منٹو تم کشمیر کی آصفہ پر خاموش کیوں ہو؟


آصفہ میری پیاری بچی! تمہاری روح فرسا کہانی ہر اس انسان کو خون کے آنسو رلارہی ہے جس کے سینے میں ابھی دل پتھر نہیں ہوا ہے۔ آصفہ تم پہلی بچی نہیں ہو جو اس بربریت کا شکار ہوئی ہو۔ تم سے پہلے نہ جانے کتنی بچیوں کو وحشی درندوں نے اغوا کرکے ایسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ تمہارا واقعہ دیر سے ہی سہی منظر عام پر تو آیا۔ ورنہ تیرے جیسی مظلوم بچیوں کی کہانیاں تو ردی کی فائلوں میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ تیری چیخیں اب بھی کشمیر کی ہی نہیں ہندوستان کی فضاؤں میں گونج رہی ہیں مگر جہاں سماعتوں پر بہرے پن کا عذاب نازل ہوا ہو وہ تیری چیخیں کیا سنیں گے۔ آصفہ تم چیخنا بند کروبس برداشت کرو۔ تم جیسی ہزاروں بچیوں نے آج تک صرف برداشت کیا ہے اور برداشت کریں گی۔ یہی تمہاری قسمت ہے آصفہ۔ تم منٹو کی کہانی کا زندہ کردار ہو، ہاں آصفہ تم سکینہ ہو۔ ”کھول دو“ کے سراج الدین کی بیٹی سکینہ۔ مگر تم سکینہ سے واقف نہیں ہو۔ ہوتیں بھی کیسے۔ ابھی تو تم نے اسکول جانا شروع کیا تھا۔ منٹو تو یوں بھی ٹین ایجرز کا رائٹر نہیں ہے۔ مگر وہ زندہ انسانوں کا بے باک ترجمان ضرورہے۔

آصفہ میری پیاری بچی! آج مجھے منٹو بہت یاد آیا۔ آج ”سراج الدین‘‘ کی بیٹی ”سکینہ‘‘ کی روح فرسا داستان ذہن میں گردش کررہی ہے۔ کیوں منٹو کیوں؟ تم نے برسوں پہلے ایسی سفاک حقیقت کو اپنے افسانہ کا موضوع کیوں بنایا؟ کیا تم جانتے تھے آزاد جمہوری ہندوستان میں بھی ایسے واقعات رونما ہوں گے؟ منٹو تم نے سکینہ اور اس کے باپ کی ایسی نفسیاتی کہانی بیان کی ہے جو آج بھی روح کو جھنجوڑ دیتی ہے۔ آصفہ کا باپ تو سراج الدین نہیں بن سکا مگر آصفہ، سکینہ سے بھی زیادہ مظلومہ نظر آتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھگوان کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ اور بھگوان ابھی تک مندر میں پتھر کی مورت بناہوا سوچ رہا ہے کہ اپنے بھکتوں کے خلاف گواہی دے یا نہیں؟ مگر منٹو تم نے ”کھول دو‘‘ کے بعد کی کہانی بیان نہیں کی۔ یہ کہانی کا کیسا اختتام ہے۔

”ڈاکٹر نے جس نے کمرے میں روشنی کی تھی سراج الدین سے پوچھا۔ ”کیا ہے؟ ‘‘
سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا۔ ”جی میں۔ جی میں۔ اس کا باپ ہوں!‘‘
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا ”کھڑکی کھول دو۔ ‘‘

سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا۔ ”زندہ ہے۔ میری بیٹی زندہ ہے‘‘۔ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہوگیا‘‘۔

اُفففففف۔ کس قدر نفسیاتی کرب میں مبتلا کردینے والے جملے ہیں۔ جس کےسینے میں انسان کا دل ہے وہ سکینہ کی روح فرسا کیفیت کو برداشت نہیں کرسکتا تو پھر وہ سراج الدین کی نفسیاتی اذیت کو کیا برداشت کرے گا۔ نہیں یہ کہانی کوئی معمولی انسان نہیں لکھ سکتا۔ یہ کہانی منٹو نے ضرور شراب کے نشہ میں لکھی ہوگی۔ ایسا کرب برداشت کرنے کے لئے انسان کا نشے میں ہونا ضروری ہے۔

منٹو تم آسمان پر یقیناَ زندہ ہو۔ تم مرنہیں سکتے۔ زندہ ادب لکھنے والے بھی کبھی مریں ہیں کیا؟ تو آؤ ”کھول دو‘‘ کے خالق تمہیں آصفہ کی کہانی سناتا ہوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ ” کھول دو‘‘ کے بعد کی کہانی لکھنا اور حالت نشہ میں مت لکھنا۔ میں دیکھنا چا ہتا ہوں تم کتنے مضبوط اور قوی نفسیات کے حامل ہو۔ سراج الدین کی کہانی لکھنا بھی کسی کمزور نفسیاتی انسان کے بس کی بات نہیں تھی مگر اس وقت تم نشے میں تھے۔

تو سنو منٹو، آصفہ آٹھ سال کی معصوم بچی کا نام ہے۔ جو اپنے ماں باپ کے دل کا سکون اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اچانک اس کا اغوا ہو جاتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اغوا کرنے والے کس مذہب کے تھے مگر یہ ضروربتایا گیا کہ اس کے ساتھ تین دنوں تک مندر میں وہی کھیل کھیلا گیا جو سکینہ کے ساتھ ایک دن میں کئی درندوں نے مل کر کھیلا تھا۔ اس کی لاش نیم عریاں حالت میں فرش پر پڑی ملی۔ منٹوتم نشہ کرتے تھے کیونکہ تمہیں اپنی زندگی کا اختیار تھا مگر آصفہ تو معصوم بچی تھی سوچو جب اس کی رگوں میں ڈرگز کا زہر انڈیلا گیا ہوگا تو اس کیکیا حالت ہوئی ہوگی۔ پھر مسلسل کئی دنوں تک معصوم کلی کو وحشی درندوں نے مسلا اور کلی شاخ سے ٹوٹ کر زمین پر بکھر گئی۔

تم لکھ رہے ہو نا منٹو! دیکھو نشہ مت کرنا۔ شراب کا ایک گھونٹ بھی تمہارے حلق سے نیچے نہ اترے۔ یہ کہانی نہیں حقیقت ہے۔ ارے نہیں نہیں۔ تم نے بھی جو کچھ لکھا تھا وہ کہانی نہیں تھی۔ وہ غلام ہندوستان کی آزادی کے فوراً بعد کی کہانی تھی۔ یہ آزاد جمہوری ہندوستان میں رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ منٹو مجھے علم نہیں کہ سکینہ کے ریپ کے بعد کیا حالت رونما ہوئے۔ سراج الدین کس ذہنی اذیت کا شکار رہا۔ ڈاکٹر علاج کے قابل رہا یا وہ بھی کسی نفسیاتی مرض کا شکار ہوگیا تھا۔ تم نے کچھ نہیں لکھا بس قاری پر چھوڑ دیا کہ سوچو اور روتے رہو۔ مگر دیکھو یہاں آصفہ کے مجروں کی حمایت میں جلوس نکل رہے ہیں۔ انتظامیہ پر اس کے قاتلوں کی رہائی کے لئے دباؤ بنایا جارہا ہے۔ سیاہ پوش طوائفیں عدالت میں چارج شیٹ داخل نہیں ہونے دے رہی ہیں۔ اور تم تو طوائفوں کی نفسیات اچھی طرح سمجھتے ہو نا۔ تو لکھو ان سیاہ پوش طوائفوں پر بھی کچھ لکھو جو عدالتوں میں بیٹھ کر قانون اور انصاف کو ننگا کرنے پر تلی ہیں۔

