نیلم احمد بشیر ، “طاﺅس فقط رنگ” اور امریکی خواب


نیلم احمد بشیر کا ناول ”طاﺅس فقط رنگ“ امریکہ کے پس منظر میں جدید انسان کی شناخت کا بحران بیان کرتا ہے۔

کوئی کہانی کیوں لکھتا ہے ۔؟۔۔ اگر اُسکے ذہن میں سوال ہیں یا جواب ۔۔ وہ اُنہیں من و عن قلم بند کیوں نہیں کر لیتا۔۔ کہانی کا کشت کاٹنا ضروری ہے کیا۔؟۔۔ اور وہ بھی ایک عہد ، کئی زندگیاں جی کر اُس میں سے واقعات ، کردار کشید کرنے کا عمل سہل تو نہیں ۔۔۔ کوئی تو وجہ ہو گی ۔۔۔؟۔

ہو سکتا ہے کہانی کار خود بھی نہ جانتا ہو وہ کہانی میں اُترا کیوں ۔؟۔۔ اور ممکن ہے وہ یہ ہی جاننے کے لیئے اُس کے اندر اُترتا ، ڈوبتا ، اُبھرتا ،مٹتا ، سمٹتا ، اُلجھتا ، پگھلتا چلا جاتا ہو۔۔

پھر اُسے اس کہانی سے نکلنے کا راستا نہ ملتا ہو تبھی وہ اس میں اکیلا نہیں جا گھستا ۔۔ اپنے ہمراہ ہم جیسے بہت سے اور تجسس کے ماروں کو بھی لے جاتا ہے شاید وہ خود نہیں تو اُس کا کوئی ساتھی ، کوئی قاری اس جِگ سا پزل (بھول بھلیوں) میں سے نکلنے کا راستا کھوج لے ۔۔

نیلم احمد بشیر نے بھی کچھ اِسی طرح کی ’لکن میٹی‘ کو ’کلاچھپاتی ‘کھیلنے کو آواز لگا دی اور اُسکی آواز پر کان دھرنے والے قاری اُسکے ساتھ ہو لیئے ۔۔

وہ ہمیں اس عہد کی عظیم تر طاقت کی سرزمین پر لے کر جاتی ہے جہاں زندگی کے ساتوں رنگ ہیں ۔ اِن رنگوں کو دوریوں ، نزدیکیوں سمتوں اور زاویوں سے تو دیکھا جا سکتا ہے۔۔ چھوا نہیں جا سکتا۔۔ ہر رنگ بے لمس ہے ۔۔ بس اپنے تعاقب میں بلائے جاتا ہے اُسے چھونے اُس میں رنگ جانے کو آپ اُسکے پیچھے دوڑے چلے جاتے ہیں وہ ہاتھ آتا نہیں ۔۔ سانس پھول جاتی ہے ، ہانپ جاتے ہیں دوڑتے دوڑتے حتیٰ کہ لڑکھڑا کر اوندھے منہ گِرجا تے ہیں رنگ ہاتھ لگتا نہیں ۔۔ یہ رنگ اتنے حسین ، منفرد اور جاذبِ نظر ہیں کہ اِن کے بصری فریب کی زد سے گزیز ممکن نہیں ۔۔ آپ سات سمندر اِس پار ہیں کہ اُس پار یہ دھنک ناچتے مور کی طرح آپ کو بہکائے رکھتی ہے ۔ رنگوں کی اس ہولی کا فسوں متاثرین کو اپنی زمین سے دونوں پاﺅں اُٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے اور خواب دیکھنے والا جب بیدار ہوتا ہے تو خلا میں معلق اپنے قدموں کو دیکھتا رہ جاتا ہے ڈر کے مارے وہ اپنی زمین پر واپس قدم رکھنا چاہتا ہے لیکن اب خاصی دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔ اُسکی زمین کوسوں دُور ہے وہ خود کو خلا میں معلق پاتا ہے ”طاﺅس فقط رنگ “ خلا میں معلق رہ جانے والوں کے خوف سے ہانپتے کانپتے عہد کی کہانی ہے۔ شناخت کے بحران کا نوحہ ہے۔ پیدائشی امریکی ، ہجرت زدہ ، غیر ملکی ، جلا وطن ، بے بطن ، بے وطن ، بے شجر ، بے نصب ، ایسے تمام جڑوں سے اُکھڑے اوندھے منہ گرے درختوں ، پودوں ، پہاڑوں اور ٹیلوں کی کہانی ہے ۔

