ٹیکس بولے تو اٹیچ باتھ روم ؟


وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے اب تک ہونے والی ٹیکس اصلاحات میں ایک اور انقلابی اصلاح کا اضافہ کر کے ٹیکس ریٹ پینتیس فیصد سے کم کر کے پندرہ فیصد کر تو دیا ہے۔مگر اکیس کروڑ میں سے بیس کروڑ لوگوں کے لیے اس اعلان کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی اس ممکنہ خوشخبری کی کہ آج سے مرسڈیز اپنی ای سیریز گاڑیوں کی قیمت میں پچاس فیصد کی کمی کر رہی ہے۔

بیس کروڑ کے لیے ٹیکس ریٹ اگر زیرو بھی ہو جائے تو اس کی اہمیت اس سوال سے زیادہ تو نہیں جو دو ہزار بارہ میں خانہ شماری کے فارم میں تھرپارکر کے اگلو نما جھونپڑوں میں بسنے والے عوام سے پوچھا گیا تھا۔تعدادِ کنبہ ، گھر ذاتی ہے یا کرائے کا ؟ گھر میں بیڈ روم کتنے ہیں ؟ باتھ روم کچے ہیں یا پکے ؟ اٹیچ باتھ روم کتنے ہیں ؟ پہلے تو غریب تھری کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ باتھ روم کا کیا مطلب ہے، اس پر یہ بھجارت کہ اٹیچ باتھ روم کیا بلا ہے ؟

اب جس ملک میں صرف سولہ فیصد شہریوں کے بینک اکاؤنٹس ہوں، ان کے لیے ٹیکس اصلاحات ہوں تو کیا ،نہ ہوں تو کیا۔جن کے ہیں انھوں نے کونسا دینا ہے، جن کے نہیں ہیں ان سے کون اور کیا لے سکتا ہے۔

 آج بھی سرکاری پالیسی ساز بابو قائل ہیں کہ دو بڑوں اور دو بچوں پر مشتمل ایک اوسط خاندان فی زمانہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ میں گذارہ کرسکتا ہے۔اسی لیے کم ازکم تنخواہ کی  قانونی حد پندرہ ہزار روپے ہے اور اس کا اطلاق بظاہر تمام سرکاری و نجی اداروں کے کارکنوں پر ہوتا ہے ؟

میں کوئی سرکاری کارندہ نہیں ہوں پھر بھی دخل درمعقولات کے قومی جذبے کے تحت محسوس کرتا ہوں کہ ایک چار رکنی خاندان کے لیے حکومت کی مقرر کردہ پندرہ ہزار روپے کی کم ازکم قانونی اجرت مہینے بھر زندہ رہنے کے لیے اچھی خاصی رقم ہے جس کے ساتھ آئین کے تحت وعدہ کردہ باعزت زندگی گذاری جاسکتی ہے۔

ویسے بھی رازق اﷲ تعالی ہے اس لیے بنیادی ضروریات کا معاملہ غریب اور خدا کا باہمی معاملہ ہے۔  حکومت کو اس دوطرفہ معاملے میں خامخواہ گھسیٹنا مناسب بات نہیں۔اسے اور بہت سے ضروری کام کرنے ہوتے ہیں اور یہ کوئی غیر حکومتیں تو ہیں نہیں۔آٹھ سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ میں گذارہ کرنے والے کروڑوں کنگلے بھی تو آخر ان سرکاروں کو منتخب یا نامزد کرنے میں ملوث ہوتے ہیں۔ وہ کچھ سوچ اور دیکھ کر ہی ووٹ دیتے ہیں۔

