رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے!


جواں سال گلو کارہ ثمینہ سندھو سٹیج پہ گانا گا رہی تھی، اچانک ایک اندھی گولی آ ئی اور اس کی زندگی کا چراغ گل کر گئی۔ ثمینہ سندھو حاملہ تھی، اس طرح یہ قتل ، دہرا قتل ہوا۔ مبینہ طور پہ یہ قتل طارق جتوئی نامی ایک تماش بین نے اس لئے کیا کہ ثمینہ اس کی مرضی کے مطابق کھڑے ہو کر اور ناچ کر نہیں گا رہی تھی۔
ویڈیو میں یوں نظر آ تا ہے کہ ثمینہ بیٹھ کر گا رہی ہے۔ پھر وہ کھڑی ہوتی ہے اور گولیاں چلنے کے دھماکے سنائی دیتے ہیں اور وہ گر جاتی ہے۔

طارق جتوئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے نہ تو کوئی ایسی فرمائش ہی کی تھی اور نہ ہی ان کا ارادہ ثمینہ کو مارنے کا تھا۔ وہ تو محض ہوائی فائرنگ کر رہے تھے اور ثمینہ اپنی قضا کے ہاتھوں اٹھیں اور ان کی گولی کا نشانہ بن گئیں۔

یہ ایک بے حد افسوس ناک واقعہ ہے،جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے

واقعہ کیا تھا ، کیسے اور کیوں پیش آ یا ؟ حقائق کیا ہیں اور ان حقائق سے کیا ثابت ہو گا ، یہ سب جا ننا پولیس اور متعلقہ اداروں کا کام ہے ، لیکن جس قدر معلومات حاصل ہو ئیں ان سے کچھ بنیادی باتیں سامنے آ تی ہیں ۔

یہ تقریب ، جس پہ ثمینہ کو گانے کے لئے مدعو کیا گیا، ‘ ختنہ ‘ کی تقریب تھی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ تمام مسلمان معاشروں میں لڑکوں کی پیدائش کے بعد ‘ختنے’ کی رسم ادا کی جاتی ہے۔

گو یہ ایک سادہ سا عملِ جراحی ہے لیکن صدیوں کی الٹ پھیر اور سماجی قلابازیوں نے اسے ہمارے دیہاتی معاشروں میں ایک بہت بڑا سماجی تہوار بنا دیا ہے ۔

پنجاب میں اسے ‘خوشی’ یا ‘ شادی ‘ کہا جاتا ہے اور شادی کی طرح ہی تمام برادری کو اکٹھا کر کے دعوت دی جاتی ہے اور ‘ نینودرا’ یا سلامی وصول کی جاتی ہے اور اسی طرح حسبِ تو فیق گھریلو گیتوں سے لے کر باقاعدہ مجروں تک کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔

ان مجروں میں نہ کوئی ‘ سوکھا ‘ آ تا ہے اور جو آ جائے وہ ‘حوضِ مے خانہ’ کی فیاضی سے خشک لب بھگو کر ہی جاتا ہے ۔

مجروں یا گانوں کی ان محفلوں میں نوٹ بھی لٹائے جاتے ہیں، ہوائی فائرنگ بھی ہوتی ہے، گانے بجانے کے لئے آ ئے ہوئے ہیجڑوں یا عورتوں سے بد سلوکی بھی ہوتی ہے، مار پیٹ بھی ہوتی ہے اور کبھی کبھار نو بت قتل تک بھی جا پہنچتی ہے۔

ان جھگڑوں اور غیر اخلاقی و غیر قانونی حرکات میں ملوث ہونے والے افراد کوئی عادی مجرم نہیں ہوتے ۔ مذکورہ برخوردار کے چاچے ، تائے ، خالو ، پھوپھا اور برادری کے دیگر عزت دار اور دوست احباب ہی ہوتے ہیں جو ایک ‘سنت’ کی ادائیگی کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں ۔

سوال یہ آتا ہے کہ یہ وہی ملک ہے جہاں عورت کی بنا دوپٹہ تصویر دیکھ کر ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اسی ملک میں ایک اسلامی رسم کے ساتھ اتنی لغویات کیسے اکٹھی ہو گئیں؟

بھلے وقتوں میں اسی پنجاب میں ‘لوہڑی’ اور ‘بیساکھ’ کے تہوار بھی منائے جاتے تھے۔ ان کو غیر اسلامی ہونے کی وجہ سے ملک بدر کر دیا گیا لیکن ختنوں کے موقعے پہ بپا ہونے والے اس طوفانِ بدتمیزی پہ آج تک کسی کو بولنے کو توفیق نہیں ہوئی۔

دوسری بات یہ کہ اگر ثقافتی گھٹن ختم کرنے کو یہ تقریبات منعقد کر بھی لی جاتی ہیں اور دوگھڑی ہنسنے بولنے کا اہتمام کر بھی لیا جاتا ہے تو سامعین کی اخلاقیات اور حسِ لطیف کہاں جا سوتی ہیں ؟

یہ کیسا لطف ہے جو گانے والیوں سے بد کلامی اور بد سلوکی کر کے حاصل کیا جاتا ہے ؟ رقص کے لئے آ ئے ہوئے ہیجڑوں کے کپڑے پھاڑ کے انہیں زخمی کر کے کون سی حس کی تسکین ہوتی ہے؟ گانے والیوں اور ناچنے والیوں کو بستروں میں گھسیٹ کے ان کے سر کے بال مونڈ کر انھیں مار پیٹ کے بھی جی نہیں بھرتا تو قتل کر دیا جاتا ہے ۔

یہ سب میرے ذہن کی اختراع نہیں ہیں۔

ایسے واقعات بارہا پیش آ ئے اور مجرم وہی تھے جو اپنے گھر کی بہو بیٹیوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے والوں کے دیدے نکالنے کو پھرتے ہیں ۔ عزت اگر عورت کی ہے تو پھر وہ ہر عورت کی ہے، صرف آ پ کی عورت کی کیوں ؟

سچ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک پدر سری ہی نہیں ، بیمار پدر سری معاشرہ ہے جس کے سب رویے بگڑے ہوئے ہیں ۔ نہ ہمیں کھانے کی تمیز ہے نہ پینے کی ، نہ محبت کرنا آتی ہے نفرت، نہ خوشی کے آداب یاد ہیں اور نہ ہی غم کا کوئی احترام ہے ۔

ہر رویے میں ایک وحشت انگیز عدم تحفظ بھرا ہواہے۔ ہر خوبصورتی سے خوفزدہ پدر سری نظام نے ایک اور حسین لڑکی کو اپنے عدم تحفظ کی بھینٹ چڑھا دیا ۔

حبیب جالب کی یہ سطریں ثمینہ بہن تمہاری نذر،

تو کہ نا واقفِ آدابِ شہنشاہی تھی

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جا تا ہے

تجھ کو انکار کی جرأت جو ہو ئی تو کیوں کر؟

سایۂ شاہ میں اس طرح جیا جا تا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).