موجودہ نظام جمہوریت کا ایک متبادل نظام


ہمارا خیال ہے کہ جمہوریت جس کی اتنی پرچار کی جاتی ہے، ایک فرسودہ نظام ہے۔ ہاں اُس کے بہت سے مثبت پہلووں سے آپ کو ہمارے دانشور گاہے گاہے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہماری دانست میں یہ نظام شاید کبھی بھی وہ نتائج حاصل نہ کر سکے جن کی ہم اس سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جو بھی حکمران ہم پر حکومت کرتا ہے وہ ہمیں بلکل پسند نہیں آتا۔ کچھ دیر کے لئے ایک ملک کو ایک کمپنی کی طرح دیکھیے۔ کیا کمپنی کا سی ای او چنتے وقت چپراسی یا گارڈ کی رائے لی جاتی ہے؟ یہاں ہمارا مقصد چپراسی یا گارڈ کی تذلیل کرنا ہرگز نہیں ہے۔ مقصد افراد کے شعور کو اہمیت دینا ہے۔

ایک طرف ایک سبزی فروش جس کا واحد مقصد اپنی سبزیاں اچھے دام بیچنا ہے۔ دوسری طرف ایک پولیٹیکل سائنس کا پی ایچ ڈی۔ دونوں کا ایک ہی ووٹ ہے۔ لیکن پھر تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ لوگ بھی ہیں جو یونیورسٹیوں میں ہماری نئی نسل کو تعلیم دیتے ہیں اور خودکش حملہ آوروں کو جنتی بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک کسان ایک پروفیسر سے ذیادہ سیاسی شعور رکھتا ہو۔
یہ ایک نہایت دلچسپ عمل ہے کہ ہم اپنے سیاسی رہنماء کیسے چنتے ہیں۔ میں ایک دفعہ ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ میرے علاوہ ڈبے میں تمام لوگ پیپلز پارٹی کے جیالے تھے جو پارٹی کی کسی کنوینشن میں شریک ہونے جا رہے تھے۔ اور یہ وہ لوگ تھے جو بھٹو اور بینظیر کے دور سے پارٹی کی جاں نثار کارکن ہیں۔ تذکرہ چلا بلاول کا تو ایک صاحب کہنے لگے ”ہم اس %10 کے لئے کام کر لیں گے لیکن اس زنخے کے لئے کام نہ کریں گے۔ “ باقی لوگوں نے تائید کی۔ پی ٹی آئی کے ٹائیگرز اور نون لیگ کے شیروں کی جنگ تو دیکھی ہی ہو گی آپ نے سوشل میڈیا پر۔ ایک دفعہ میں سعید انور کو سن رہا تھا۔ عمران خان کا ذکر آیا تو موصوف فرمانے لگے کہ جو شخص ایک بیوی نہیں سنبھال سکتا وہ ملک کیا سنبھالے گا؟

ہمارا خیال ہے کہ سیاست اور ریاست دو مختلف چیزیں ہیں۔ جیسے ایک زمانے میں یورپ نے ریاست کو مذہب سے علیحدہ کیا تھا۔ اسی طرح ہماری ناقص رائے میں ریاست اور سیاست کو بھی علیحدہ ہونا چاہیے۔ ایک شخص جس نے اسی ملک کے نظام تعلیم سے بی اے بمشکل پاس کیا ہے، جسے کراچی جیسے شہر میں بھی سفارش کے بنا شاید ہی کوئی ڈھنگ کی نوکری ملے۔ جب وہ شخص صرف سیاست کے بل پر آپ کا وزیر خارجہ بنے گا تو آپ خود ہی سوچیے کہ آپ کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی؟ ہمارا مطالعہ اس مضمون میں قلیل ہے لیکن ہمراہ ایک دلچسپ خیال یہ ہے کہ دنیا بھر میں جو بھی نظام حکومت رائج ہیں بشمول آمریت اور بادشاہت کے، ان میں کہیں بھی کسی قابل شخص کے لئے ان عہدوں تک پہنچنے کا کوئی واضح راستہ نہیں۔ ہم اداروں میں سیاسی بھرتیوں پر اکثر شور مچاتے ہیں، لیکن ریاست میں جو سیاسی بھرتیاں ہوتی ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