میں اس کج بحثی میں نہیں پڑنا چاہتا کہ چار رکنی خاندان کو باعزت جینے کے لیے ماہانہ کم ازکم کتنے، اتنے، وتنے پیسے چاہئیں۔ پیسے جتنے بھی ہوں کم ہی لگتے ہیں اور پیسہ تو ویسے بھی ہاتھ کا میل ہے۔ غریب کو جتنے زیادہ پیسے ملیں گے اس کے ہاتھ اتنے ہی میلے ہوں گے اور یہ تو ہر امیر غریب جانتا ہے کہ میلے ہاتھ جراثیم کا گھر ہوتے ہیں۔ غریبوں کو پیسہ دانت سے پکڑنے کے بجائے یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ جتنے بھی میسر ہوں ان پر قناعت کیسے کی جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ غریبوں کو پرسکون رہنے کے لیے اوپر نہیں نیچے دیکھنا چاہیے۔میرے ایک تاجر دوست  کا کہنا ہے کہ یار مجھے سخت کوفت ہوتی ہے جب کسی غریب کو برگر کھاتے دیکھتا ہوں۔چل اب تو نے موج میں آ کر عیاشی کر ہی لی ہے تو پھر برگر ہضم کرنے کے لیے پیدل گھر جا۔مگر نہیں صاحب ! وہ ویگن اور قنچی میں بیٹھ کر مزید بیس روپے ضایع کرے گا اور گالیاں امیروں اور حکومت کو دے گا۔

ویسے بھی بنیادی خوراک کے لیے آخر کتنے پیسے  چاہییں ؟اسی دنیا کے اربوں درند چرند پرند اپنی خوراک پر آخر کتنے پیسے خرچ کرتے ہیں ؟ کیا آپ نے گھوڑے کو چائے پیتے اور وہ بھی میٹھی چائے، بلی کو تندور سے روٹی خریدتے،کنکھجورے کو مہنگے ٹماٹر کا بھاؤ تاؤ کرتے، اژدھے کو فروٹ کھاتے ، مگر مچھ کو گھی یا تیل کا ڈبہ پکڑے، ریچھ کو آٹے کی قطار میں لگتے یا لومڑی کو روٹی پکانے کے لیے گیس کا انتظار کرتے یا گائے کو اپنے بچھڑے کو ٹیٹرا پیک دودھ پلاتے کبھی دیکھا ؟

کتنے طوطوں کو آپ نے ملازمت کی درخواست کے ساتھ پکڑا ہے۔کتنی شیرنیاں اپنے شوہروں کو طعنے دیتی پائی گئی ہیں کہ آخر تو گھر میں پڑا پڑا سارا دن کیا کرتا رہتا ہے کوئی ڈھنگ کی نوکری کے لیے کسی سفید ہاتھی کی سفارش کیوں نہیں ڈھونڈتا۔پڑوس کے چیتے کے ہاں تو شکار کا گوشت رکھنے کے لیے فریج بھی آ گیا اور تیرے پاس جنگل کے حالات جاننے کے لیے موا ٹی وی چھوڑ ایک گھٹیا موبائل فون تک نہیں ؟ آیا کہیں کا بادشاہ سلامت۔

غریب اگر تیری میری ٹوہ لینے اور کڑھنے میں وقت لگانے کے بجائے درندوں چرندوں پرندوں کے سادہ و باوقار طرزِ حیات پر ہی غور فرما لے تو اس کی آدھی سے زیادہ پریشانیاں اس سمیت ویسے ہی ختم ہوجائیں۔

لو جی غریب کو سر پر چھت چاہیے۔ذرا غاروں میں رہنے والے کے نخرے تو ملاحظہ فرمائیے۔سچ ہے انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔اور تو اور بنیادی ضرورت کے بہانے کپڑے بھی چاہئیں اور ایک نہیں سال میں کم ازکم دو دو جوڑے چاہئیں اور وہ بھی ریڈی میڈ یا درزی کے سلے ہوں تو اور اچھا۔ ان کور چشموں کو اب نہ تو کیلے کے پتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی انجیر کا پتا ( انگریزی میں فگ لیف کہتے ہیں) ٹپائی دیتا ہے۔ہر سال لاکھوں جانوروں کی قربانی ہوتی ہے۔مگر غریب گوشت کے پیچھے دوڑتا پھرے گا ، جانور کی کھال لے کر اونے پونے بیچ دے گا لیکن آبا و اجداد کی روایت میں کھال سے ستر پوشی کی کبھی نہیں سوچے گا۔نا شکری اور کیا ہوتی ہے ؟

