کیا شہباز شریف ٹیڑھا اڑتے ہیں؟


کمرے کی کھڑکی سے اڑتے اڑتے باہر نکلا، فضا میں قلابازیوں کے جیسے دو تین کرتب بھی دکھائے پھر دوبارہ اڑتا ہوا کمرے میں آیا، پنکھے سے بچ کے دیواروں کے ساتھ ساتھ اڑا ‘اس کے بعد اپنی سیٹ پہ آ کر بیٹھ گیا۔ عقلمند انٹرویو لینے والا بولا؛ شاباش جوان، تم نے سارے جواب ٹھیک دئیے تھے بس تم تھوڑا ٹیڑھا اڑتے ہو، اس لیے ہم لوگ تمہیں اس نوکری کے لیے مناسب نہیں سمجھتے۔

سرائیکی میں ایک محاورہ ہے کہ بھاندے دا سب کجھ بھاندا اے، ان بھاندے دا کجھ نئیں بھاندا۔ یعنی جو پسند ہے اس کی ہر بات پسند ہے اور جو مظلوم ایک بار ناپسند ہو گیا پھر اس کی بڑی سے بڑی اچھائی کسی کو پسند نہیں آ سکتی۔ تو قصہ یہ ہے کہ جہاں کام ہو گا، جہاں حرکت ہو گی، جہاں نئے سٹینڈرڈز سیٹ کیے جائیں گے، جس صوبے کی ترقی مخالفین کو خواب میں بھی ڈراتی ہو گی‘ وہاں ظاہری بات ہے رکاوٹیں بھی آئیں گی۔ اب نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور دیگر پابندیاں شہباز شریف کو راستہ دیں گی یا انہیں منقار زیر پر رکھنے پہ مجبور کرتی ہیں‘ یہ بہت جلد پتا چل جائے گا۔

پنجاب میں صحت کا شعبہ کئی دن سے زیر عتاب ہے۔ شہباز شریف اور ان کے وزرا کو ٹھیک ٹھاک سننی پڑ رہی ہیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن کا مزہ بھی قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے، خاص طور پہ اس وقت جب اچھی خاصی بھاگ دوڑ بھی کی ہو۔ مثال کے طور پہ ابھی چند دنوں پہلے قصور کی ایک معصوم بچی ریپ کے بعد قتل ہوئی۔ اسے قتل کرنے والا عدالت کی طرف سے دئیے گئے ٹائم فریم میں پکڑا گیا۔ یہ ممکن کیسے ہوا؟ پنجاب کی فارنزک لیب میں کیے گئے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے۔ پھر چند دن بعد مردان میں بھی ایسا ہی ایک سانحہ پیش آ گیا، پورے خیبر پختونخوا میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں سے ڈی این اے ٹیسٹ ہوتا، اس بدنصیب بچی کے سیمپلز بھی یہاں کی لیب میں ٹیسٹ ہوئے اور نتیجہ وہاں بھیجا گیا۔ پھر اس سے میچ کرنے کے لیے 145 مشکوک ملزمان کے ڈی این اے سیمپلز پنجاب آئے، ایک میچ کر گیا اور وہ پندرہ سالہ مجرم گرفتار ہو گیا جس نے یہ بھیانک جرم کیا تھا۔ چیف جسٹس کے سوموٹو اور پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کی پھرتی سے یہ کام ممکن ہوا۔ یاد رہے کہ 2009ء میں شہباز شریف نے ہی اس فارنزک ایجنسی کا افتتاح کیا تھا۔

