رو میں ہے ’رخشِ عدل‘۔۔۔


مرزا غالب نے کہا تھا کہ ’’رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے ‘‘۔۔۔ مگر جمعہ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ سنتے ہی ہمارے دوست اور دانشور حماد غزنوی نے اِس مصرعہ میں ’رخشِ عمر‘ کو ’رخشِ عدل‘ سے تبدیل کر دیا۔ ہے تو یہ تخلیقی حرکت، مگر آجکل چونکہ آئین میں درج بنیادی حقوق سے زیادہ صادق اور امین والے آرٹیکل توجہ کا محور ہیں، اِس لئے کچھ پتا نہیں کہ کوئی ادبی عدالت اِس شعری تحریف کا سؤ و موٹو نوٹس لے کر حماد غزنوی اور شاہد ملک دونوں کو طلب کر لے۔ پہلے آدمی کو اِس لئے کہ انہوں نے زیرِ نظر شعر کی ’بھن تروڑ‘ کرکے اُسے اپنی مرضی کے سیاق و سباق میں فِٹ کرنے کی کوشش کی۔ ثانی الذکر کے وارنٹ اِس بنا پر کہ ازالہء حیثیت عرفی کے مقدمات میں کسی کے خلاف توہین آمیز بیان کو دہرانے والا بھی توہین کا مرتکب قرار پا سکتا ہے، جیسے اخباری رپورٹر کے ساتھ ایڈیٹر، پرنٹر اور پبلشر بھی دھر لئے جاتے ہیں۔

یوں پھنستے تو ہم دونوں ہیں، لیکن ہمارے خلاف مقدمہ چلاتے ہوئے عدالت کو بھی اِس فنی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ مصرعہ تبدیل کر دینے سے آیا مرزا غالب کی اپنی دل آزاری ہوئی یا اُن کے گھوڑے کی۔ سوال کے عدالتی مضمرات اِس لئے اہم ہیں کہ قانون کی رو سے کسی ایسے شخص کی براہِ راست توہین ہو ہی نہیں سکتی جو دنیا سے جا چکا ہو۔ گھوڑے کی بات اور ہے کہ وہ اسلامی روایات کی علامت بھی ہے اور ایک زندہ سلامت عسکری جانور بھی۔ پطرس بخاری بناسپتی گھوڑے کے مقابلہ میں اصلی گھوڑے کے متعلق کہہ چکے ہیں کہ دکان پر اسی کا گوشت بکتا ہے اور زین کس کر کھایا جاتا ہے۔ پطرس بخاری کے مضمون کا عنوان تھا ’لاہور کا جغرافیہ‘۔ تاریخ اور جغرافیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، لہذا ذرا سا اضافہ کر لیں تو عنوان مزید نکھر جائے گا، یعنی ’لاہور کا جغرافیہ اور راولپنڈی کی تاریخ‘۔

عدالت کا ممکنہ اقدام خدا جانے کیا ہو، لیکن شعری تحریف کو بنیاد بنا کر کوئی بھی شہری پبلک سروس چارہ جوئی کے لئے سامنے آ سکتا ہے۔ اپنے وقت کے مقبولِ عام وکیل ایم ڈی طاہر نے ہماری لاہور ہائی کورٹ میں پیپل کے درخت تلے بیٹھ کر عوامی بھلائی کی حفاظت اور فروغ کے لئے اتنی درخواستیں دائر کیں کہ اُن کا نام دنیا کے سب سے بڑے پبلک سروس مقدمہ باز کے طور پر گینس بُک آف ریکارڈز میں محفوظ ہو گیا۔ پھر بھی سچ کہوں تو تازہ عدالتی فیصلہ پر مجھے طاہر مرحوم کی بجائے لا ء کی ایوننگ کلاس کے اُستاد اکبر ملک یاد آئے جن کی جوشیلی گفتگو سُن کر مرزا غالب کے مصرعہ کی طرح بسا اوقات احمد ندیم قاسمی کے اِس حکیمانہ قول میں ترمیم کرنے کو جی چاہتا تھا کہ شاعری رائے کا اظہار نہیں، جذبہ کا اظہار ہے۔ وجہ یہ کہ اکثر وبیشتر ہمارے اِس باغ و بہار استاد کی رائے جذبہ ہی کا اظہار ہوا کرتی۔

اکبر ملک صاحب، جو نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی کے عزیز اور پی ایل ڈی کے نام سے عدالتی فیصلوں کی سیریز کے جوائنٹ ایڈیٹر تھے، آئینی تاریخ کے پیریڈ میں ماضی کے سیاسی و عدالتی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بہت جوش میں آ جاتے۔ جسٹس منیر کے جانی دشمن تھے۔ چودھری محمد علی اور ملک غلام محمد کو نوکر شاہی کے ناتے سے بابو محمد علی اور بابو غلام محمد کہا کرتے۔ باقی کابینہ کے لئے بھی کچھ خیالی کردار تراش رکھے تھے، جیسے مسٹر ایڈورڈ گھسیٹا، مسٹر نتھو سنگھ سپاٹا۔ ایک دن ارشاد ہوا ’’یہ لوگ اپنے آپ کو انکلز آف پاکستان سمجھتے تھے۔۔۔ مامائے ملت ‘‘۔ یہ کہا اور کلاس روم کے اسٹیج پر بلند و بالا میز کرسی پہ آگے کو ہلتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے کسی چیز کو جکڑنے کا اشارہ دے کر کہنے لگے ’’اقتدار کے ساتھ چمٹ جاتے تھے ‘‘۔ ساتھ ہی بلند آواز میں بہن کی گالی۔ ایوننگ کلاس والوں پہ کیا بیتی؟ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

ابھی میرے دو ایک ہم جماعت موجود ہیں جو اِن واقعات کی گواہی دیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتائیں گے کہ استادِ گرامی ہمیں پڑھاتے ہوئے جوڈیشل مائنڈ سیٹ کی اہمیت پہ کتنا زور دیتے تھے۔ شہادت کی روشنی میں فیصلے اور قانون کی منصفانہ توضیح، اِس کے سوا کچھ نہیں۔ اسی لئے تو ایک صبح جب مَیں ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار اور اپنی کلاس کے سینئر طالب علم جعفر علی زیدی کے دفتر پہنچا تو عجیب نظارہ دیکھا۔ عام حالات میں ازحد خوش مزاج زیدی صاحب ہتھیلی ماتھے پہ رکھ کر کہنیوں کو یوں ڈیسک پہ ٹکائے بیٹھے تھے جیسے شدید صدمہ سے دوچار ہوں۔ میرے استفسار پر انہوں نے ہمارے ایک اور استاد کا نام لیا جو اُسی روز جج مقرر ہوئے تھے اور بعد میں عدالتِ عظمی کے چیف جسٹس بھی بنے۔ وہ جو انگریز لوگ کہا کرتے ہیں ’’نائس مَین ٹو ٹاک ٹو‘‘۔۔۔لیکن میرے دماغ میں جوڈیشل مائنڈ سیٹ والی سوئی اٹک کے رہ گئی۔ کلاس میں اُن کا رویہ یہ رہا کہ جورسپروڈنس کی کتاب میں سے چند سطریں پڑھ کر مجھے یا آصف ہمایوں قریشی کو اشارہ کر دیتے ’’پروفیسر صاحب، اب آپ ریپیٹ کر دیں‘‘۔

یہ وہ زمانہ ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے الزام میں اعانتِ جرم کا مقدمہ چل رہا تھا۔ اِس ضمن میں عدالتِ عالیہ میں بطور ٹرائل کورٹ ہونے والی کارروائی، پھر سپریم کورٹ آف پاکستان میں دو ججوں کی سبکدوشی اور چار تین کے متنازعہ اکثریتی فیصلہ پہ بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ میری سادگی کہ مَیں دیگر تمام ملحوظات سے قطعِ نظر اپنے جوڈیشل مائنڈ سیٹ کی روشنی میں صفائی کے بڑے وکیل یحییٰ بختیار مرحوم کے دلائل کو تحسین کی نظر سے دیکھتا رہا۔ سب سے پہلے یہی کہ ہائی کورٹ کا بینچ بھٹو کے خلاف تعصب کا شکار تھا، جس کا اظہار دورانِ سماعت ہوا۔ دوسرے استغاثہ کے بڑے گواہ کا یہ موقف کہ جرم کی سازش میں اُن کی شمولیت اپنی منشا کے بغیر اشد مجبوری کے تحت تھی۔ تیسری تھی یہ دلیل کہ سازش کا ہونا پہلے ثابت کیا جائے، تب مذکورہ گواہ کی شہادت پہ انحصار کیا جا سکتا ہے۔

میرے لا کالج کے قریبی دوست سلجھے ہوئے دل و دماغ کے لوگ تھے اور ہم میں جیالا کوئی بھی نہیں تھا۔ پر بے بسی کہتے کسے ہیں؟ یہ کوئی ہم سے پوچھے۔ عدالتی فیصلہ سُن کر کسی نے کھانا نہ کھایا۔ پاک ٹی ہاؤس میں آ کر بیٹھے ضرور، لیکن وہی حال کہ ’دل ٹھہرے تو درد سنائیں، درد تھمے تو بات کریں ‘۔ اِس مرحلہ پر ہمارے محبوب خدمتگار الٰہی بخش نے ممتا بھرے لہجہ میں کہا تھا ’’تھوڑے سے چاول ہی کھا لو ‘‘۔ پھر نفی میں سر کی جنبش دیکھ کر اپنے کانگڑہ والے لہجہ میں کہنے لگے ’’صاحب جی، ساڈے نال تے اوہئی ہویا، رب نیڑے کہ گھسُن نیڑے‘‘۔ بھٹو کی پھانسی کے ستائیسویں دن اِسی ٹی ہاؤس میں کمال جرات سے کام لیتے ہوئے منفرد گلوکارہ اقبال بانو نے پہلی بار فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ سنائی تھی۔ آفرین ہے پروفیسر امین مغل پر جنہوں نے تقریر کی اور حبیب جالب نے تازہ کلام سے نوازا۔ اقبال بانو کی تالیوں والی ’ہم دیکھیں گے‘ بعد کی بات ہے وگرنہ اُس دن تو ہماری سسکیاں بھی خاموش تھیں۔

تو اِس موقع پر جوڈیشل مائنڈ سیٹ والے نوجوان نے قوم کی کیا خدمت کی؟ آپ جو سزا چاہیں تجویز کر لیں، مگر غائبانہ نمازِ جنازہ پہ نیم دیوانگی کے عالم میں ایک بڑا سا نو کیلا پتھر زور سے بلوہ پولیس پر پھینکنے کے سوا گورنمنٹ کالج کے اِس لیکچرار کا اُس وقت کوئی رول نہیں تھا۔ البتہ جس طرح اردو میں اصولِ تنقید کی اولین کتاب ’مقدمہٗ شعرو شاعری‘ میں مولانا الطاف حسین حالی نے لکھا ہے کہ دورِ جاہلیت میں شاعری ترقی کرتی ہے، ویسے ہی اُس پر منکشف ہوا کہ عہدِ جبر میں تصوف ترقی کرتا ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بہت سے پاکستانیوں نے اندھا دھند نمازیں پڑھنی شروع کر دی تھیں۔ جوڈیشل مائنڈ سیٹ والے کو بھی عافیت اِسی میں دکھائی دی کہ باقی زندگی کے لئے باطن کی پناہ گاہوں میں مورچہ بند ہو جائے۔ دل ہی دل میں یہ بھی سوچ لیا کہ جب کوئی قانون ہی نہیں تو پریکٹس کرنے کا فائدہ؟

آج آئین کی بنیادوں، مملکتی اداروں کے کردار اور معاشی پالیسی پر جو ’گھڑمس‘ مچا ہوا ہے اور پاکستانی عوام جس شدید گروہ بندی کا شکار ہیں، اُس میں یہی سمجھ میں نہیں آ تا کہ الجھی ہوئی ڈور سلجھانے کی خاطر دھاگے کا سرا پکڑا کہاں سے جائے۔ اشرافیہ کو چھوڑیں، پیشہ ور متوسط طبقہ کا آدمی بھی محکمانہ سوچ کی حدوں سے باہر نہیں نکل رہا۔ سرکاری افسر کہتا ہے ’’ملک کا بیڑا غرق سیاستدانوں نے کیا ‘‘۔ سیاسی بندہ ہے تو ’’سب سے بڑا مسئلہ مسلح افواج کی مداخلت ہے‘‘۔ کالج یونیورسٹی کے استاد وں کے نزدیک ’’اصل خرابی کرپٹ بیوریو کریسی نے پیدا کی‘‘۔ بیوریوکریٹ کہے گا ’’مذہبی تنظیموں کو سنبھالیں، یہ کنٹرول سے باہر ہو چکی ہیں‘‘۔ بات عدالت کے گھوڑے سے شروع ہوئی تھی۔ مجھے تو یہ ’ہرڈل ریس‘ الجھا ہوا دھاگا پکڑنے کی نیک دلانہ، مگر اضطراری کوشش لگتی ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ گھوڑ سوار اِدھر رہے اور گھوڑا پار نکل جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).