زمین کے سیارے پر انسان کی خود ساختہ آفات کے اثرات کا منظر نامہ ہے ۔

ہر کردار اپنی معصومیت اور بے بسی کے ہاتھوں مجبور ہے جبلت کا جبر ، بقا کا کرب بہر طور اُسکا مقدر ٹھہرتے ہیں ۔ اُس پر احساس زیاں ، ادراک اور آگہی کا عذاب اُسے شدت پسندی اور انتقام کے جہنم میں جھونک دیتے ہیں ۔ وہ جس بھی رنگ ، نسل اور پس منظر سے ہے اپنے ہم سیارہ سے کٹا ہوا ، بٹا ہوا ، منقسم ہے۔ اپنے ازل کی تلاش میں گرداں اپنی شناخت کھوجتا پھر سے جڑنے کا آرزو مند ، حسرت زدہ ہے۔

” آپ کی زبان میں عربی دعائیں ٹیپ کروں گی تو گاڈ مجھے بھی Blessکرے گا ہے نا۔؟۔۔ میرا آپ کا God تو ایک ہی ہے نا۔؟۔۔ ہم سب ایک ہی تو ہیں ایک مالا میں پروئے ہوئے موتی ۔۔ ہم کوئی غیر تھوڑا ہی ہیں ۔۔ ۔“

ڈی لائلہ نے پیار سے مسز چین کو کمبل اوڑھاتے ہوئے کہا ۔۔

یہ لڑکی میرے ساتھ کیا کر رہی ہے ۔؟۔۔ اتنی مہربانی کی وجہ کیا ہے ۔۔۔؟۔۔

سر پھر ی لگتی ہے ۔۔

صفحہ280۔۔ باب28۔۔

”سر پھری “ وہ ڈیلائلہ بھی تھی جو اپنے سیمسن کو بے طاقت کرنے کے لیئے اُسکے سر کے بال کاٹ دیتی تھی اور یہ ڈی لیلہ بھی ہے جو انتہا پسندی کی اس جنونی کیفیت کے باوجود دُنیا بھر کے انسانوں کو ایک ہی مالا میں پروئے ہوئے موتی کہہ رہی ہے ۔

” ڈی مائی لَو۔۔۔ سبھی مائیں ایسی ہوتی ہیں ۔۔ پیار سے بھری ہوئی ۔۔ “

جولیا بولی ۔۔ صفحہ نمبر24۔۔ باب26۔

جولیا ، سجیلہ ، قمر النساءچین تین مختلف براعظموں سے سفر کرتی ہوئی یہ عورتیں ممتا کے جس جزیرے پر پڑاﺅ ڈالے بیٹھی ہیں اُس جزیرے کی آغوش کی تمازت ہم سب کا تجربہ ، ہم سب کی پناہ ہے ۔۔

” بیٹا۔۔ خدا پر اور امریکن جوڈیشل سسٹم پر بھروسہ رکھو جب تم دہشت گرد ہو نہیں تو کیسے ثابت کر سکیں گے۔۔“

وہ تسلی دیتی ہے ۔۔ صفحہ نمبر243۔۔

بھروسے کی یہ توقع عقیدے اور نظام سے نہیں انسان کی انسان سے ہے ۔۔ نیلم نے انسانوں کے درمیان اِسی ٹوٹے جڑتے ناطے کو کھوجنے کی کوشش میں کہانی کا یہ کشت کاٹا۔۔

” مام نسل پرست کون نہیں ۔؟۔۔ کیا آپ نہیں چاہتیں کہ میں آپ کی مرضی سے کسی پاکستانی لڑکی سے شادی کروں۔۔“۔۔۔۔ صفحہ نمبر221۔۔ باب۔۔42۔۔

” میں نے باقاعدگی سے نماز پڑھنا شروع کر دی ہے اور سچ بتاﺅں تو اللہ سے لو لگا لی ہے ۔۔ “

