پردیس میں بے بسی کی موت اور بہنوں کی نئی زندگی


بیس دن کے اندر ہی اٹلی میں ہی محمد رفیق کے بھائی کا ٹکٹ خریدا گیا اور اس کے آنے کے تمام انتظامات کرادیے گئے تھے۔ آپریشن اومیگا کے ذریعے اس کے ویزے کا انتظام بھی ہوگیا تھا۔ میں ہی اسے ایئرپورٹ لینے گیا۔ اسے ایئرپورٹ پر پہچاننے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہیں ہوئی۔ اس نے شلوار قمض پہنی ہوئی تھی اور ایک لمبا سا کالاکوٹ سردی سے بچاؤ کے لیے پہنا ہُوا تھا جو شاید بھاولپور یا ملتان کے پرانے کپڑوں کی دوکان سے لیا گیا ہوگا۔

وہ میرے گلے لگتے ہی رو دیا۔ یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی لیکن بھائی کے مرنے کا غم اس کی آنکھوں سے سیلاب کی صورت بہہ رہا تھا۔ میں اسے اپنی گاڑی میں بیٹھا کر اپنے آفس لایا، اس کے رہنے کا انتظام ایک پاکستانی کے گھر پر کیا گیا تھا۔ آپریشن اومیگا اس کے ہوٹل کا خرچ برداشت کرنے کو تیار تھی مگر پاکستانیوں کا خیال تھا کہ وہ کسی کے ساتھ رہے تو بہتر ہے۔ گاؤں کا آدمی ہوٹل میں نہیں رہ سکے گا۔ کہاں ملتان کا ایک گاؤں اور کہاں اٹلی کا ایک ہوٹل۔ مناسب یہی تھا کہ وہ کسی پاکستانی خاندان کے ساتھ رہے، میرا بھی یہی خیال تھا۔
وہ میرے آفس میں بھی مسلسل روتا رہا۔ سرخ آنکھوں سے آنسو مسلسل بہتے رہے تھے اور وہ بے آواز رورہا تھا۔ میں بڑی دیر تک اس سے باتیں کرتا رہا۔

اس نے بتایا کہ وہ سب نو بھائی بہن ہیں۔ دو بہنوں کا انتقال ہوچکا ہے، رفیق اور وہ دو بھائی تھے اور باقی پانچ بہنیں جن میں کسی کی بھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا باپ گاؤں کے ایک جھگڑے میں قتل کردیا گیا تھا۔ اس کی ماں اور وہ سب لوگ مقامی زمیندار کی زمینوں پر کام کرتے تھے اوربال بال اسی کے قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ رفیق گاؤں سے بھاگ کر لاہور بھی گیا تاکہ وہاں کام کرکے قرضہ بھی اُتارے اور بہنوں کے ہاتھ بھی پیلے کرے۔ لاہور میں تو کچھ نہیں ہُوا مگر وہ لاہور میں کسی ایجنٹ کے ہتھے چڑھ گیا جس نے اس سے کہا تھا کہ اگر وہ آٹھ بندوں کا انتظام کرلے تو وہ اس سے آدھے پیسے لے کر یورپ بھیج دیں گے۔ محمد رفیق اوراس نے مل کر علاقے میں سارے بندے جمع کرلیے تھے ان سب نے مل کر یورپ آنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

کچھ لڑکوں کے خاندانوں نے منع بھی کیا مگر ان سب کے ذہنوں پر یورپ، نوکری، پیسہ اچھی زندگی، بہنوں کی شادی، زمیندار کا قرضہ، اچھی زندگی اور آزادی سوار تھا۔ ان سب کا خیال تھا کہ وہ قرض لے کر بھی جائیں گے تو اتنا کمالیں گے کہ آسانی سے قرض اتر جائے گا۔ لاہور کے ایجنٹ نے انہیں ایسے ہی خواب دکھائے تھے، ایک ایسا یورپ جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں جہاں کی حسینائیں ان کے انتظار میں بیٹھی تھیں بس صرف پہنچنے کی دیر تھی۔ نوکری بھی مل جاتی تھی اورزندگی کے سارے آرام بھی۔ ایسی جنت میں کون نہیں جانا چاہتا ہے، وہ سب تیار ہوگئے تھے، اس جنت کو خریدنے کے لیے۔ وہ آہستہ سے بولا پھر خاموش ہوگیا تھا۔ میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا سب کچھ تھا اس کے چہرے پر بے چارگی، غم، غصّہ اور مایوسی، ایسا تو میں روز ہی دیکھتا تھا مگر اس مایوسی کو دیکھ کر مجھے اندر سے رونا سا آگیا، میں نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں۔

قرض تو نہیں اترا مگر سب کی جان چلی گئی۔ مجھے اس کی آواز آئی تھی۔ ہمارا علاقہ جیسے ویران ہوگیا ہے، ایک ساتھ اتنے لوگ پہلی دفعہ مرے ہیں وہ بھی گھر سے دُور سمندر میں ڈوب گئے، ایسا کس نے سوچا تھا، اُس نے کہا۔ میں اورمیرے ماموں لاہور گئے تھے کہ اس ایجنٹ سے پتا کریں کہ اصل میں ہُوا کیا ہے مگر نہ وہاں کوئی آفس تھا نہ ایجنٹ ملا اور نہ ہی کوئی نشان۔ پتا نہیں اس نے کیا کیا، نہ پولیس کو پتا تھا نہ سرکاری افسروں کو، نہ ہمارے علاقے کے سیاستدان آگاہ تھے، کسی کو کچھ پتا نہیں تھا مگرسب شامل ہیں صاحب سب شامل ہیں اس کام میں۔ سب پیسہ کھاتے ہیں، سب کا حصہ ہے، ہمارے جیسے لوگ اگر مر بھی جائیں تو کچھ فرق نہیں پڑتا ہے، ان کے پیٹ بھرتے رہنے چاہئیں۔ ان کے پیٹ بھر رہے ہیں۔

دوسرے دن ہمارے ساتھ وہ مردہ خانے گیا اور اپنے علاقے کی نو لاشوں کو شناخت کرلیا تھا۔ ان نو لاشوں کی تصویریں اس کے حوالے کردی گئیں اور یہی فیصلہ ہُوا کہ سارے پاکستانیوں کو اٹلی میں ہی دفن کردیا جائے۔

جمعہ کو ان سب کی نماز جنازہ مقامی مسجد میں پڑھی گئی اور ایک مقامی قبرستان میں مسلمانوں کی جگہ پر ان سب کو دفن کردیا گیا۔ یہ پہلی دفعہ ہُوا تھا کہ نو پاکستانیوں کو اس طرح سے دفن کیا گیا تھا۔ مقامی اخباروں میں چھوٹی سی خبر تھی، پاکستان کے حالات کے بارے میں سچی جھوٹی کہانیاں تھیں، نہ جانے کتنے دنوں تک میرا دِل بوجھل بوجھل سا رہا، ہنستا تھا تو ایسا لگتا جیسے کوئی جرم کررہا ہوں۔

دس دن کے بعد مجھے پتا چلا کہ محمد رفیق کا بھائی محمد نصیب پاکستان واپس نہیں گیا بلکہ نامعلوم ہوگیا ہے۔ مجھے اندازہ تھا کہ اسے نامعلوم کرنے میں مقامی کمیونٹی کا ہی ہاتھ ہوگا۔
پانچ سال گزرگئے، ایک دن میں کسی کام سے میلان گیا تو محمد نصیب مجھے نظر آیا تھا۔ اس نے پینٹ قمیض اور کوٹ پہنا ہُوا تھا، وہ ایک لڑکی کے ساتھ ایک اسٹور سے نکل رہا تھا۔ میں اسے دیکھ کر ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5