عام طور پہ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی اگلی حکومت آتی ہے پچھلے دور میں شروع کیے گئے اچھے کام بھی رک جاتے ہیں، پنجاب کے شعبہ صحت میں ایسا نہیں ہوا۔ پرویز الٰہی کے دور میں شروع کی گئی 1122 ایمبولینس سروس کے پروجیکٹ کو مزید آگے بڑھایا گیا۔ موٹر سائیکل ایمبولینسز شروع کی گئیں۔ اب اندرون شہر یا کوئی اور تنگ علاقہ جہاں گاڑی نہیں گھس سکتی‘ وہاں سے مریضوں کو نکالنے کے لیے 1122 کی موٹر سائیکل ایمبولینسز موجود ہیں۔ پھر محفوظ ماں ایمبولینس سروس بھی شروع ہوئی۔ 1034 پہ کال کر کے ایمرجنسی کی حالت میں کوئی بھی حاملہ ماں یہ ایمبولینس پنجاب کے دیہی علاقوں میں اپنے گھر تک منگوا سکتی ہے۔ فرض کیجیے کوئی ایک ماں بھی اگر ان 433 ایمبولینسوں کے نتیجے میں اب تک بروقت ہسپتال پہنچ کے اپنی اور اپنے بچے کی زندگی بچا سکی ہے تو کیا یہ کم ہے؟ جس ملک کی غریب مجبور عورتیں سڑکوں، گلیوں یا رکشوں پہ ہی بچوں کو جنم دینے پہ مجبور ہوں کیا وہاں ہر مہینے ہزاروں ماؤں کو فائدہ پہنچانے والی اس ایمبولینس سے نظریں چرائی جا سکتی ہیں؟ پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ملتان کی بھی توسیع کی گئی، مطلب اگر پہلے کچھ بہتر ہوا تو اس میں سے رکا کچھ بھی نہیں، کارواں آگے ہی بڑھایا گیا۔

ڈی پورٹ ہو کے باہر سے آنے والوں کی ایڈز سکریننگ بھی پنجاب کے ائیرپورٹس پہ شروع ہو چکی ہے، ڈینگی کو بھرپور طریقے سے قابو بھی پنجاب ہی میں کیا گیا، ادھر سے ہی ڈاکٹر خیبر پختونخوا گئے، پاکستان کا سب سے جدید کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ ہسپتال بھی یہیں بنا، چودہ ضلعوں میں ہیپاٹائٹس کلینک بن چکے ہیں جو اسی ہسپتال کی ذیلی شاخیں ہیں، یہی صوبہ ہے جہاں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو گھر بیٹھے دوائیاں بھجوانے کی مہم بھی شروع ہو چکی ہے، گاؤں دیہات کے ہسپتالوں سے ناقابل علاج مریض بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتال تک لانے کے لیے پیشنٹ ٹرانسفر سروس کے نام سے بھی ایمبولینسز چلائی جا چکی ہیں، ان ہسپتالوں تک پہنچانے کے لیے ضروری سڑکیں بھی مزید کشادہ ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں، اسی صوبے کے چار ضلعوں میں لوگوں کی سرکاری ہیلتھ انشورنس پہ کام شروع ہو چکا ہے، چلڈرن ہسپتال لاہور میں بون میرو ٹرانسپلانٹ جیسی جدید سہولت کا آغاز ہو چکا ہے، لاتعداد ضلعی ہسپتالوں کو ممکنہ جدید سہولیات دی گئی ہیں، اعلیٰ ترین دوائیں اور مشینیں بھی یہیں خریدی گئیں، اور کیا کریں بھائی؟ کوئی ایک صوبہ دکھا دیں جہاں اتنا سب کچھ ہوا ہو؟

دیکھیے بات یہ ہے کہ جب انسان کسی چیز میں خرابیاں نکالنے پہ آتا ہے تو اس کی مثال آئی فون والی ہے۔ بنانے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے ہر لحاظ سے پرفیکٹ چیز بنا دی مگر خرابیاں ڈھونڈنے والے اس میں بھی کیڑے نکالتے ہیں۔ ٹھیک ہے خرابیاں نکالنا یوزر کا حق ہے لیکن جتنا مرضی گرج برس لیں، آئی فون کو توڑ کے پھینک دیں، اسے گندے پانی میں بہا دیں، ساتویں منزل سے نیچے گرا دیں لیکن یار آئی فون نے رہنا آئی فون ہی ہے، وہ اگر کبھی ناکام ہو گا تو صرف اس وقت جب وہ اپنے پچھلے مقرر کردہ معیار سے نیچے آئے گا یا کوئی نئی کمپنی اس سے اچھا فون بنا پائے گی۔

کہانی وہی ٹیڑھا اڑنے والی ہے۔ اب ہمیں بیٹھ کے اپنے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ شہباز شریف ٹیڑھا اڑتے ہیں یا موبائل فون بنانے والے؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain