پردیس میں بے بسی کی موت اور بہنوں کی نئی زندگی


میں نے انہیں آمادہ کیا کہ وہ ان کے پاس جائیں اور اپنے فون پر میری ان سے بات کرادیں یا ممکن ہوسکے تو ان کے گاؤں کے کسی آدمی کا فون نمبر لے لیں تو میں خود انہیں فون کرلوں گا۔ امتیاز صاحب نے کہا کہ وہ تھوڑی دیر میں مجھے بتاتے ہیں۔
چالیس منٹ کے بعد ان کے ایس ایم ایس کے بعد میں نے انہیں فون کیا۔ انہوں نے مجھے مرنے والوں کے ماموں کا فون نمبر دیا تھا۔

اسی عرصے میں مجھے میرے آفس سے میرے ساتھ کام کرنے والی ایولن لونارا کا فون آگیا کہ عراقی خاندان کا پتا نہیں چل پارہا ہے اور روم میں رہنے والے مقامی عراقیوں کے سرگرم افراد کو ساری لاشوں کی تفصیلات دیدی گئی ہیں۔ اگر ایک ہفتے میں کچھ نہیں پتا لگا تو مقامی عراقیوں کا خیال ہے کہ انہیں مقامی طور پر ہی دفن کردیا جائے۔
پاکستان کے شام کے وقت میں نے مرنے والے کے ماموں کو فون کرکے بتایا کہ محمد رفیق کی لاش سمندر سے ملی ہے، اس کے ساتھ کچھ اورپاکستانیوں کی لاشیں بھی ہیں۔

عام طور پر پاکستانیوں کی لاشیں روم میں رہنے والے مقامی پاکستانیوں کے تعاون سے اگر ممکن ہو تو پاکستان بھیجی جاتی ہیں یا دفن کردی جاتی ہیں۔ محمد رفیق کا ماموں یہ خبر سن کر فون پر رونے لگا تھا، ہچکیوں کے بیچ میں اس نے بتایا تھا کہ وہ بہت پریشان تھا، اس کے خاندان پر بڑا قرضہ تھا اور وہ بچہ اس قرضے کو ہر صورت میں اتارنا چاہتا تھا، ایجنٹ نے پانچ لاکھ روپے لیے تھے اور یہ وعدہ کیا تھا کہ اسے لے کے جائیں گے اور نوکری بھی دلائیں گے مگر سارے وعدے غلط ثابت ہوئے اورسارا کاروبار دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہیں، میں نے ان سے کہا کہ میں انہیں دوسرے دن دوبارہ فون کروں گا۔

شام ہوچلی تھی اور پاکستانی کمیونٹی کے کچھ لوگ آپریشن اومیگا کے آفس پہنچ چکے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ بائیس لاشوں میں چودہ لاشیں پاکستانیوں کی لگتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے کے سارے ایک ہی علاقے کے رہنے والے تھے۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد یہ طے ہُوا کہ اتنی ساری لاشوں کو پاکستان بھیجنے کا خرچہ بہت ہوگا۔ اگر کوئی شخص پاکستان سے آکر لاشوں کوشناخت کرے تو اس کے بعد کمیونٹی اسے دفن کرنے کا انتظام کردے گی اور اگر کوئی نہیں آنا چاہتا تو کمیونٹی پھر بھی انہیں دفن کرنے کو تیار ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کے لوگ پاکستان سے آنے والے کے کرائے کا بھی بندوبست کرنے کو تیار تھے۔

دوسرے دن میں نے پھر محمد رفیق کے ماموں کو فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ رفیق کے ساتھ اس علاقے کے نو اورخاندانوں نے بھی اپنے بیٹوں کے لیے پیسے جمع کرائے تھے اور ان لوگوں کی بھی کوئی خبر نہیں ہے۔ پورے گاؤں میں ایک کہرام مچ گیاہے، لوگوں کا رو رو کر بُرا حال ہے، رفیق کی ماں سینہ کوٹ کوٹ کر بیٹے کا ماتم کررہی ہے۔ اس کا جوان بیٹا اپنی اُمنگوں اور اپنی ماں کے خوابوں کے ساتھ کھوگیا تھا۔

میں افسوس کے علاوہ کیا کرسکتا تھا۔ یہ کیسا ملک ہے ہمارا، کیسے لوگ ہیں ہم، ہمارے پاس ایٹم بم ہے مگر اپنے بچوں کے لیے تعلیم نہیں ہے، ہم اربوں روپے اسلحہ جات پر خرچ کردیتے ہیں لیکن اپنے کسانوں کے بچوں کو روزگار نہیں دے سکتے۔ ہم لوگ موٹروے، بائی پاس، انڈرپاس اور نہ جانے کیا کیا بنانے میں کروڑ ہا کروڑ خرچ کررہے ہیں لیکن ان نوجوانوں کوسمندروں میں غرق ہونے سے نہیں بچاسکتے، جو اپنی ماؤں کو چھوڑ کر اپنے بھائی، بہنوں، خاندانوں، دوستوں، یاروں سے دُور دیس جا کر جانیں دے رہے ہیں۔ جتنا میں سوچتا تھا اتنا ہی مجھے غصّہ آتا تھا۔

میں نے محمد رفیق کے ماموں کو بتایا کہ اگر وہ چاہیں تو کسی کو بھیجنے کے بارے میں سوچیں تو میں یہاں سے ویزے کا انتظام کروں گا اور یہاں رہنے والے پاکستانی لوگ ٹکٹ کا انتظام کردیں گے، اس طرح سے لاشوں کی شناخت ہوجائے گی۔

اگلے دن ان سے دوبارہ بات ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ محمد رفیق کے بڑے بھائی کو بھیجنے کو تیار ہیں جو علاقے کے ان نوجوانوں کو جانتا بھی تھا وہ بھی آنے کا خواہش مند تھا مگر رقم کا بندوبست نہ ہونے کی بنا پر چھوٹا بھائی زندگی بدلنے کے لیے نکل کھڑا ہُوا تھا۔

میں نے کہا کہ اس کا پاسپورٹ بنائیں اور تفصیلات مجھے بھیجیں اور ساتھ ہی میں نے پاکستانی کمیونٹی کو اس بارے میں اطلاعات فراہم کردی تھیں۔ لاشوں کو مردہ خانوں میں ہی رکھے رہنے دیا گیا۔ عراقیوں کے لیے فیصلہ کیا گیا کہ عراق میں صورت حال اتنی خراب ہے کہ وہاں سے کسی بھی قسم کا رابطہ ممکن ہی نہیں ہورہا ہے۔ یہی فیصلہ ہُوا کہ لاشوں کی تصویریں لے کر لاشوں کو مقامی قبرستان میں دفن کردیا جائے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5