داعش اور افغان طالبان کے درمیان خون ریزی کا امریکی منصوبہ


وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ کابل کو اس نظر سے دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک ایسے حل کی جانب افغانستان کو گامزن دیکھنا چاہتا ہے جس میں افغانستان میں داخلی استحکام کا مقصد حاصل کر سکیں کیونکہ افغانستان کی بد امنی سے پاکستان کا متاثر ہونا لازم و ملزوم بن چکا ہے۔ لیکن پاکستان اور اور افغانستان کے مابین اختلافات کی ایک تاریخ ہے جو کہ تلخ ہے جب تک ان معاملات کو حل نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک پاکستان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ افغانستان کے حالات سے کبوتر کی مانند آنکھیں بند کر لے۔

افغانستان آج بھی ڈیورنڈ لائن کو حقیقی بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں۔ اور یہ معاملہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے دن سے آج تک تلخی کا ایک سبب بنا ہوا ہے۔ اور درحقیقت تمام تلخیوں کی ماں یہی تلخی ہے۔ پھر جب افغانستان میں سوویت روس کی جانب سے براہ راست مداخلت ہوئی تو اس وقت امریکہ اور سعودی عرب نے ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا دیا۔ آج سعودی عرب اور پاکستان تو اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ اس وقت جو اقدامات اٹھائے گئے ان سے فوائد کی بجائے نقصانات کے ڈھیر لگ گئے مگر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک یہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کے تصور کے مطابق اس وقت جو حکمت عملی پاکستان اور سعودی عرب نے اختیار کی تھی وہ درست تھی اور روس کے سرخ انقلاب کو ماضی بنا دینے کے لئے نہایت مناسب۔

ان کا اختلاف یہ ہے کہ سوویت روس کی شکست کے بعد پاکستان نے پولیٹکل انجینئرنگ شروع کر دی اور ایسے لوگوں کو سامنے لے آئے جو مغرب کے لئے ایک مصیبت بن گئے۔ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ سوویت روس کے افغانستان سے واپس جانے کے بعد امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں اب پاکستان کو تن تنہا حالات کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس لئے جب امریکہ ساتھ ہی کھڑا نہیں رہا تو پاکستان نے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔

تازہ ترین حالات یہ ہیں کہ گذشتہ افغان صدارتی انتخابات میں پاکستان نہ صرف غیر جانبدار رہا بلکہ اپنی غیر جانبداری ثابت بھی کی۔ کہ ہمارا کوئی فیورٹ نہیں۔ اشرف غنی شروع میں نسبتاً اپنے پیش رو سے بہتر بھی رہے لیکن پھر داخلی دباؤ میں آ کر نئی دہلی کی زبان بولنے لگے۔ اور ہر ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے لگے۔ حالانکہ طالبان کی موجودگی اور کامیابیاں صرف افغانستان کے ان علاقوں تک محدود نہیں ہیں جو کہ پاکستان کے ساتھ متصل ہیں۔ مثلاً وسطی افغانستان نہ تو پاکستانی سرحد کے ساتھ ہے اور نہ ہی وہاں پاکستان کا اثر و رسوخ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن طالبان پھر بھی قندوز پر قابض ہو گئے تھے۔

شمالی افغانستان کا معاملہ بھی بالکل اسی کی مانند ہے۔ وہاں پر بے چینی کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ وہاں کے پختون عوام یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی افسر شاہی اور فوج میں ان کی نمائندگی جان بوجھ کر ان کی آبادی میں تناسب کے حساب سے نہیں ہے۔ جذبات تو بھڑکیں گے۔ بہرحال کچھ عرصہ قبل افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو براہ راست مذاکرات اور ایک سیاسی گروہ کے طور پر تسلیم کرنے کی پیشکش کی گئی طالبان نے اپنا مؤقف وہی رکھا ہوا ہے کہ وہ امریکہ سے براہ راست مذاکرات کر سکتے ہیں کیونکہ موجودہ افغان حکومت کے پیچھے اصل چہرہ امریکہ کا ہی ہے۔ لیکن طالبان کے لئے یہ بھی پریشانی کا باعث ہے کہ داعش کی افغانستان میں موجودگی بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کو امریکہ کی حمایت اور حکمت عملی تصور کیا جا رہا ہے۔ کہ وہ داعش اور افغان طالبان میں تصادم کروانا چاہتے ہیں۔ اس لئے طالبان کے پاس بھی کوئی بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔

ان حالات میں جب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کابل میں اترنے کی تیاری کر رہے تھے تو اس سے ایک دن قبل افغانستان سرکاری طور پر یہ الزام عائد کر رہا تھا کہ پاکستان کی فضائیہ نے افغان صوبے کنڑ پر بمباری کی ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کی فوراً تردید کر دی اور واضح کیا کہ پاکستان فضائیہ نے باجوڑ کے پاکستانی علاقے پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا۔ اور افغانستان کی سرزمین پر ایسا کوئی حملہ نہیں ہوا۔ اسی ایک واقعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وزیر اعظم پاکستان کا دورہ افغانستان کتنی تلخی اور بدگمانیوں کے درمیان ہوا۔

بہرحال صدر اشرف غنی نے اور بعد میں چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے وزیر اعظم عباسی سے مذاکرات کیے۔ وزیر اعظم عباسی نے جہاں اس دورے میں افغان حکام سے دہشت گردی کے مسائل پر بات کی اور پاکستان کو افغانستان میں مقیم دہشت گردوں کے خطرے پر اپنا مؤقف دہرایا وہیں پر انہوں نے افغانستان، پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سولیڈیریٹی کی بھی حمایت کی اور ایسے افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی بھی حمایت کی۔ جو افغانستان کی حکومت کی سربراہی میں ہو اور افغانستان ہی کی طرف سے ہو۔

وسطی ایشیاء سے توانائی کا پاکستان تک پہنچنا افغانستان سے ہی ممکن ہے جس کے لئے تاپی گیس پائپ لائن پر کام شروع ہو چکا ہے۔ اور اس پر وہاں گفتگو بھی رہی۔ وسطی ایشیاء اور افغانستان سے اور وہاں کی عوام سے مزید قریبی تعلق کی خاطر آمدورفت کو بہتر کرنے کی غرض سے ذرائع آمدورفت کو بہتر کرنے کی حکمت عملی واضح کر دی گئی۔ جن میں کوئٹہ، قندھار، ہرات، پشاور، جلال آباد، ریل روڈ پروجیکٹ جبکہ پشاور جلال آباد ہائی وے کی تعمیر شامل ہے۔ سرحد کی خلاف ورزیوں اور پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی اور اس پر ٹائم فریم کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔

ویسے بھی افغان حکومت اس پر ایسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی جو کرنی چاہیے اور یہ پاکستان کے لئے تکلیف دہ بن چکا ہے۔ افغانستان میں موجود دیگر سیاسی قیادت جیسے گلبدین حکمت یار، استاد محقق، استاد کریم خلیلی، پیر سید حامد گیلانی جیسے رہنماؤں سے خیر سگالی کے طور پر ملاقاتیں بھی کیں اور افغان عوام کو چالیس ہزار ٹن گندم اور ایڈیشنل ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے کا تحفہ بھی پیش کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام کے باوجود پاکستان افغانستان سوچ کے حساب سے بہت دور ہے۔ اور اگر داعش اور افغان طالبان کے درمیان کوئی خون ریزی کا دور چل نکلا تو اس کے اثرات سے افغانستان، پاکستان اور پورا خطہ بری طرح متاثر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).