عاشق نوجوان، ہندو لڑکی، گمراہ مولوی اور مجبور باپ


میں نے اپنی بیٹیوں اور بیٹے کو پڑھنے میں لگا دیا تھا۔ بہت محنت کی تھی ان کی ماں نے ان کے پیچھے۔ بنگلہ دیش میں سب کچھ لُٹ گیا تھا ہمارا اورہمارے جیسے لوگوں کا۔ میں شاید قسمت کا دھنی تھا۔ شاید میری قتل ہونے والی بہنوں کی دعائیں تھیں میرے ساتھ کہ محنت کرنے کا موقع مل گیا اورمحنت سے کھوئی دولت بھی واپس آگئی مگر کئی خاندان توایسے تباہ ہوئے کہ آج تک اس تباہی سے باہر نہیں نکل سکے ہیں ۔ میں نے سوچا تھا کہ میں اپنے بچوں کوپڑھاﺅں گا۔ اتنا پڑھاﺅں گا کہ کل اگر دوبارہ وہی سب کچھ پاکستان میں ہُوا جو بنگلہ دیش میں ہُوا تھا تو انہیں سنبھلنے کے لیے وہ سب کچھ نہیں کرنا پڑے جومجھے کرنا پڑا ہے۔ دولت تو چلی جاتی ہے، تعلیم نہیں جاتی ہ۔ دولت تولوٹی جاسکتی ہے ہنر کوئی نہیں لوٹ سکتا۔ سیٹھ تو کنگال ہوسکتا ہے مگرپڑھا لکھا آدمی کنگال نہیں ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے، جیسے کچھ کہنے کے لیے صحیح الفاظ کا چناﺅ کرنا چاہ رہے ہیں ۔ ان کے چہرے پر ایک عجیب قسم کا تناﺅ تھا۔

میرے کچھ کہنے سے قبل ہی انہوں نے کہنا شروع کردیا تھا،مگر شاید مجھ سے غلطی ہوگئی۔ تعلیم کے باوجود جو کچھ ہُوا وہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ میرا بیٹا بالکل ٹھیک ٹھاک تھا، اسے میں نے کاروبار بھی سکھایا اورتعلیم بھی دلائی، یہ کام بھی صحیح کرتا تھا مگر نہ جانے کیوں ، کیسے یہ سب کچھ ہوگیا۔ میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی اس طرح سے دھوکہ کرے گی میرے ساتھ اور میرے خاندان کے ساتھ ان کی آنکھیں جھلملاگئیں اور آواز بھرّاسی گئی۔

میرا بیٹا ایک شریف آدمی تھا، میری آنکھوں کے سامنے بڑا ہُوا تھا، بظاہر کوئی خرابی نہیں تھی اس میں ۔ محنتی تھا، کام کرتا تھا، اسکول،کالج، یونیورسٹی میں پڑھا تھا اس نے۔ علاقے کی مسجد میں نماز پڑھتا تھا، روزے رکھتا تھا، سارے دوست اس کے مذہبی تھے، میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اسے ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کوئی ضرورت نہیں تھی، خاندان میں خاندان کے باہر، دوستوں میں رشتہ دار میں خود ہمارے محلے میں بہت ساری خوبصورت لڑکیاں تھیں ۔ ہم لوگ کھاتے پیتے لوگ تھے، کچھ کمی نہیں تھی جس سے چاہتا اس سے شادی ہوجاتی اس کی مگروہ ایک ہندو لڑکی پرعاشق ہوگیا۔ میں نے، اس کی ماں نے، اس کی بہنوں نے کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا ہوجائے گا اور اس طرح سے ہوجائے گا۔

شروع میں تو میں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی، ایسا ہوجاتا ہے آپ کسی کو پسند کرلیتے ہیں ۔ چاہتے ہیں کہ اس سے آپ کی شادی ہوجائے وہ آپ کو مل جائے مگرزندگی میں وہ سب کچھ تو نہیں ہوتا ہے جوآپ چاہتے ہیں ۔ سب کچھ توآپ کونہیں ملتا ہے، جس کی آپ تمنا کرتے ہیں ،پھرآپ صبر کرلیتے ہیں ، بھول جاتے ہیں ، خاص طورپر ایسے حالات میں جب ساری محبت یکطرفہ ہو۔ جب مذہب، ذات، فرقے کا فرق ہو۔

ایک دن میں نے اسے سمجھایا تھا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اوروہ ایک شریف ہندو گھرانے کی شریف سی ہندولڑکی ہے جوتم سے شادی کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتی ہے کیوں کہ اس کے والدین کبھی بھی راضی نہیں ہوں گے، پھر سب سے بڑی بات یہ تھی کہ للیتا نے تم سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اسے تم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے پھر تم ایسی ضد کیوں کررہے ہو جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے اوراس کی ماں نے بہت سمجھایا تھا اسے۔ اس کی ماں تو رودی تھی اس کے سامنے۔

میں اسے مسلمان بناﺅں گا، وہ میری بیوی بنے گی، میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ہوں ۔ اس نے بار بار اپنی ماں سے یہی کہا تھا۔ وہ یہ بات سمجھنا ہی نہیں چاہ رہا تھا کہ للیتا اورللیتا کے خاندان کواس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ ہندو لوگ تھے اورہندو رہ کر اپنے ہی طریقے سے زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ وہ لوگ کراچی کے پرانے سندھی تھے۔ کھاتے پیتے خوشحال بیوپاری اوراپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ۔ بلاشبہ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی، میرے بیٹے کو اچھی لگی ہوگی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ وہ اسے اغوا کرلیتا۔ ہاں ڈاکٹر صاحب اس نے اسے اغوا کرلیا تھا۔ اپنے دوستوں کی مدد سے، اُس نے اسے کالج سے گھر آتے ہوئے زبردستی راستے میں پکڑ کر اپنی گاڑی میں ڈال کر اغوا کرلیا تھا۔

مجھے بعد میں پتا چلا کہ اس نے پیسے خرچ کیے تھے، اس کے اغواءپر وہ چیخی تھی، چلائی تھی مگر اسلحہ کے زور پر وہ سب کچھ ہوگیا جوکراچی میں ہوتا رہتا ہے، جو سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں ، قصبوں میں ہورہا ہے، ہرکوئی دیکھ رہا ہے، سمجھ رہا ہے پھر بھی ہم سب دیکھتے رہتے ہیں ، کچھ نہیں کہتے کیوں کہ ہم میں نہ تو اخلاقی ہمت ہے اور نہ جرات ہے اور شاید اسے برا بھی نہیں سمجھتے ہیں ، اس وقت تک جب تک یہ ہمارے اپنے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔ کچھ نہ کہنا، کچھ نہیں کرنا ایک طرح سے حمایت ہی تو ہے، اس ظلم وجبرکی۔

میں نہیں سوچا تھا کہ کہانی اتنی پیچیدہ ہوگی اوربظاہر مولوی ٹائپ کا یہ آدمی اس طرح کی بات کرے گا۔ کوئی بھی اپنے بیٹے کوبرا نہیں کہتا ہے۔ برا نہیں سمجھتا ہے، خاص طور پر ایسے معاملے میں جب مذہب کا نام لیا جاتا ہے جب معاملہ ہندو مسلمان کے درمیان کا ہو۔ مسلمان کیسے غلط ہوسکتا ہے، یہ تو ممکن ہی نہیں تھا۔

مجھے تو بہت بعد میں پتا چلا جب للیتا کے باپ کی تصویر اخبار میں چھپی تھی اس کا بیان تھا کہ اس کی بیٹی کو اغوا کرلیا گیا ہے۔ میرے بیٹے کا نام تھا کہ اس نے اغوا کیا ہے اوراسے مسلمان بنا کر اس سے شادی کرلی ہے۔ یہ سب کچھ ایک عالم کے ہاتھوں ہُواتھا۔ بڑے منظم طریقے سے، ایک بڑے سے مدرسے میں یہ جہاد کیا گیا تھا، ایک نہتی، معصوم، نوعمر ہندو لڑکی کے خلاف۔ میرا بیٹا اتنا گھٹیا ہوجائے گا یہ میرے تصور میں بھی نہیں تھا۔

چھ مہینے تک کچھ بھی نہیں ہُوا۔ للیتا کا باپ پولیس اسٹیشن، اعلیٰ افسروں کے دفتروں کے چکرکاٹتا رہا۔ پریس کلب میں ہندوپنچایت والے پریس کانفرنس کرتے رہے۔ کچھ بھی نہیں ہُوا۔ میرے بیٹے اور اس مولوی کا وکیل بہت بڑا وکیل تھا۔ اس کی گرفتاری سے پہلے ضمانت پر ضمانت ہوتی رہی۔ وکیل نے کچھ ایسا چکر ڈال دیا تھا کہ پولیس والے جانتے بوجھتے ہوئے بھی للیتا کوبازیاب نہیں کرسکتے تھے، وہ دونوں ایک محفوظ جگہ پر رہ رہے تھے۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں مذہبی بنیاد پر بے بس لڑکی اغوا ہوجاتی ہے، رویوں سے خریدا ہُوا وکیل قانون سے کھیلتا ہے اور جج انصاف مہیا کرنے میں بے بس ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4