیں اور حال سے وہ بیگانہ ہیں، کوئی اسے جھٹلانے کی کوشش نہیں کرتا، سو وہ ایک کامیاب تاریخ دان ہے۔“

”یہ ایک قاضی ہے جو مقدمہ سن کر فیصلہ نہیں دیتا۔۔ لوگوں کا خیال ہے کہ جس دن وہ گھر سے لڑ کر نہیں آتا اُس دن اس کے فیصلے اچھے ہوتے ہیں، وہ بڑے مجرموں کو بھی چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن جس دن اُس کی اپنی بیوی سے لڑائی ہو، وہ معمولی جرم پر بھی بڑی سزا دیتا ہے۔ لوگوں کو اس پر بھی اعتراض نہیں بلکہ وہ اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ اس کی بیوی کا موڈ کس دن اچھا ہے۔“

” یہ ایک کوتوال ہے جس کا شہر پر کوئی کنٹرول نہیں، یہاں چور اچکے دندناتے پھرتے ہیں۔ کوئی واردات ہو جائے تو پہلے تو وہ وقت پر پہنچتے نہیں، اگر پہنچ بھی جائیں تو بلانے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ مجرم کی نشاندہی کرو۔ اب کوئی اپنے مقتول کا نام کیسے بتا سکتا ہے؟“

”یہ ایک استاد ہے، جس کی یاد داشت ختم ہو چکی ہے۔۔ یہ استاد نہ تو خود کچھ پڑھتا ہے اور نہ ہی اپنے شاگردوں کو پڑھنے کے لیے دیتا ہے۔۔پھر بھی وہ ایک کامیاب استاد کے طور پر جانا جاتا ہے۔۔ اس کا خیال ہے کہ نئی باتوں میں کچھ بھی نہیں رکھا۔ بس جو وہ جانتا ہے وہی سب کچھ ہے۔۔“

 ”یہ ایک طالب علم ہے، جسے علم حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اچھے مستقبل کا انحصار، علم پر نہیں گریڈ پر ہے۔ سو وہ پڑھنے سے زیادہ اپنے استاد کی خوشامد کرتا ہے۔۔ استاد جو ایک ہی سبق دہراتا رہتا ہے۔ پر وہ اپنے استاد کے عمل سے مطمئن ہے ۔۔ کہ نہ زیادہ جانو نہ مشکل میں پڑو۔۔“

”اور یہ شہر کے لوگ ہیں۔۔ وہ خواب نہیں دیکھتے۔ انھیں علم ہی نہیں کہ خواب کیا ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ جو بھی ہو وہ خاموشی سے برداشت کرتے ہیں۔ جو لوگ ان کے گھروں میں گھس کر ان کی عزتیں لوٹتے ہیں، وہ انہی کو پسند کرتے ہیں۔ ان کی یاد داشت خراب ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا۔ ہر بار جب چناﺅ کا وقت آتا ہے تو وہ پچھلی باتوں کو بھول کر نئے سرے سے انہی ظالموں کو ووٹ دیتے ہیں۔“

آخری سطور میں رشید امجد اس طلسم کدے پر ماتم کرنے کی بجائے قاری کو بتاتے ہیں کہ دراصل، ” یہ ایک طلسم ہے، جہاں سے نکلنے، یا جہاں کچھ بدلنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ کیونکہ یہاں کے لوگ ایسا کچھ چاہتے ہی نہیں!“

لیکن آپ دل پر مت لیجیے! اس کہانی کا تعلق، قطعاَ ہماری ریاست سے نہیں۔ ہمارا راوی، تو بڑی مدت ہوئی، سکھ چین کی بانسری بجاتے بجاتے، بیگ پائپر کی طرح مدھر اور پر سوز دھنیں بکھیرتے ہوئے ہمارے ضمیر کو کب کا سلا چکا ہے۔ بس ایک نفرت کا فسوں باقی ہے جو اب اِس دھن سے نکل کرآہستہ آہستہ اس شہرِ افسوس کو اپنی لپیٹ میں لیے جا رہا ہے۔ چونکہ ہمارے ادیب، دانشور، کوتوال، مورخین اور منصفین، نیز استاد اور شاگرد سبھی اپنی اپنی ذمہ داری بطریقِ احسن نبھا رہے ہیں لہٰذا حق پرستوں، غلط فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں، سچ کی آبیاری کرنے والوں اور دانشمندی کی باتیں کرنے والوں کو اس طلسم کدے میں دستورِ زباں بندی کے قواعد زبانی یاد کروائے جائیں تاکہ نفرت کے اس شاندار فسوں کو قائم رکھا جا سکے اور محبت کے میٹھے بولوں کی سازشیں اِس فسوں کو توڑنے میں کبھی بار آور نہ ہو سکیں۔

رہا سوال غربت، بے روز گاری، جہالت،  پسماندگی اورتعصب کا، قندوز میں مرتے ننھے معصوم بچوں کا، کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کا، جبری گمشدگیوں کا،  پاکستانی پرچم سے سجی گاڑی پر غصے سے چڑھے پُر تکبر چینی برادر کا، یا اسلام آباد کی سڑکوں پر ٹریفک کے سگنل کو پائمال کرتے امریکی سفارت کار کا، جس کی نخوت نے ایک انسانی جان لی ہو، ہمیں ان قصوں سے کیا مطلب؟ کہ اب ہم سچے،  جھوٹے، کھرے کھوٹے، اچھے یا برے ہر معاملے کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر جو ہوئے۔ چونکہ حادثات ا ور سانحات کو من مانی کہانیوں میں ڈھالنا اور ماضی میں دفن کر دینا اب ہمارے لیے مشکل کام نہیں رہا ہے اور باہمی نفاق و کدورتوں کے بیج اب دلوں میں بوئے ہمیں عرصہ بیت چکا ہے۔ لہٰذا من گھڑت امن اور محبت کے قصوں سے دلوں کو شاد کرتے ہوئے، آئیے! ہم’ سوئے ہوئے محل ‘کی کہانی اپنے بچوں کو سناتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).