کراچی میں کمال کا سحر


چند روز قبل ایک سیاسی جماعت کے سابق کارکن سے گفتگو ہورہی تھی۔ (موصوف توبہ کرکے مدینے تشریف لے گئے ہیں جبکہ فکرمعاش اور ذکر الہی کو معمولات زندگی بنا چکے ہیں)۔ انہوں نے ماضی کے بند دریچوں کو وا کرتے ہوئے کہا کہ میں جس جماعت سے وابستہ تھا اس کا عروج اورزوال دونوں دیکھ چکا ہوں۔ کراچی کی تاراج سیاسی جماعت کے ’ساتھی‘ کے مطابق جیسا حال ماضی کی کراچی کی نمائندہ جماعت کا ہوا ہے ایسا عبرتناک انجام تو سلطنت مغلیہ کا بھی نہیں ہوا تھا۔ مغل دور کو تاراج ہوتے ہوتے بھی ایک سو پچاس سال لگے تھے جبکہ پاکستان کے معاشی حب کی نمبرون اور ملک کی (2013 کے عام انتخابات سے قبل) تیسری بڑی جماعت کے راج کو تاراج ہونے میں دو سال بھی نہیں لگے۔

کراچی میں اہم تبدیلی 3 مارچ 2016 کو سابق مئیر مصطفی کمال اور انیس احمد قائم خانی کی آمد کے بعد رونما ہوئی۔ یہ شخصیات 3 مارچ کو اچانک دبئی سےوطن واپس آئیں اور بانی متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف پریس کانفرنس کرکے الگ پارٹی بنا نے کا عندیہ ڈالا اور 23 مارچ کو ’یوم پاکستان‘ کی مناسبت سے ’پاک سر زمین پارٹی‘ کا قیام وجود میں آیا۔

کہا جاتا ہے کہ جب قسمت خراب ہو تو اونٹ پر بیٹھے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم اور حکومت کے معاملات بہتری کی جانب گامزن تھے مگر لندن سے کراچی پر حکومت کرنے والی شخصیت نے اپنے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ اور مائنس کے فارمولے پر ازخود عمل کرتے ہوئے پاکستان کی سیاست میں اپنا قصہ تمام کیا۔ بعد ازاں فاروق ستار کی قسمت جاگ گئی تاہم وہ سربراہی کا حق ادا نہ کرسکے۔ ایم کیو ایم لندن سے پاکستان، پھر بہادرآباد سے پی آئی بی اور خاموش گروپ اراکین میں بٹتی چلی گئی۔ خیال رہے اس دوران کچھ اہم ناموں نے ایم کیو ایم کو چھوڑتے ہوئے سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کرلی شبیر قائم خانی اس سلسلے کی واضح مثال ہیں۔ ایم کیوایم کی تقسیم میں کچھ لوگوں کو ’ضمیر فروشوں‘ کا نام بھی دیا گیا کیونکہ یہ افراد سینٹ کے انتخابات کے روز یا تو غیر حاضری رہے یا ایک رات قبل دوسری سیاسی جماعت کا ’نمک‘ کھاتے نظر آئے۔

یوں تو جب مصطفی کمال کی جانب سے پاک سرزمین پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جب سے ہی بہت سے اراکین اسمبلی اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے عہدیداران، اچانک ’ضمیر‘ کی بیداری کے سبب ’خیابان سحر‘ کے اسیر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اگرچہ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال معتدد بار کہہ چکے ہیں کہ ہم ایم کیو ایم کو ٹارگٹ نہیں کرنا چاہتے مگر اب اسے ’حُسن اتفاق‘ سمجھیں یا ’حُسن اہتمام‘ پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی کثیر تعداد کا تعلق ایم کیو ایم سے ہی ہے جبکہ مصطفی کمال اور انیس احمد قائم خانی سمیت ان کی جماعت کی اعلی قیادت کا سابقہ سیاسی منظرنامہ ایم کیو ایم سے ہی وابستہ ہے۔

مذکورہ بالا حُسن کی اصلاحات نے متحدہ قومی موومنٹ کی سنگھار میز کے رنگوں میں سوگواری کی آمیزش کرتے ہوئے صف ماتم بچھا ڈالی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایم کیوایم کے 5 رکن قومی جبکہ 14 اراکین سندھ اسمبلی پاک سرزمین پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس طرح 18 اراکین اسمبلی پی ایس پی میں شامل ہو چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اب پاک سرزمین کی نظرقائد حزب اختلاف کی جانب ہے۔ واضح رہے کہ خواجہ اظہار الحسن لیڈر آف اپوزیشن ہیں اور ایم کیوایم کے خاموش اراکین میں شامل ہیں اگرچہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں اپنی شرکت یقینی بنا رہے ہیں تاہم پی آئی بی یا بہادر آباد گروپ میں زیادہ متحرک نہیں نظر آرہے ہیں البتہ ان دونوں گروہ کے ابتدائی خلفشار کے دنوں میں انہوں نے اختلافات ختم کرانے کی بہت کوشش کی مگر مثبت نتائج سامنے نہ آنے کی وجہ سے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ اب یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ جلد ایوان سندھ کے قائد حزب اختلاف بھی مصطفی کمال کو پیارے ہونے والے ہیں۔

کراچی میں مصطفی کمال کے سحر نے بلدیاتی سطح پر بھی ایم کیوایم کو ٹارگٹ کیا ہے۔ جس کی واضح مثال ڈپٹی میئرارشد وہرا کی پی ایس پی میں شمولیت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی منظرنامے کے مطابق جو جو رکن اسمبلی پی ایس پی کا حصہ بنتا تھا وہ ایوان میں اپنا استعفی پیش کررہا تھا تاہم اب ایسا نہیں ہے۔ اب جو بھی ایم این اے یا ایم پی اے مصطفی کمال کے قافلے میں شامل ہورہا ہے وہ اپنا استعفی نہیں پیش کررہا ہے بلکہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان اراکین نے سینٹ کے انتخابات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

کراچی کے موجودہ سیاسی منظرنامے کے مطابق شہرقائد کا سیاسی انقلاب قابل دید ہے۔ کراچی سمیت پاکستان کے کسی شہری نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ 23 برسوں سے ٹیلی فون سے نمودار ہونے والی آواز کی تصویر بھی نظر نہیں آئے گی۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ دن رات آباد رہنا والے ’نائن زیرو‘ کا کردار کراچی کی سیاست میں صفر ہوجائے گا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایک دو تین کہہ کر مجمع پر سکوت طاری کرنے والا شخص ماضی کا عبرتناک باب بن جائے گا بہرحال ہر عروج کو زوال ہے بس رب ذوالجلال لا زوال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).