کیا آپ دانائی کی مختلف روایتوں سے واقف ہیں؟


میں ان تمام انسانوں کو‘ جو دوسرے انسانوں سے محبت سے پیش آتے ہیں اور ان کی خدمت کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں‘ انسان دوست سمجھتا ہوں اور ان کا تہہِ دل سے احترام کرتا ہوں چاہے وہ کسی بھی مذہبی‘ روحانی‘ سیکولر یا سائنسی روایت سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں۔

جب ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی شعور کے ارتقا میں دانائی کی مختلف روایتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان مختلف روایتوں میں سے چار روایتیں بہت مقبول ہوئیں۔ ان چاروں روایتوں کا آغاز ۵۰۰ قبل مسیح کے قریب ہوا۔ میں نے ڈاکٹر بلند قبال کے ساتھ مل کر CANADA ONE TV پر ایک پروگرام IN SEARCH OF WISDOM میں ان چار روایتوں پر اردو میں سولہ پروگرام پیش کیے ہیں جو اب یو ٹیوب پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ موضوع خاصا وسیع ہے لیکن میں اس کالم میں اسے اختصار سے پیش کرنا چاہتا ہوں

دانائی کی پہلی روایت مذہبی روایت ہے۔اس روایت کا آغاز ایران کے مذہبی رہنما زرتشت نے کیا۔انہوں نے ایک خدا کا تصور پیش کیا اور اسے AHURA MAZDA کا نام دیا جو دانائی کا خدا ہے۔ زرتشت نے یہ بھی کہا کہ انہیں خدا کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔ انہوں نے خدائی پیغامات کو یکجا کیا جو اب GATHAS کہلاتے ہیں۔ زرتشت نے نیکی بدی‘ حیات بعدالموت اور جنت جہنم کے تصورات بھی پیش کیے۔ زرتشت کے اعتقادات ایران کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی مقبول ہوئے۔ ان اعتقادت کے مشرقِ وسطیٰ کے مذاہب پر‘ جن میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام شامل ہیں‘ گہرے اثرات ہیں۔ بہت سے مسلمان نہیں جانتے کہ ان کے نظریات اور زرتشت کے پیروکاروں کے اعتقادات میں کتنی مماثلت ہے۔

دانائی کی دوسری روایت روحانی روایت ہے جس کا آغاز ہندوستان میں ہوا۔ اس روایت کے رہنما بدھا اور مہاویرا ہیں۔ جو بدھ ازم اور جین ازم کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ ان روایتوں میں خالق خدا کا تو تصور نہیں ہے لیکن جسم سے جدا روح کا تصور موجود ہے۔ زرتشت کے عقیدے کے مطابق انسانی روح قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے دوبارہ ظاہر ہوگی لیکن بدھ مذہب کی روح بار بار زمین پر آتی ہے۔ بدھ کے پیروکار REINCARNATION پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ روح ہر زندگی کے دائرے میں روحانی منازل طے کرتی ہے اور جب نروان حاصل کر لیتی ہے تو زندگی کے عذاب سے نجات حاصل کر لیتی ہے اور پھر زمین پر نہیں آتی۔

دانائی کی تیسری روایت چین کی سیکولر روایت ہے جس کے بانی کنفیوشس اور لائوزو ہیں جو تائوازم کے بانی ہیں۔ اس روایت میں نہ خدا کا کوئی تصور ہے اور نہ جسم سے علیحدہ روح کا۔ اس روایت میں ہر انسان ایک بہتر انسان بننے کی کوشش کرتا ہے اور سب انسان مل کر ایک پرامن معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کنفیوشس نے انسانیت کو GOLDEN RULE کا قیمیتی تحفہ عطا کیا جو بعد میں کئی مذاہب نے اپنا لیا۔ اس سنہری اصول کے مطابق ہمیں دوسرے انسانوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں وہ ہمارے ساتھ کریں۔ لائو زو جو ایک شاعر بھی تھے فرماتے تھے کہ ہم جتنا فطرت کے قریب رہیں گے اتنا ہی ایک صحتمند اور پرامن زندگی گزار سکیں گے۔

دانائی کی چوتھی روایت سائنسی روایت ہے جس کا آغاز یونان میں ہوا۔ یونانی فلاسفروں میں بقراط ‘ سقراط ‘ افلاطون اور ارسطو بہت مشہور ہوئے۔ سقراط پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ یونانی خدائوں کو نہیں مانتے اور نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ انہیں اپنے سچ کی خاظر زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ یونانی فلاسفروں نے فلسفے اور سائنس کی روایتوں کو جنم دیا۔ بقراط نے‘ جو ایک طبیب تھے‘ یونانیوں کو بتایا کہ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے بیمار ہوتے ہیں کہ وہ صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھتے۔ بقراط نے اپنے مریضوں کو مشورہ دیا کہ وہ پانی زیادہ پیا کریں‘ روز سیر کے لیے جایا کریں‘ رات کو گہری نیند سویا کریں اور متوازن خوارک کھایا کریں۔ بقراط کو اپنے نظریات کی وجہ سے بیس سال جیل میں کاٹنے پڑے۔ جیل میں مالیخولیا کا شکار ہونے کی بجائے انہوں نے طب پر ایک کتاب لکھی جس کانام THE COMPLICATED BODY تھا جو کئی صدیوں تک بہت سی درسگاہوں کے نصاب میں شامل تھی۔ بقراط کے اصول آج بھی صحت کے کارآمد نسخے ہیں۔

یونانی فلاسفروں نے ایک مثالی ریاست کا تصور پیش کیا جو REPUBLIC کہلایا اور حصول تعلیم کے لیے ACADEMY بنائی جس کی کوکھ سے مغربی دنیا کی یونیورسٹی نے جنم لیا۔

یونانی فلاسفروں کی تخلیقات کے مسلمان فلاسفروں نے ترجمے کیے اور ساری دنیا میں متعارف کروایا۔ مسلمانوں کے سنہری دور میں مسلمان فلاسفروں نے نہ صرف فلسفے میں بلکہ طب‘ نفسیات اور سائنس کے علوم میں بھی بیش بہا اضافےکیا۔ ان فلاسفروں میں سے چند ایک کے نام الکندی‘ الرازی‘ الفارابی اور بو علی سینا ہیں۔ بو علی سینا کی کتاب THE CANNON OF MEDICINE کئی صدیوں تک مختلف درسگاہوں میں نصاب کا حصہ رہی۔

مسلمان فلاسفروں کی تعلیمات نے وہ بنیادیں فراہم کیں جن پر یورپ کے سائنسدانوں نے سائنس کی بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کیں لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں نے سائنس اور فلسفے کی تحقیقات کو خیر باد کہہ کر مذہب اور روحانیت کی تعلیمات میں پناہ ڈھونڈی۔

پچھلی چند صدیوں میں سائنس نے جو ترقی کی ہے اس میں ڈارون نے BIOLOGY کی روایت کو‘ سگمنڈ فرائڈ نے PSYCHOLOGY  کی روایت کو‘ کارل مارکس نےSOCIOLOGY  کی روایت کو اور سٹیون ہاکنگ نے COSMOLOGY کی روایت کو بڑھاوا دیا۔

ان سائنسدانوں کی تخلیقات سے پہلے انسان دوستی کی روایت مذہب کا حصہ تھی لیکن سائنس اور فلسفے کی جدید روایت کے بعد انسان دوستی کی ایک اور روایت نے ترقی کی جو SECULAR HUMANISM کی روایت کہلاتی ہے۔ اس روایت کا جمہوریت اور انسانی حقوق کی روایات سے بھی گہرا رشتہ ہے۔ اس روایت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ سیاسی ہے جس میں ایک ایسی سیکولر ریاست کا تصور ہے جس میں مذہب اور سیاست کے دائرہ کار جدا ہو جاتے ہیں۔ مغرب میں اس روایت کی عمارت SEPARATION OF CHURCH AND STATE کی بنیاد پر استوار ہے۔ اس روایت کے مطابق عقیدہ ہر انسان کا ذاتی فیصلہ ہے اور ریاست سیکولر نظریات پر قائم ہوتی ہے جس میں تمام شہریوں کو‘ جن میں عورتیں اور اقلیتیں بھی شامل ہیں‘ برابر کے حقوق اور مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ سیکولر ریاست میں گرجے کے مذہبی رہنمائوں کی بجائے عوام کے سیاسی نمائندے عوام کی خدمت کرتے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے آئین اور قوانین بناتے اور بدلتے ہیں۔

Secularism  کی اصطلاح سب سے پہلےGeorge Jacob Holyoke  نے 1846 میں اور Secular Humanism کی اصطلاح سب سے پہلے Leo Pfeffer نے 1958 میں استعمال کی جس کے بعد وہ ساری دنیا میں مقبول ہوئی۔ ہیومنزم کے پرستاروں نے 1952 میں International Humanist Ethical Union (IHEU) کی بنیاد رکھی اور ساری دنیا کے انسان دوستوں میں شرکت کی دعوت دی۔

سیکولر ہیومنزم کا خواب دنیا میں ایک منصفانہ اور پرامن معاشرہ قائم کرنا ہے۔ اس روایت کے ماننے والے کسی روایتی مذہب کے پیروکار نہیں ہیں۔ پچھلی چند صدیوں میں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے 1900 میں ساری دنیا میں ان کی تعداد ایک فی صد تھی اور 2000 میں ان کی تعداد بیس فیصد ہو گئی ہے۔ اس روایت کو چاہنے والے سب سے زیادہ سکنڈے نیوین ممالک میں ہیں جہاں ان کی تعداد 50 فی صد سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

اگر ہم اکیسویں صدی کے سات ارب لوگوں کا تجزیہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ ان میں سے چار ارب مذہبی روایت‘ دو ارب روحانی روایت اور ایک ارب ہیومنزم کی سیکولر اور سائنسی روایت کو پسند کرتے ہیں۔

ایڈورڈ سعید ہیومنزم کے فلسفے کے بارے میں فرماتے ہیں

HUMANISM IS THE ONLY—I WOULD GO SO FAR AS SAYING THE FINAL…RESISTANCE WE HAVE AGAINST THE INHUMAN PRACTICES AND INJUSTICES THAT DISFIGURE HUMAN HISTORY.

جہاں تک میری ذاتی زندگی کا تعلق ہے میری نگاہ میں وہ تمام لوگ جو انسانوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں‘ چاہے وہ کسی بھی مذہبی‘ روحانی‘ سیکولر یا سائنسی روایت سے تعلق رکھتے ہیں‘ قابلِ صد احترام ہیں۔ یہ میرا انسان دوستی کا فلسفہ ہے جو میرے چالیس سال کے نظریاتی اور تخلیقی سفر کا ماحصل ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail