عاشق نوجوان، ہندو لڑکی، گمراہ مولوی اور مجبور باپ


میں یہ اچھی طرح سے سمجھ رہا تھا للیتا نہ مسلمان ہوئی ہے اورنہ ہی سلمان کواپنا شوہر سمجھتی ہے۔ وہ ایک مسلمان، ایک بیوی کی اداکاری کررہی تھی۔ اس نے اپنے خاندان کوبچانے کے لیے اپنے آپ کوقربان کردیا تھا۔ میں اس کی ہراساں آنکھوں میں پڑھ رہا تھا کہ وہ صرف موقع کے انتظار میں ہے۔ میں اس کی مدد کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اس کی زندگی اور اس کی بحالی میں ہی ہم سب کی بحالی تھی۔ مجھے پتا تھا کہ سلمان بھی یہ سمجھتا ہے کہ للیتا کوحاصل کرکے بھی وہ اسے حاصل نہیں کرسکا ہے، یہی وجہ تھی کہ اس کا رویہ جارحانہ ہوگیا تھا۔ وہ اپنے تنگ نظر مذہبی دوستوں اوررہنماﺅں کے ساتھ رہ کر بدل گیا تھا۔ اپنے آپ کوہی صحیح سمجھنا اور اپنی ہی انا کی تسکین کے لیے کچھ بھی کرگزرنا، اس سے بڑی اور خراب بیماری کوئی نہیں ہے۔

میں ہمیشہ گہری اور اچھی نیند سوتا ہوں ، مگر نہ جانے کیوں اس رات کیسے میری آنکھ کھل گئی تھی۔ میں اپنے کمرے سے اٹھ کر فریج سے پانی لینے کے لیے جارہا تھا کہ میں نے للیتا کو دیکھا وہ اپنی بچی اورمیری پوتی کوہاتھوں میں سنبھالے کھلے ہوئے دروازے سے باہر نکل رہی تھی۔ پتا نہیں کیوں میں سمجھ گیا تھا کہ وہ میرا گھر چھوڑ کرجانے کی کوشش کررہی ہے۔ میں دبے پاﺅں کوئی آواز نکالے بغیر اس کے پیچھے گیا، میرے منہ سے صرف یہی نکلا تھا کہ بیٹی جہاں جانا ہے چلی جاﺅ۔ میں نے پہلی اورآخری دفعہ اسے گلے لگایا، اپنی پوتی کوشاید آخری دفعہ چوما تھا اس امید کے ساتھ کہ وہ جہاں رہے خوش رہے اور شاید میں اسے زندگی میں پھر کبھی نہ دیکھ سکوں ۔

للیتا نے بھی میرے ہاتھوں کوزور سے پکڑلیا تھا، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، مجھے نہیں پتا ہے اورشاید کبھی پتا نہیں چلے کہ میرے گھر کے گیٹ سے باہر وہ رکشہ کیسے اورکب سے کھڑا تھا۔ وہ بڑی تیزی سے بچی کولے کر رکشے میں بیٹھ گئی تھی۔

میں گیٹ کوبند کیے بغیر خاموشی سے اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا اوریہی سوچتا اور دعا کرتا رہا تھا کہ للیتا نکل جائے،کوئی اسے روکے نہیں ۔ ساتھ ہی مجھے پتا تھا کہ اب ایک بار پھر ایک اورقانونی اورمذہبی جنگ شروع ہوجائے گی۔ صبح ہوئی تو گھر میں وہی کچھ ہُوا جس کی امید تھی۔ شورشرابہ، غصّہ اوربہت سے مولوی حضرات کی آمد، میں نے ہمیشہ کی طرح دوبارہ سے اپنے آپ کوعلیحدہ رکھا تھا اور آنے والے طوفان کا منتظر تھا۔

مگرکچھ نہیں ہُوا۔ سوائے اس کے کہ اسی دن للیتا کے باپ کے گھر پر پولیس کا چھاپہ پڑا اوروہ کچھ بھی برآمد نہیں کرسکے، للیتا وہاں نہیں تھی۔

دس دن کے بعد للیتا کے باپ نے تھانے سے اپنی شکایت واپس لے لی اور عدالتوں سے اپنا مقدمہ ختم کرنے کی درخواست دے دی۔ مجھے اطمینان سا ہوگیا تھا کہ للیتا محفوظ ہے۔

ایک دن وہ میرے پاس دوپہر کو میرے آفس آگیا تھا، غصّہ اس کے چہرے پر تھا، آنکھوں میں جیسے چنگاریاں بھری ہوئی تھیں ۔ اس کے ساتھ دو دوسرے نوجوان تھے۔ ان کا اندازِ گفتگو بتارہا تھا کہ وہ سب ایک ہی سوچ رکھتے ہیں ۔ انہیں خوشی تھی کہ انہوں نے ایک ہندو لڑکی کو مسلمان بنالیا تھا۔ ہم اسے بازیاب کریں گے اور واپس گھر لے کر آئیں گے۔ سمجھا کیا ہے ان ہندوﺅں نے وہ مسلمان ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ بڑے زور زور سے کہا تھا ان لوگوں نے۔

میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی، دیکھو وہ اپنی مرضی سے تمہیں چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ وہ تمہیں اپنا شوہر نہیں سمجھتی ہے اور اس وقت نہ جانے کہاں ہوگی۔ شاید بھارت چلی گئی ہے۔ جو ہوگیا صحیح یا غلط اس کا مداوا ممکن نہیں ہے، اب آگے بڑھنے کا وقت ہے۔

مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی تھی، میرا دِل جیسے بیٹھ گیا۔ یہ کون لوگ تھے میں مذہبی آدمی ہوں ، اﷲ پر یقین رکھتا ہوں ، مسلمان ہوں ۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں کسی سے زبردستی کروں اور زبردستی بھی ایسی…….. مجھے پہلی دفعہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر گھِن سی آئی۔

وہ لوگ مجھ سے بے کار کی بحث کرکے چلے گئے۔ اسی شام کوایک آدمی بمل کمار کا ایک خط میرے بیٹے کے نام دے کرگیا۔ لفافہ بند تھا، میں نے اسے کھولنا مناسب نہیں سمجھا اور گھر آکر اسے اپنے کمرے میں بلا کر لفافہ اسے دے دیا۔

اس نے خط کھولا، کھول کر پڑھا، دوبارہ پڑھا اور زور زور سے رونے لگا۔ خط اس کے ہاتھ میں تھا۔

میں نے کچھ نہیں کہا۔ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ دِل تو میرا چاہ رہا تھا کہ اسے گلے سے لگالوں ، کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر تسلی دوں مگر نہ جانے کیوں میں ایسا کر نہیں سکا، شاید میرے اندر اس کے خلاف غصّہ تھا پھر بھی میں نے اس کا ہاتھ پکرلیا تھا۔

آہستہ آہستہ اس کی ہچکیاں رُک گئی تھیں اور وہ خاموشی سے دیوار کو تَک رہا تھا۔ میں نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو اس نے بمل کمار کا خط مجھے تھما دیا۔

بیٹے ہمیشہ خوش رہو۔

تمہیں میں بتانا چاہتا ہوں کہ للیتا ہندوستان چلی گئی ہے، جہاں اس کی ماسی نے اس کا رشتہ بھی طے کردیا ہے۔ اب وہ کبھی بھی اپنے پرکھوں کے دیس سندھ پاکستان نہیں آئے گی۔ اس کے ہونے والے شوہر اور ان کے پریوار نے اسے بچی سمیت قبول کرلیا ہے۔ میں پرارتھنا کرتا ہوں ، تم بھی دُعا کروکہ وہ ہمیشہ خوش رہے،میں چاہتا ہوں کہ تم بھی خوش رہو۔

مجھے اور میرے پورے خاندان کو تم سے بڑی شکایت ہے، میری بیوی نہ جانے تمہارے بارے میں کیا کیا کہتی رہتی ہے اور نہ جانے کون کون سی بددُعائیں دیتی رہتی ہے۔ میں صرف دُعا کرتا ہوں کہ وقت کے ساتھ اس کے زخم بھرجائیں اور وہ بھی سب کچھ بھول جائے۔ میرے گھر والے کہتے ہیں کہ تم نے ناقابلِ معافی جرم کیا ہے، تم نے ہمارے خاندان کا سُکھ چین سکون سب کچھ چھین لیا۔ تم نے میری معصوم بچی کے ساتھ جوکچھ کیا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔ میں گزشتہ کئی مہینوں سے اسی بارے میں سوچتا رہا ہوں ، راتوں کو جاگتا رہا ہوں ، اپنے اندر جلتا رہا ہوں لیکن میں نے اپنی بیوی بچوں کو کہہ دیا ہے کہ میں نے تمہیں معاف کردیا ہے۔

میرے خیال میں معاف کرنا تو وہی ہوتا ہے جب ناقابل معافی کو بھی معاف کردیا جائے۔ خوش رہو بیٹا۔

                بمل رائے

خط میرے ہاتھوں میں کپکپانے لگا،میرے دماغ کے بہت اندر کسی جگہ پر جیسے الفاظ تھرّا رہے تھے۔ ناقابل معافی کو بھی معاف کردیا جائے۔ اس خط کے بعد سے ڈاکٹر صاحب وہ کہتا ہے کہ اسے مرجانا چاہیے، اسے پھانسی دی جائے۔ پھانسی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4