بنیاد پرست حلیئے میں سجیلہ اور کنول ۔۔ صفحہ نمبر219۔۔باب41۔۔

”یہ وائٹ مین کا ملک ہے ۔۔ اِن کی برتری ہمیشہ برقرار رہے گی ۔۔ “

گریگری اور مراد ۔۔ صفحہ نمبر212۔۔ باب34۔۔

واقعات ، مکالموں ، صورتِ احوال ، کرداروں کا یہ ” کولاج “ کہانی میں طاﺅس کا وہ رنگ بکھیرے ہیں جو seduce کر رہا ہے قلمکار کو اور جسکی کشش میں وہ کھنچتا چلا جا رہا ہے اپنے قاری سمیت اُس روشنی کو کھوجنے کے لیئے جو وجہ بنی ہے اس سست رنگی دھنک کے منظر نامے کی ۔۔ اور جب چکا چوند کر دینے والی یہ روشنی منکشف ہوتی ہے تو آنکھیں چندھیا جاتی ہیں ہم خود کو ایک تاریکی میں پاتے ہیں۔ ۔۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا ۔۔ ”اور لینڈو “کے نائٹ کلب pulseکا اندھیرا جہاں اچانک ایک امریکی شہری 29سالہ عمر متین اندھا دُھند فائرنگ کے نتیجے میں سو افراد کو نشانہ بنا لیتا ہے ۔۔ اِسی اندھیرے میں وہ 15 سالہ نیکولس کروز بھی ہے جو فروری 2018فلوریڈا کے ہی ایک سکول میں قتلِ عام کرتا ہے اور اِسی تاریکی میں امریکی شہری سید فاروق اور اُسکی بیوی تاشفین ملک پیدائشی امریکی بچوں کو گھر میں چھوڑ کر ” برناڈینو“ میں 14افراد کو خون میں نہلا دیتے ہیں۔ ایسے لاتعداد جنونی ، دُنیا کے اس ترقی یافتہ ، مہذب ترین ، عظیم طاقتور ملک کی سرزمین پر بے وجہ بے وقت اندھا دھند وار کے نتیجے میں سینکڑوں ، ہزاروں امریکی پیدائشیوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلتے جا رہے ہیں۔

صرف 2015میں امریکہ کی سر زمین پر 355قتل عام ہوئے ۔۔ 1966اور2012کے دوران 292 افراد پبلک ماس شوٹنگز کا شکار ہوئے ۔ یہ تمام شدت پسند نیلم احمد بشیر کی ” ڈی لیلیٰ “ کی طرح اُسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش میں ہیں جوصدیوں پہلے بلھے شاہ نے اُٹھایا تھا ” کی جانا ںمیں کون۔؟۔۔“ سجیلہ بھی اپنے امریکی پیدائشی بیٹے مراد کی شادی ایک پاکستانی لڑکی سے اِسی لیئے کرنا چاہتی ہے کہ اُسے بھی جاننا ہے وہ کون ہے ۔؟۔ وہ گیانا کی قمر النساءچین ہے ، کنول ہے کہ عاقل بیگ ہر ایک کے اندر وہی جنونی مضطرب ” ڈی “ ہے جو راستے میں آنے والے ہرسیمسن کے بال کاٹ کر اُسکی ہر طاقت چھین لینا چاہتی ہے ۔ ۔ اس identity crises کا شکار فرد تو ہے سو ہے مگر اب قومیں بھی ہو چکی ہیں۔۔ ریاستی سطح پر دہشت گردی کا جو چلن عہد رفتہ کا خاصہ ہے وہ کسی تیسری عالمی جنگ کا اشارہ دے رہا ہے۔

1929/30میں امریکہ میں سٹاک مارکیٹ کے کریش کے بعد Great depression کا دَور تھا ۔ اس انتہائی افسردگی کے عالم میں امریکہ کے معروف لکھاری اور تاریخ دان James Truslowنے 1931 میں ایک ترکیب متعارف کروائی تھی ۔۔ ”امیرکن ڈریم “ جس کے مطابق ہر امریکی شہری کو اُسکے سماجی پس منظر ، طبقے اور پیدائش کے حالات سے مبرا ، خوشحالی اور ترقی کے مساوی مواقع کا حق حاصل ہونا چاہئے۔

تب 1933میں امریکہ کے 32ویں متخب شدہ صدر ”روز ویلٹ “نے کہا تھا ۔”خوفزدہ ہونے کے لئے ہمارے سامنے اگر کچھ ہے تو وہ بذاتِ خود ” خوف “ ہے۔ “

اس امریکن ڈریم کے فریبی ہونے کے موضوع پرجدید امریکی فکشن میں بہت معروف اور بڑے نام ملتے ہیں ۔۔جن میں سے Philip Roth… John updike.. norman mailer.. core vidalنمایاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).