اور کوئی بھی نظام جمہوریت کا متبادل نہیں پیش کرتا۔ تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ایک متبادل نظام کا خاکہ پیش کیا جائے۔ ہمارے خیال میں جب تک ریاست کا ہر شہری ریاستی سیاست میں ایک فعال کردار ادا نہ کرے، اسے ریاست سے شکایت کا کوئی حق نہیں۔ ہم نے 5 سال میں ایک دفعہ ووٹ ڈالنا ہوتا ہے، ہم وہ بھی نہیں ڈالتے۔ لیکن شکایت دن میں 25 گھنٹے کرتے ہیں۔ تو ہر شہری کو فعال بنانے کے لئے پیش خدمت ہے ہماری جدید جمہوریت کے چند چیدہ چیدہ نکات۔

ہر گھر، مکان یا خاندان موجودہ جمہوری طریقے سے اپنا ایک رہنماء منتخب کرے گا۔ اگلے مرحلے میں یہ تمام رہنماء مل کر اپنے محلے، بلاک، ٹاؤن یا قصبے کا لیڈر چنیں گے۔ پھر یہی منتخب لوگ مل کر انہی منتخب لوگوں میں سے اپنے شہر کا نمائندہ اور شہروں کے نمائندے مل کر اپنے صوبے اور صوبوں کے نمائندگان مل کر ملک کا سربراہ منتخب کریں گے۔ پارٹی سسٹم سرے سے ہی ختم ہو جائے گا۔ لوگ پارٹی کی ٹکٹ پر نہیں بلکہ اپنے گھر کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ اور گھر سے ہماری مراد صرف خون کے رشتے نہیں بلکہ یہ وہ جگہ بھی ہو سکتی ہے جہاں آپ رہتے ہیں۔ یہ آپ کے خون کے رشتے بھی ہو سکتے ہیں اور ہوسٹل میں ساتھ رہنے والے ساتھی بھی۔ حسب اختلاف کی چنداں ضرورت باقی نہ رہے گی کیونکہ جن لوگوں نے آپ کو منتخب کیا ہے انہیں کے ہاتھ میں طاقت ہو گی کہ وہ آپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلا کر آپ کی کرسی پر دوبارہ انتخاب کروا سکیں۔ یہ آپ کے گھر والے بھی ہو سکتے ہیں اور صوبوں کے نمائندے بھی جنہوں نے آپ کو ملک کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ جمہور جہاں آپ کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے وہاں آپ کو اپنی کرسی چھوڑنی پڑے گی۔ محلے یا قصبے کے نمائندگان کو اتنا معاوضہ دیا جائے گا کہ وہ اس عہدے کو بطور سائیڈ جاب لے کر چل سکیں۔ اس سے اوپر کے سب عہدے معقول معاوضے کے ساتھ فل ٹائم جاب ہوں گے۔

ہمارے خیال میں اسمبلی میں موجود باقی لوگ اور ان کی وزارتیں ٹیکنیکل جابز ہیں۔ اگر ایک بی اے پاس کو ریلوے کی وزارت چلانے کو دی جائے گی اور اسے پٹڑیوں کے سائز کی کوئی معلومات نہ ہو تو ملک میں پٹڑیوں سے بڑے انجن ہی آئیں گے۔ ایک بی اے پاس وزیر قانون نہ بن پائے گا۔ وزیر قانون کے پاس کم از کم قانون کی ڈگری اور چند سالوں کا تجربہ لازمی ٹھہرے گا۔ تو انہی منتخب نمائندوں میں سے جو وزارت کے کوائف پورے کر سکے، اس وزارت کی کرسی کے لئے انتخاب لڑ سکے گا۔ امیدوار ویسے ہی اپنی انتخابی مہم چلا سکیں گے۔ لیکن جو مہم پہلے ہزاروں لوگوں کے لئے چلائی جاتی تھی اب صرف چند سو لوگوں کے لئے چلانا ہو گی۔ جیسے ہی کوئی عہدےدار اپنی کرسی سے منتخب ہو کر کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گا تو اس کی کرسی پر دوبارہ انتخاب کروایا جا سکے گا یا انتخاب میں دوسرے نمبر پر آنے والا اس کی جگہ پر کر سکے گا۔

جب تک سیاسی عمل میں ریاست کا ہر شہری شامل نہ ہو گا تب تک عوام کی حقیقی معنوں میں نمائندگی ممکن نہیں۔ ہمارے خیال میں اس نظام میں موروثی اور خاندانی سیاست ختم کرنے کی صلاحیت ہے۔ آپ اس مجوزہ نظام کا مذاق اڑا سکتے ہیں، اس میں خامیاں نکال سکتے ہیں یا کوئی مثبت رائے دے سکتے ہیں۔ یا پھر کوئی نیا خیال بھی پیش کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).