میں جب غریبوں کے کسی مجمعے کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف ٹائر جلاتے دیکھتا ہوں تو نادانوں پر اور بھی افسوس ہوتا ہے۔جب سے بجلی کی علت آئی ہے اس نے غریبوں کا دماغ اور خراب کردیا ہے۔ارے بھائی تیرے بزرگ لاکھوں برس سے بغیر بجلی کے خوش تھے کہ نہیں ؟ وہ سورج کے ساتھ اٹھتے اور سورج کے ساتھ ہی سوتے تھے۔لکڑیاں جمع کرکے الاؤ روشن کرلیا اور اسی پر شکار کا مفت اور خالص گوشت بھی بھون لیا۔کیا ارسطو بجلی کے کنکشن کے لیے کبھی پریشان رہا ؟ کیا سکندر کی میز پر ٹیبل لیمپ بھی تھا ؟کیا محمد بن قاسم سندھ آتے وقت اونٹ پر جنریٹر رکھوا کے لایا تھا۔

کیا شیکسپئیر نے اپنے ڈرامے اے سی میں بیٹھ کر لکھے۔کیا اکبرِ اعظم نے انارکلی کو سبق سکھانے کے لیے بجلی کے جھٹکے تجویز کیے ؟ جناح صاحب نے کیا ٹیوب لائٹ کی چاندنی میں میٹرک کیا ؟ غریب آخر کیوں یہ سامنے کی بات نہیں سمجھتا کہ یہ دراصل تھامس ایڈیسن نامی کسی امریکی کنگلے کا معاشرے سے انتقام ہے۔خود تو زندگی بھر موم بتی پے گذارہ کرتا رہا اور اگلی نسلوں کو بلب کی لعنت تھما گیا۔اور اب اتنے دماغ خراب ہوگئے ہیں کہ ہر انگلا کنگلا بجلی کی مسلسل فراہمی کو اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگا ہے۔یار کچھ تو خدا کا خوف کرو۔تم تو ایسی ایسی چیزوں کی فرمائش کررہے ہو جو خلیفہ ہارون رشید سے نپولین تک کسی کو میسر نہیں تھیں۔

اوہو!صحت کی سہولتیں بھی چاہئیں ہمارے لاڈلے غریب کو۔فطرت نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ان کا علاج بھی جڑی بوٹیوں کی شکل میں دے دیا۔بلی تک جانتی ہے کہ ہاضمہ خراب ہو تو کون سی گھاس مفید ہے۔اب آپ اپنے دماغ کو ہی زحمت نہ دیں تو اوپر والا بھی کیا کرے۔

اور جناب اب تو تعلیم بھی غریب کی بنیادی ضرورت ہوگئی۔کیا واقعی غریبوں کو نہیں لگتا کہ ان کی سب سے بڑی دشمن تعلیم ہے۔چلو یہ بتاؤ کہ اس دنیا کو ان پڑھ زیادہ لوٹ رہے ہیں یا پڑھے لکھے ؟ کیا ایٹم بم بنانے والا اور پھر اسے جاپان پر گروانے والا انگوٹھا چھاپ تھا ؟ یہ ملک اب جہاں تک آن پہنچا اس میں ان کروڑوں بچوں کا کتنا ہاتھ ہے جو اسکول کو سڑک پر کھڑے کھڑے تکتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ تعلیم گستاخ بناتی ہے۔ اچھے بھلے چلتے نظام میں کیڑے نکالنا سکھاتی ہے۔ بہتر سے بہتر روزگار کے لالچ پر اکساتی ہے۔تعلیم انسان کو بے سکون کر دیتی ہے۔اے غریبو! اس ناخواندگی وجہالت کو نعمت جانو۔ تمہاری زندگی میں اور عذاب کم ہیں جو اپنے معصوموں کو تعلیم یافتہ بنانے کا ٹنٹہ بھی پالنا چاہتے ہو۔

کاش غریب جان سکیں کہ امرا پیسے کے ہاتھوں کیسے کیسے عذاب میں ہیں۔اوپر سے ٹیکس کی دھمکی……

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).