منٹو! تم نے ایسے وحشی درندے نہیں دیکھے ہوں گے جن کے چہروں پر ”وطن پرستی ‘‘ اور قومی پرچموں‘‘ کا نقاب پڑا ہو۔ تم نے صرف وحشیانہ ماحول دیکھا تھا مگر زعفرانی غنڈوں کی خونی ہولی نہیں دیکھی۔ قاتلوں کی سیاسی پزیرائی کا ڈرامہ نہیں دیکھا۔ تم نے کبھی کسی واقعہ کو مذہب اور فرقہ کی عینک لگاکر نہیں دیکھا کیونکہ تم تخلیق کار تھے۔ ادب تمہاری رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا تھا۔ تم ایک سچے فنکار تھے مگر اب تو ہر معاملہ کو مذہب اور فرقہ پرستی کی عینک لگاکر دیکھا جاتا ہے۔ منٹو یہ عظیم حقیقت ہے کہ آصفہ مسلمان تھی اس لئے قاتل آزاد ہیں۔ نربھیا ہندو تھی اس لئے اس کیحمایت میں جلوس نکالے جارہے تھے۔ کیا انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا منٹو!کیا نربھیا اور آصفہ کے مجرموں کو مذہب کی عینک لگاکر دیکھنا ضروری ہے؟ منٹو میرے عزیز افسانہ نگار! گاندھی کے قاتلوں کے حامی آصفی کے قاتلوں کی پزیرائی کریں تو تعجب کیوں کرتے ہو۔ استعجابی کیفیت سے باہر نکلو اور ان قاتلوں کے چہروں پر پڑی ہوئی نقابیں نوچ کر پھینک دو۔ بولو منٹو چپ کیوں ہو؟ اگر آج تم ہوتے تو کیا کہتے؟ اور کونسی کہانی لکھتے؟

بولو منٹو میرے عزیز افسانہ نگار چپ کیوں ہو؟

منٹو! ملک میں ” نیا قانون ‘‘ نافذ ہے۔ یہ نیا قانون تمہارے افسانہ کی تھیم سے با الکل الگ ہے۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے ہو کہ ایسا قانون آزاد ہندوستان میں نافذ ہوسکتا ہے۔ آج تمہارا ”منگو کوچوان ‘‘ زندہ ہوتا تو اس کے تمام سوالوں کے جواب مل جاتے۔ ایسا تو نہیں کہ منگو کوچوان بھی تمہارے ساتھ آسمان پر بیٹھا ہوا یہ سیاسی ڈرامہ دیکھ رہا ہو۔ مگر تمہیں تو ڈراموں کا با الکل شوق نہیں تھا۔ چلو ایک ڈرامہ ہی لکھدو ”اس ملک میں مسلمان ہونا جرم ہے‘‘۔ جی منٹو صاحب، مسلمان ہونا جرم ہے۔ جو ماحول” نیا قانون‘‘ کے نافذ کرنے والوں اور زعفرانی تنظیموں نے پیدا کردیا ہے وہ صرف مسلمانوں کے لئے خطرناک نہیں ہے بلکہ پسماندہ اور دبے کچلے ہوئے لوگوں کے لئے بدترین ماحول ہے۔ اس خطے میں کمزور ہونا جرم ہے۔ اور اگر کمزور اقلیتی فرقہ کا ہو تو اس کے لئے اس کی کمزوری عذاب بن جاتی ہے۔

منٹو تم تو کسی مذہب اور کسی فرقہ کے قائل نہیں تھے۔ چلو ایک نئی کہانی کے ساتھ زمین پر اتر آؤ اور ”کھول دو‘‘ کے بعد کا واقعہ لکھ کر ایک بار پھر کہرام مچادو۔
مگر یاد رکھنا آج تم پر فحش نگاری کے جرم میں مقدمہ قائم نہیں ہوگا بلکہ تمہیں برہنہ کرکے سرعام ماردیا جائے گا۔
اس لئے بہتر ہے تم آسمان پر رہو اور نئی کہانی لکھو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).