حاملہ ہو تو کیا ہوا، ناچنا پڑے گا یا مرنا پڑے گا


لاڑکانہ کے نواحی علاقے کنگا میں ایک سیشن عدالت کے ریڈر صاحب نے اپنے بیٹوں کی سنت ختنہ پر محفل موسیقی کا اہتمام کیا اور مقامی گلوکارہ ثمینہ سندھو کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لئے بلایا گیا۔ مقامی سطح کے یہ غریب فنکار کم پیسوں پر شادیوں اور دیگر تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے گزر بسر کر تے ہیں۔

اپنی روزی روٹی کرنے والے ان فنکاروں کے ساتھ ہر محفل میں برا ہی ہوتا ہے کیونکہ ایسی محفلوں میں شراب کا استعمال اتنی کثیر مقدار میں ہوتا ہے کہ لوگ سرور کی حد کراس کر کے مد ہوش، پھر بے ہوش اور پھر بے پرواہ ہو کر جو جی میں آئے کرتے ہیں اور دوسرے یہ طاقت اور شراب کے نشے میں اسلحے سے لیس لوگ اس قسم کی گانے اور راگ کی محفل کرنے والی ہر فنکارہ کو جسم بیچنے والی سمجھ کر اس کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں۔ اس طرح کی محفلوں میں قانون نام کی کوئی پابندی نظر نہیں آتی بس جنگل کا قانون ہوتا ہے۔

22 سالہ گلوکارہ ثمینہ سندھو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شراب کے نشے سے زیادہ طاقت کے نشے مین دہت ایک نوجوان طارق جتوئی نے فرمائش کی کہ وہ کھڑے ہوکے ذرا ٹھمکے کے ساتھ گانا سنائے۔ جس پہ اس نے معذرت کی کہ وہ حاملہ ہے اس لئے کھڑے ہو کہ گانا اس کے لئے مشکل ہے، اس کو دھمکی دی گئی کہ کہ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو مرنے کے لئے تیار ہوجائے اور پھر تین گولیاں ثمینہ سندھو کے جسم میں پار ہو گئیں اور اس بچاری نے اسپتال کے رستے میں ہے دم توڑ دیا۔

رات دیر تک میڈیا پر یہ خبر چلتی رہی کہ شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ سے مقامی فنکارہ ہلاک ہو گئی ہیں۔ پولیس نے بھی ایسا ہی موقف دیا بلکہ پولیس نے تو ظلم کی حد کر دی اور قاتلوں کو گرفتار کرنے کے بجائے گلوکارہ ثمینہ سندھو کے سازندوں کو نہ طرف گرفتار کرکے تشدد کیا بلکہ ان پر تقریب میں پڑنے والے شاباشی کے پچیس ہزار روپے بھی ہڑپ کر ڈالے۔

سوشل میڈیا پر بات آنے، فنکارہ کو قتل کرنے کی وڈیو سامنے آنے، اور پھر ٹی وی میڈیا کی طرف سے موقف بدلنے کے ساتھ ساتھ گلوکارہ ثمینہ سندھو کے ورثا اور ساتھیوں کی طرف سے اس کی لاش کو جناح باغ چوک لاڑکانہ میں رکھ کر دھرنا دینے کے بعد، حکومت کو ہوش آیا ہے، بات بڑہتی دیکھ کر بلاول بھٹو زرداری صاحب، آصف علی زرداری صاحب، دیگر وزیروں مشیروں، پولیس کے افسروں کو ہوش آیا اور قاتل طارق جتوئی اور اس کے دو ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ علائقے کے ایس ایچ او، جس کی اس معاملے کو حادثہ قرار دینے کی پوری کوشش تھی کو معطل کیا گیا ہے۔

کرائے کے گھر میں رہنے والی اپنے بچے کو کوکھ میں رکھ کر اپنے فن سے روزی روٹی کمانے والی غریب فنکارہ ثمینہ سندھو کے بچوں کی رونے کی آوازیں اس کی کسمپرسی کی پوری تصویر پیش کر رہی ہیں۔ ثمینہ سندھو کے ساتھی فنکار کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر دھشت گردی ایکٹ میں کٹی ہے یا کسی اور قلم میں اس کو معلوم نہیں کیوں کہ ایک طرف ان کی ساتھی خون میں لت پت تھی اور ایس ایچ او ان کے تمام ساتھیوں کے پیسے چھین کر جو کہ بیس پچیس ہزار کے قریب ہوں گے سب کو لاک اپ کر کے کے پیٹتے رہے۔ اب ایسے میں ہم اپنی جان کو روئیں یا ایف آئی آر کٹوائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).